counter easy hit

دنیا کا وہ واحد مندر جس میں پوجا کے لیے جانے والے پہلے ایک مسجد کا طواف کرکے جاتے ہیں

نئی دہلی (ویب ڈیسک) بھارتی ریاست کیرالہ میں واقع سبریمالا مندر میں ہر سال کالی لنگی پہنے ہزاروں کی تعداد میں یاتری بھگوان ایپا کے نام کی مالا چبتے یاترا پر جاتے ہیں لیکن اس یاترا کا اہم جزو مندر کے راستے میں واقع ایک مسجد کا طواف ہے جس کے بغیر یہ یاترا مکمل نہیں ہوتی۔ سبریمالا مندر پچھلے کئی ماہ سے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کا موضوع رہا ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے اس مندر میں دس سے ساٹھ سال کی عمر کی خواتین کے داخلے پر پابندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے ہر عمر کی عورتوں کے لیے کھولنے کا حکم دیا تھا۔ مندر تک پہنچنے کے طویل اور صبر آزما سفر کے دوران بھگوان ایپا کے عقدیت مند کم سے کم خوراک استعمال کرتے ہیں اور جنسی تعلقات سے بھی مکمل پرہیز کرتے ہیں ۔ سبریمالا مندر سے ساٹھ میل دور ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس میں عقدیت مندوں کے لیے قیام کرنا یاترا کا لازمی حصہ ہے۔ اس قصبے میں ایک مسجد ہے جس کا نام واورا ہے۔ عقدیت مند اس مسجد میں بڑی عقیدت اور احترام سے داخل ہوتے ہیں۔ اس مسجد کا طواف کرنے کے بعد یہ یاتری اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ یہ یاتری مسجد میں اپنی رسومات ادا کرتے ہیں اور اس دوران اگر مسجد میں نماز ادا کی جا رہی ہو تو اس میں کوئی خلل نہیں ڈالتے ۔ اس مسجد کے گرد طواف کی یہ روایت گزشہ پانچ سو سال سے جاری ہے۔ یاترا کے جلوس میں ہاتھی بھی شامل ہوتے ہیں جنہیں مذہبی عقدیت کے ساتھ سجایا گیا ہوتا ہے وہ مسجد کے دورازے تک جاتے ہیں جس کے بعد انھیں قریب ہی واقع دو مندروں میں باندھ دیا جاتاہے۔ مسجد کی کمیٹی سبریمالا مندر سے اپنے اس رشتے کو بہت اہمیت دیتی ہے اور اس تہوار کو مقامی طور پر چندن کم کم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس انوکھے سفر کے دوران یاتری اکثر و بیشتر مقامی مسلمانوں کے گھروں میں قیام بھی کرتے ہیں ۔ یہ روایت اس طرح شروع ہوئی کہ اس علاقے میں ایک صوفی بزرگ گزرے ہیں جو بھگوان ایپا کا احترام کرتے تھے۔ یہ بات پورے علاقے میں اس قدر پھیل گئی کہ ان کی مسجد میں قیام کو ایپا کے یاتریوں کے لیے لازمی قرار دے دیا گیا۔ یک اور روایت کے مطابق بحیرہ عرب کے راستے اس علاقے میں بہت سے صوفی بزرگ اسلام کی تبلیغ اور ترویج کے لیے آتے رہے ہیں اور لوگوں کا کہنا ہے کہ مسجد میں ایک تلوار بھی موجود ہے۔ اس تلوار کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ سب جنگجو تھے۔ مگر اس بارے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ بھگوان ایپا سے عقیدت رکھتے تھےیہ مندر بارہویں صدر عیسویں میں پنڈل سلاطین کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا