counter easy hit

چوری

Theft

Theft

تحریر : راشد علی راشد اعوان
قرآن پاک میں اللہ کریم کا فرمان ہے کہ محنتی اللہ کا دوست ہے،محنتی سے مراد رزق حلال کمانے والا اور اپنے خون پسینے سے اپنے معمولات زندگی چلانے والے اپنے امتی کے بارے میں نبی ۖ کا فرمان ہے اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت محبوب ہے کہ بندہ رزق حلال کی کوشش میں خوب تھکے، روز قیامت سب سے زیادہ حسرت اس شخص کو ہوگی جس نے دنیا میں مال حرام کمایا ہوگا اور اس وجہ سے وہ جہنم کا ایندھن بنے گا،اب یہاں یہ امر بھی قابلذکر ہے کہ صرف رشوت لینا،حق مارنا اور ناجائز طور طریقوں سے مال و دولت اکٹھی کرنا ہی حرام نہیں بلکہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی برتنا،جس کام کی اجرت لی جائے اسے پورا نہ کرنا بھی کام چوری ہے اور کام چوری کی کمائی بھی حرام ہے، ، کام چوری کیا ہے؟؟دراصل کام چوری سے مراد ان کاموں میں جان بوجھ کر اور بلا عذر کوتاہی اور سستی کرنا جنہیں ہم نے خود اپنے ذمہ لے رکھا ہو مگر انہیں پورا نہ کیا جائے، ان میں سے بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن کا ہمیں معاوضہ ملتا ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی ہم نے اپنی مرضی سے ذمہ داری لے رکھی ہوتی ہے۔

پہلے کاموں میں کوتاہی کے نتیجے میں ان سے حاصل ہونے والی آمدنی پوری طرح جائز نہ ہوگی اور دوسرے کاموں کو ٹالنے کے نتیجے میں ہم وعدہ خلافی کا گناہ مول لیتے ہیں، دونوں صورتوں میں کام چوری کے نتائج تشویشناک ہیں،کام چوری کا یہ مرض وعدہ خلافی، جھوٹ، فریب دہی وغیرہ سے تعلق رکھتا ہے، تاہم کام چوری میں ایک چیز ایسی ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ چیز کام چوری سے خاص ہے اور وہ ہے رزق حلال کی مطلوبہ خواہش نہ رکھنا اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام کا کارآمد حصہ بننے کی خواہش نہ رکھنا، ان دونوں کو ملا کر جو شے وجود میں آتی ہے وہ کام چوری کا لازمہ ہے، ظاہر ہے کہ وہ خرابی کتنی بڑی ہوگی کہ جن دو اہم اجزاء سے اس کا وجود عبارت ہے۔

خود ان میں سے ہر ایک جز مسلمان کی شخصیت کو تباہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے، مشکل یہ ہے کہ کام چوری ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کرچکی ہے، معاشرے میں زیادہ تر لوگ مریض ہوجائیں تو مرض کا احساس اور صحت کی خواہش باقی نہیں رہتی، ہمارے معاشرے کا انتہائی کثیر حصہ اس بیماری میں مبتلا ہے اور اس کے ضرر کا احساس بھی تقریباً مٹ چکا ہے بلکہ اب تو صورتحال یہ ہے کہ جو شخص اپنے حصے کا کام ذمہ داری اور مستعدی سے انجام دیتا ہے اسے پاگل اور احمق گردانا جاتا ہے،سکولون سرکاری اداروں حتیٰ کہ ہمارے بعض وہ مذہبی عقائد بیان کرنے والے بھی اسی لت سے دوچار ہیں،جنہیں ان کے فرائض کی ادائیگی یاد کروائی جاتی ہے مگر انہیں خود اس بات احساس ہر گز نہیں ہوتا کہ ان کے فرائض میں کیا کچھ شامل ہے۔

کام چوری کی اس لت میں بعض افراد فطرتاً عادی ہو جاتے ہیں اور بعض حریص دولت بن کر اس میں کودتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ڈبوتے ہیں، کام چوری میں ہم کام نہ کرکے کام کرنے کے فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہماری کام چوری دنیا سے بے رغبتی کی وجہ سے نہیں بلکہ اسے آسانی اور چالاکی کے ساتھ حاصل کرنے کی ایک سوچی سمجھی تدبیر ہے،سورة النسائمیں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طورپر نہ کھائو، البتہ باہمی رضا مندی سے تجارت کے ذریعے جو مال حاصل کرو وہ کھا سکتے ہو،حدیث پاکۖ میں ہے ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے۔ قیامت کے دن سب سے حسرت ناک انجام اس شخص کا ہوگا جس نے دنیا میں حرام مال کمایا ہوگا اور وہ اسے جہنم میں لے جائے گا،رزق حلالسے مراد حلال کمائی ہے،رزق حلال کے اثرات میں سے ایک اثر اولاد کی تربیبت سے بھی مربوط ہے۔ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے اولاد کی تربیت کے ضمن میں ارشاد فرمایا” اپنے بچوں کی ماں کے رحم ہی سے تربیت کرو۔

اصحاب کو حضرت کے اس کلام کو سن کر بہت تعجب ہوا، سوال کیا: کس طرح اس بچے کی تربیت کریں کہ جو ابھی دنیا میں بھی نہیں آیا ہے؟آپۖ نے عرض کیا اس کی ماں کو حلال و پاک غذا کھلاؤ،پس اگر ماں کی غذا اور باپ کے نطفہ میں مال حرام موجود ہو تو شیطان اس بچے میں حصہ دار ہوجاتاہے” اس لیے کہ شیطان انسان کو راہ الہی سے منحرف اور نابود کرنے کے لیے بہت سے جال رکھتا ہے کہ جن میں سب سے پہلا اور آسان جال انسان کے رزق و روزی کو حرام و نجس کرنا ہے، حرام لقمہ کھانے سے انسان کے وجود اور اس کے گھرانے میں شیطان کے قدم آجاتے ہیں اور ان کے تمام وجود کو گندا اور ان کی زندگی کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتاہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں” وہ شخص خوش بخت ہے کہ جس کی سعادت کی بنیاد شکم مادر ہی میں رکھی گئی ہے اور بد بخت وہ شخص ہے کہ جس کی شقاوت کی بنیاد اس کی ماں کے پیٹ ہی میں رکھی گئی ہے”صحابی رسولۖ حضرت جعفر کا ارشاد ہے” بعض رزق،انسان کی کھال کو اس کی ہڈیوں پر سکھا دیتی ہیں،خلیفہ چہارم حضرت علی بھی حلال روزی کمال کی کوشش کو میدان جنگ میں تلوار چلانے سے افضل مانتے ہیں،رب تعالیٰ ہمیں کام چوری،حرام کی کمائی سے محفوظ رکھے اور رب تعالیٰ ہر انسان کو حلال روزی کمانے کی توفیق عطار فرمائے ،،آمین (ثم آمین)۔

Rashid Awan

Rashid Awan

تحریر : راشد علی راشد اعوان