counter easy hit

جنت میں ایمان والے مردوں کی تو حوریں ملیں گی مگر نیک مسلم عورتوں کو کیا صلہ ملے گا ؟ تمام شکوک و شبہات کا خاتمہ کردینے والی تحریر

There will be hooves of men who believe in paradise, but what reward do good Muslim women get? Writing that eliminates all doubts

لاہور (ویب ڈیسک) یہ سوال کہ “جنّت میں اگر مردوں کو حُوریں دی جائیں گی تو پھر عورتوں کو کیا ملے گا؟اگرچہ از راہ مذاق ہی کیا جاتا ہے لیکن اس کا جواب مزاح سےنہیں دیا جاسکتا بلکہ سنجیدگی سے اس کا جواب تلاش کرنا ہوگا کیونکہ یہ دین کا معاملہ ہے نامور مضمون نگار عبدالاعلیٰ درانی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ورسول کی شریعت اور عزت و احترام کا مسئلہ ہے ۔ آئیے ہم اس کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں ۔مذکوہ بالا سوال ۔۔۔۔تو اس سوال کا ایک سادہ سا جواب تو وہ ہے جو قرآن نے جگہ جگہ بیان کر دیا کہ جنّت میں مرد و عورت کو تنہا تنہا نہیں بلکہ جوڑوں کی شکل میں رکھا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس جواب میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ “خواتین کا جوڑا مردوں کے ساتھ بنے گا۔” “عورتوں کو مرد دئیے جائیں گے،” یہ تعبیر چونکہ حیا کے منافی تھی اس لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جوڑوں کا ذکر فرمایا ہے۔ جہاں تک حُوروں کا سوال ہے بلاشبہ قرآن میں اُنکا ذکر آیا ہے، مگر اتنی کثیر تعداد سے نہیں جتنا ہمارے ہاں بیان کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ بات جان کر شائد حیرت ہوگی کہ قرآن پاک میں صرف چار مقامات پر حُوروں کا ذکر آیا ہے۔” کذلک وزوجناھم بحور عین ’’یوں ہی ہوگا اور ہم ان کا نکاح کردیں گے بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے۔‘‘ (الدخان :54/44)”وزوجناہم بحور عین ’’اور ہم ان کا نکاح بڑی بڑی اور روشن آنکھوں والی حوروں سے کردیں گے۔‘‘ (الطور : 20/52)حور مقصورات فی الخیام خیموں میں ٹھہرائی گئی حوریں۔‘‘(الرحمٰن :72/55)”وحور عین کامثال اللؤلؤ المکنون ’’اوران کے لیے خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوگی، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔‘‘ (الواقعۃ : 23,22/56)قرآن کریم کے بہت سے مترجمین نے لفظ حور کا ترجمہ خصوصاً اردو تراجم میں خوبصورت دوشیزائیں یا لڑکیاں کیا ہے۔ اس صورت میں وہ صرف مردوں کے لیے ہوں گی۔ تب جنّت میں جانے والی عورتوں کے لیے کیا ہوگا؟ لفظ ’’حُوْر‘‘ فی الواقع اَحْوَرْ (مردوں کے لیے قابل اطلاق) اورحَوْرَاء ( عورتوں کے لیے قابل اطلاق) دونوں کا صیغہ ٔ جمع ہے اور یہ ایک ایسے شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی آنکھیں حَوْرَ سے متصف ہوں، جو جنت میں جانے والے مردوں اورخواتین کی صالح ارواح کو بخشی جانے والی خصوصی صفت ہے اور یہ روحانی آنکھ کے سفید حصے کی انتہائی اجلی رنگت کو ظاہر کرتی ہے۔ دوسری کئی آیات میں قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ جنت میں تمھارے ازواج، یعنی جوڑے ہوں گے۔ اور تمھیں تمھارا جوڑا یا پاکیزہ ساتھی عطاکیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: و بشر الذین امنوا و عملوا الصلحت ان لھم جنت تجری من تحتہا الانہر کلما رزقوا منھا من ثمرۃ رزقا قالوا ھذا الذی رزقنا من قبل و اتوا بہ متشابھا و لھم فیھا ازواج مطھرۃ و ھم فیھا خلدون ’’اور (اے نبی!) جو لوگ اس کتاب پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، انھیں خوشخبری دے دیں کہ ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ جب بھی ان میں سے کوئی پھل انھیں کھانے کو دیا جائے گا تووہ کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہم کو دنیا میں دیا جاتا تھا۔ ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ : 25/2 )نیز فرمایا:و الذین امنوا و عملوا الصلحت سندخلھم جنت تجری من تحتھا الانھر خلدین فیھا ابدا لھم فیھا ازواج مطھرۃ و ندخلھم ظلا ظلیلا ’’اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اورنیک عمل کیے، ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور ان کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اورانھیں ہم گھنی چھائوں میں رکھیں گے۔‘‘ (سورۃ النساء : 57/4) لہٰذا لفظ ’’ حُور‘‘ کسی خاص جنس یا صنف کے لیے مخصوص نہیں۔ علامہ محمد اسد نے لفظ حور کا ترجمہ خاوند یا بیوی (Spouse)کیا ہے، جبکہ علامہ عبداللہ یوسف علی نے اس کا ترجمہ ساتھی (Companion) کیا ہے، چنانچہ بعض علماء کے نزدیک جنّت میں کسی مرد کو جو حور ملے گی وہ ایک بڑی بڑی چمکتی ہوئی آنکھوں والی خوبصورت دوشیزہ ہوگی جبکہ جنّت میں داخل ہونے والی عورت کو جو ساتھی ملے گا وہ بھی بڑی بڑی روشن آنکھوں والا ہوگا۔(واللہ اعلم)جب کہ جوڑے بنائے جانے کا ذکر بکثرت آیا ہے۔ تاہم اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ انسانی نفسیات کے بعض ایسے تقاضے ہیں جن کی بنا پر مرد عورتوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو یہ فضیلت دے رکھی ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر مردوں کی اس وجہ سے محتاج نہیں ہوتیں۔ عورتوں کو مردوں کی ضرورت زیادہ تَر معاشی یا سماجی حوالے سے ہوتی ہے، نفسیاتی طور پر نہیں۔ جنّت کی زندگی میں ناہی کوئی معاشی مسئلہ ہوگا اور نہ معاشرتی۔ چنانچہ عورتوں کی مردوں کی ضرورت اسطرح نہیں ہوگی جسطرح مردوں کو عورتوں کی۔ نتیجے کے طور پر عورتوں کی قدر و منزلت بڑھ جائے گی، جبکہ مردوں کیلئے بعض مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ جنّت کی زندگی میں حُوروں کا وجود مردوں کے ایسے ہی مسائل کا حل ہے۔ جنّت میں داخل ہونے والی خواتین کو اللہ تعالی نئے سرے سے پیدا فرمائیں گے اور وہ کنواری حالت میں جنّت میں داخل ہوں گی۔جنتی خواتین اپنے شوہروں کی ہم عمر ہوں گی۔ جنتی خواتین اپنے شوہروں سے ٹوٹ کر پیار کرنے والی ہوں گی۔قرآن مجید میں ان تمام باتوں کو سورہ واقعہ میں اس طرح بیان کیا ہے۔إنا أنشأھن إنشاء 0 فجعلنھن ابکارا 0 عربا اترابا 0 لاصحاب الیمین 0اہل جنّت کی بیویوں کو ہم نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انہیں باکرہ بنا دیں گے اپنے شوہروں سے محبت کرنے والیاں اور انکی ہم ،یہ سب کچھ داہنے ہاتھ والوں کے لیے ہوگا (سورہ واقعہ: 38-35 )اہل ایمان میں مردوں کے ساتھ کوئی خاص معاملہ نہ ہوگا بلکہ ہر نفس کو اسکے اعمال کے بدولت نعمتیں عطا کی جائیں گی اور ان میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہ ہوگی اور جنت کی خوشیوں کی تکمیل خواتین کی رفاقت میں ہوگی۔قرآن مجید میں فرمان الہٰی ہے۔أدخلو ا الجنة أنتم و ازواجکم تحبرون ترجمہ: داخل ہو جاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں تمہیں خوش کر دیا جائے گا ” (سورہ زخرف: 70)جنّت میں داخل ہونے والی خواتین اپنی مرضی اور پسند کے مطابق اپنے دنیاوی شوہروں کی بیویاں بنیں گی (بشرطیکہ وہ شوہر بھی جنتی ہوں) ورنہ اللہ تعالی انہیں کسی دوسرے جنتی سے بیاہ دیں گے جن خواتین کے دنیا میں (فوت ہونے کی صورت میں ) دو یا تین یا اس سے زائد شوہر رہے ہوں ان خواتین کو اپنی مرضی اور پسند کے مطابق کسی ایک کے ساتھ بیوی بن کر رہنے کا اختیار دیا جائے گا جسے وہ خود پسند کرے گی اس کے ساتھ رہے گی _ حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم ہم میں سے بعض عورتیں (دنیا میں) دو ،تین یا چار شوہروں سے یکے بعد دیگرے نکاح کرتی ہے اور مرنے کے بعد جنّت میں داخل ہو جاتی ہے وہ سارے مرد بھی جنت میں چلے جاتے ہیں تو ان میں سے کون اسکا شوہر ہو گا ؟ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اے ام سلمہ ! وہ عورت ان مردوں میں کسی ایک گا انتخاب کرے گی اور وہ اچھے اخلاق والے مرد کو پسند کرے گی۔ اللہ تعالی سے گزارش کرے گی “اے میرے رب ! یہ مرد دنیا میں میرے ساتھ سب سے زیادہ اخلاق سے پیش آیا لہٰذا اسے میریے ساتھ بیاہ دیں۔ (طبرانی النھایہ لابن کثیرفی الفتن والملاحم الجز الثانی رقم الصفحہ 387 )جنّت میں حوروں سے افضل مقام نیک صالح عورت کو حاصل ہوگا مرد کو حوریں ملیں گی تو نیک مرد کی نیک بیوی ان حوروں کی سردار ہوگی۔حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے میں نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم ! یہ فرمائیے کہ دنیا کی خاتوں افضل ہے یا جنّت کی حور ؟ “آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” دنیا کی خاتون کو جنّت کی حور پر وہی فضیلت حاصل ہو گی جو ابرے (باہر والا کپڑا) کو استر (اندر والا کپڑا ) پر حاصل ہوتی ہے (طبرانی مجمع الزوائد الجز ء العاشر ،رقم الصفحہ (418-417 )چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنّت کیلئے نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:وَلَكُمۡ فِيهَا مَا تَشۡتَهِيٓ أَنفُسُكُمۡ وَلَكُمۡ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ – نُزُلٗا مِّنۡ غَفُورٖ رَّحِيمٖ’’اور وہاں جس (نعمت) کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گی اور جو چیز طلب کرو گے تمہارے لیے موجود ہوگی (یہ) بخشنے والی مہربان ذات کی طرف سے مہمانی ہے۔‘‘(سورۃ فصلت:31-32)اور فرمایا:وَفِيهَا مَا تَشۡتَهِيهِ ٱلۡأَنفُسُ وَتَلَذُّ ٱلۡأَعۡيُنُۖ وَأَنتُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ’’اور وہاں جو جی چاہے اور آنکھوں کو اچھا لگے (موجود ہوگا) اور (اے اہل جنت!) تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔‘‘(سورۃ الزخرف:71)معلوم ہے کہ انسانی نفوس سب سے زیادہ جس چیز کی خواہش رکھتے ہیں، وہ شادی ہے، لہٰذا جنّت میں مردوں اور عورتوں میں سے سب کے لئے اس خواہش کا انتظام ہوگا۔ جنّت میں عورت کی شادی اللہ تعالیٰ اس کے دنیا کے شوہر سے کرے گا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: رَبَّنَا وَأَدۡخِلۡهُمۡ جَنَّٰتِ عَدۡنٍ ٱلَّتِي وَعَدتَّهُمۡ وَمَن صَلَحَ مِنۡ ءَابَآئِهِمۡ وَأَزۡوَٰجِهِمۡ وَذُرِّيَّٰتِهِمۡۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ’’اے ہمارے پروردگار! ان کو ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور جو ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے نیک ہوں ان کو بھی، بے شک تو غالب ،حکمت والا ہے۔‘‘(سورۃ الغافر:8)اور اگر کسی عورت نے دنیا میں شادی نہ کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی کسی ایسے مرد سے شادی کا انتظام کرے گا جس سے اسے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہوگی۔ یہ ان انعامات کو مختصر سے بھی مختصر حصہ ہے جو جنّت میں عورتوں کو عطا کیے جائیں گے جنتی عورت بیک وقت ستر جوڑے پہنے گی جو بہت عمدہ اور نفیس ہوں گے جنتی عورتیں حسن وجمال اور حسن سیرت کے اعتبار سے بے مثال ہوں گی _عورت کے اندر فطری طور پر حیا کا مادہ مرد کی نسبت زیادہ ہے اور وفاداری و محبت بھی خالص ایک کے لیے رکھتی ہے اور حسن و جمال اور زینت کو پسند کرتی ہے ان تمام باتوں کی مناسبت سے جنت میں یہ عیش کریں گی اور نیک عورتیں حوروں پر افضل ہوں گی۔ بہت سے علماء کا خیال ہے کہ قرآن میں جو لفظ ’’حور‘‘ استعمال ہوا ہے اس سے مراد صرف خواتین ہیں کیونکہ اس کے بارے میں خطاب مردوں سے کیا گیا ہے۔ اس کا وہ جواب جو سب قسم کے لوگوں کے لیے لازماً قابل قبول ہو، حدیث مبارک میں دیا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے : قَالَ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالی: اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِینَ مَا لَا عَیْنٌ رَاَتْ، وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَی قَلْبِ بَشَرٍ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے ان کی آنکھوں نے دیکھا ہے نہ ان کے کانوں نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے ۔(صحیح البخاری ، التفسیر ، حدیث: 4779) حدیث کے لفظ عِبَاد میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں،اور اس سلسلے میں شیخ ناصر الدین الالبانیؒ نے سلسلہ ٔ صحیحہ میں ایک حدیث نقل کی ہے :“اَلْمَرْأَ ۃُ لِآخِرِ أَزْوَاجِھَا’’ (جنت میں) عورت (دنیا کے لحاظ سے) آخری خاوند کے ساتھ ہو گی۔‘‘ (الصحیحۃ، حدیث :1281) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں شادی شدہ عورت جنت میں بھی اپنے خاوند ہی کے ساتھ ہوگی، البتہ جن کی شادی نہ ہوئی یا جن کے خاوند کافر رہے ، ان کو جنّت میں مَردوں کے ساتھ بیاہ دیا جائے گا۔ ( روح المعانی : 207/14یعنی جنتی مومنہ خواتین کو حُوروں جیسی کسی نعمت کی ضرورت نہیں۔ جنّت کی زندگی میں تو خود خواتین کا اپنا وجود ہی اِک عظیم نعمت ہوگا۔ اور یہ وہ فضیلت ہے جو جنّت میں مردوں کو حاصل نہیں ہوگی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website