counter easy hit

صف اول کے صحافی کی پیشگوئی

لاہور (ویب ڈیسک) مولانا فضل الرحمن کی اسلام آباد میں دھرنے کے ذریعے موجودہ حکومت گرانے کی خواہش محض دھمکی نہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوئے ’’ملین مارچ‘‘ کے ذریعے وہ اس کی تیاری میں جتے نظر آرہے ہیں۔ ریگولر اور سوشل میڈیا نے اگرچہ ان تیاریوں کو تقریباً نظرانداز کیا ہے۔ نامور کالم نگار نصرت جاوید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا اپنے اجتماعات کو نظرانداز کرنے کا گلہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ جمعیت العلمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) کے پاس ’’نظریاتی‘‘ کارکنوں کی مؤثر تعداد موجود ہے۔ انہیں متحرک کرتے ہوئے مولانا اسلام آباد میں متاثر کن نظر آتا اجتماع کئی دنوں تک جاری رکھ سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں دھرنا مگر تحریک انصاف نے بھی دیا تھا۔ 126دنوں تک جاری رہے اس دھرنے کے باوجود نواز حکومت اپنی جگہ قائم رہی۔ مولانا اپنے تئیں اس کے برعکس نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ اسی باعث پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ ’’ذرائع‘‘ جن پر میں اعتبار کر سکتا ہوں دعویٰ کررہے ہیں کہ مذکورہ جماعتوں میں سے کوئی ایک بھی فی الوقت ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ مولانا کی رائے کو قطعاََ رد بھی نہیں کیا جارہا۔ ’’مناسب وقت‘‘ کے ذکر سے مہلت کا تقاضہ ہورہا ہے۔ نواز شریف خاموش رہتے ہوئے اپنے لئے عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔ان کی جماعت شہباز شریف کے Pragmatismپر تکیہ کئے ہوئے ہے۔ نواز شریف کے ووٹ بینک میں اگرچہ احتجاجی تحریک کی خواہش اُبھرنا شروع ہوگئی ہے۔یہ خواہش ابھی تک مگر خواہش تک ہی محدود ہے۔ لاہور شہر کے کئی کارکن حمزہ شہباز شریف کی احتساب بیورو کے ہاتھوں گرفتاری کی مزاحمت میں شریک نہیں ہوئے۔ اس ’’ٹریلر‘‘ نے نواز لیگ کو سمجھا دیا ہو گا کہ فضا ابھی احتجاجی تحریک کے لئے تیار نہیں ہے۔ آصف علی زرداری طویل عدالتی عمل حتیٰ کہ جیل جانے کو بھی تیار ہیں۔ایک کائیاں سیاست دان ہوتے ہوئے وہ خوب جانتے ہیں کہ محض ان کی گرفتاری پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو احتجاجی تحریک پر اُکسا نہیں سکتی۔ ان کی خواہش ہوگی کہ ان کے جیل جانے کے بعد تحریک انصاف سندھ میں پیپلز پارٹی کے حکومت گرانے کی کوشش میں مبتلا نظر آئے۔ ’’مائنس زرداری‘‘ فارمولے کا اطلاق کرتے ہوئے سندھ میں ایک ایسا وزیراعلیٰ نمودار ہو جو ’’ہدایات‘‘ لینے کے لئے بلاول بھٹو زرداری سے بھی رجوع کرنے سے باز رہے۔ ’’خودمختار‘‘ ہو۔سندھ اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین یہ ’’خودمختاری‘‘ شاید ہضم نہیں کر پائیں گے۔اس صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے کوئی اور راہ اختیار کرنا ہوگی۔ مجھے خبر نہیں کہ وزیر قانون فروغ نسیم کا اس ضمن میں آئین کے آرٹیکل 149کا حوالہ کس انداز میں عملی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ ایم کیو ایم کو ساتھ ملاکر وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومت کی فراغت ہمیں لیکن 1980ء کی دہائی میں واپس دھکیل سکتی ہے۔اس صورت میں پیپلز پارٹی ’’سندھ کارڈ‘‘ کھیلنے کی ہر صورت کوشش کریگی۔ شاید ’’صوبائیت‘‘ کے الزام سے بچنے کے لئے اسے مولانا فضل الرحمن کی لائن کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت محسوس ہو۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز)اور پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر اگر مولانا فضل الرحمن نے فقط اپنی جماعت کے کارکنوں پر انحصار کیا تو نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ کے سامنے عمران حکومت ’’مذہبی انتہاء پسندوں‘‘ کا نشانہ بنی نظر آسکتی ہے۔ اس تاثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تحفظ کے لئے عمران حکومت ریاستی طاقت کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کی گنجائش نکال سکتی ہے۔ مذہبی جذبات کی بنیاد پر اُبھری ایک تحریک کو اس حکومت نے حال ہی میں کمال خوبی سے ہینڈل کرتے ہوئے غیر مؤثر بنا دیا ہے۔ یہ فارمولہ JUI(F)کے دھرنے سے نبردآزما ہونے کے لئے بھی دہرایا جاسکتا ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن ایک زیرک سیاست دان ہوتے ہوئے اسلام آباد میں دئیے دھرنے کو فقط ایک ’’مذہبی‘‘ جماعت کا شو نہیں بنانا چاہتے۔ ان کی خواہش ہے کہ مجوزہ دھرنا زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتا نظر آئے۔ اسی باعث نواز شریف اور آصف علی زرداری سے ملاقاتیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان دونوں کو احتجاجی تحریک کے لئے رضامند کرنے کے لئے وہ آئندہ چند ماہ تک مزید انتظار کرنے کو مجبور ہیں۔ احتجاجی تحریک کی بدولت پاکستان میں آخری بار 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت گرائی گئی تھی۔ اس کے بعد احتجاجی تحریکوں کے لئے فقط ’’ماحول‘‘ بنادیا گیا۔ اس ماحول کی بنیاد پر غلام اسحاق خان جیسے بااختیار صدر نے دو حکومتوں کو فارغ کیا۔ سردار فاروق خان لغاری نے بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو فارغ کیا۔ اسے فارغ کرنے کے بعد مگر حالات کو اپنے ذہن میں سوچے Road Mapکے مطابق چلانہ پائے۔ نئے انتخابات ہوئے تو نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم کے منصب پر لوٹ آئے۔ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے چند ہی روز بعد انہوں نے فاروق لغاری کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ ان کے مبینہ سہولت کار چیف جسٹس سے بھی نجات حاصل کرلی گئی۔ آئینی ترامیم کے ذریعے نو منتخب صدر سے حکومتیں فارغ کرنے کا اختیار بھی چھین لیا گیا۔12اکتوبر 1999کا دن لانے میں کسی احتجاجی تحریک کا کوئی کردار نہیں تھا۔ عسکری اور سویلین قیادت کے مابین کارگل کے بعد سے بڑھتی بدگمانیوں نے جنرل مشرف کے ٹیک اوور کی گنجائش پیدا کی۔ مولانا فضل الرحمن خود پہ نازل طیش کے باوجود 1977ء کی واپسی ہرگز نہیں چاہیں گے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی جماعتیں بھی موجودہ سسٹم کو برقرار رکھتے ہوئے اقتدار میں واپسی کی خواہاں ہیں۔ احتجاجی تحریک کے ذریعے عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ وہ قبل از وقت ’’انتخابات‘‘ کی خاطر پاکستانی معیشت میں تھوڑی رونق لائے بغیر موجودہ قومی اسمبلی کو توڑنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوں گے۔ ہماری معیشت پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا اصرار ہے کہ آئندہ دو سالوں تک ہماری معیشت پژمردہ نظر آئے گی۔ ان حالات میں کوئی اور سیاست دان ان کی جگہ لینے کو بھی تیار نہیں ہوگا۔ نظر بظاہر عمران حکومت کے لئے 2020تک لہٰذا ستے خیراں ہیں۔ مولانا فقط اپنے کارکنوں کی طاقت سے اسے گرا نہیں سکتے۔