سینیٹر رحمان ملک نے کہا ہے کہ پوری قوم جاننا چاہتی ہے زینب کے قاتل کون ہیں؟تجویز دیں گے کہ ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو پھانسی دی جائے۔اگر ہم ننھے بچوں کی آہوں کا جواب نہیں دے سکتے تو ہم ناکام ہیں۔

اجلاس میں بلوچستان میں پولیو ورکرز اور سیکورٹی اہلکاروں کی شہادت پر بھی فاتحہ خوانی بھی ہوئی۔ اجلاس میں زینب کے والد محمد امین نے کہا کہ اس روز میرا بھتیجاعثمان بیٹی کے ساتھ سپارہ پڑھنے گیا تھا میرا بھتیجا سپارہ پڑھنے چلا گیا لیکن زینب سپارہ پڑھنے نہ پہنچی، میری بیٹی کے پاس اس روزپیسے بھی تھے، ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت بچی کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی ۔ محمد امین کا کہنا تھا کہ جس روز بچی اغوا ہوئی اسی رات ہم نے ریسکیو 15 پر کال کی تھی، پولیس والے آتے تھے کینو کھاتے اور چائے پیتے تھے، جب لاش ملی تھی اس وقت سراغ رساں کتوں سے ملزم کی شناخت ہو سکتی تھی، ہم نے اپنی فیملی کے سب سے پہلے ڈی این اے کرائے۔
انہوںنے مزید کہا کہ علاقےکےلوگوں کےڈی این اےلیےجارہےہیں،پولیس کی طرف سے بعض لوگوں کو تنگ کرنے کی شکایت بھی آرہی ہے،دو تین مشکوک افراد عمر،آصف اوررانجھاکوپولیس نےپکڑرکھاہے،پولیس نے بتایا ہے کہ گرفتار کئے گئے ملزمان کا زینب سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے پولیس سے کہا ہے کہ ان سے مزید تحقیقات کریں،المیہ ہے کہ بارہ تیرہ روز ہو گئے مجرم نہیں ملا،ہم نے بچوں کو شعور دے رکھا تھا کہ کسی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی،ہمیں جلد سے جلد انصاف ملے ، یہی درخواست ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی ملزم پکڑا جائےایک ہفتے میں مقدمہ چلاکرسرعام پھانسی دی جائے،جو قانون بنایا جائے اسکا نام زینب شہید کے نام پر رکھا جائے۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ آپکی بیٹی تو نہیں لا سکتے لیکن آپ کے زخموں پر مرہم ضرور رکھیں گے۔








