counter easy hit

نئے پاکستان کے پرانے بحران۔۔۔۔ملکی معیثت کو کون سے بڑے خطرات لاحق ہیں؟ ایسی تحریر جو آ پ کی آنکھیں کھول دے

لاہور؛ اسلام آباد میں نئی حکومت کو کئی معاملات پر فوری اور نتیجہ خیز انداز میں توجہ دینا پڑے گی۔ ان میں ملکی معیشت کی بہت نازک صورت حال سرفہرست ہے۔ نئی حکومت کو اگلے چند ہی ہفتوں میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف سے اپنے ملک کے

لیے ایک نیا مالیاتی بیل آؤٹ پیکیج لینا پڑے گا۔کئی عام پاکستانی شہری یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ اس ملک کے موجودہ بہت شدید اقتصادی اور مالیاتی مسائل ہیں کیا؟ ماہرین کے مطابق ان مسائل کی مندرجہ ذیل پہلوؤں سے درجہ بندی کی جا سکتی ہے۔مالی ادائیگیوں کے توازن کا بحران: جنوبی ایشیا کی یہ ریاست، جو ایک ایٹمی طاقت بھی ہے، مالی ادائیگیوں کے توازن کے ایک بحران کے دہانے پر کھڑی ہے۔ یہ ممکنہ بحران اس ملک کی کرنسی یعنی پاکستانی روپے کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے اور یوں پاکستان کی اپنے ذمے قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات کے لیے مالی ادائیگیاں کرنے کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔بجٹ میں بے تحاشا خسارہ: پاکستان کے سالانہ بجٹ میں مالی خسارہ گزشتہ پانچ برسوں میں مسلسل بڑھا ہے اور اب اس کا تناسب تشویش ناک حد تک زیادہ ہو چکا ہے۔ پاکستان کے اس بجٹ خسارے کی شرح 2013 میں چار فیصد سے بڑھ کر اب 10 فیصد ہو چکی ہے ۔بہت مہنگی درآمدات: گزشتہ کئی برسوں، خاص کر پچھلے پانچ سالوں کے دوران پاکستان میں درآمد کی جانے والی مصنوعات کا حجم اور مالیت بہت زیادہ ہو چکی ہے، زیادہ

تر بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے بھی۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جولائی 2017 اور مارچ 2018 کے درمیانی نو ماہ کے عرصے میں پاکستان نے اپنے ہاں درآمدات کے لیے جتنی بھی مالی ادائیگیاں کیں، ان میں سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 70 فیصد ادائیگیاں صرف تیل، مشینری اور مختلف دھاتوں کی درآمد کی مد میں کی گئی تھیں۔برآمدات میں اضافہ غیر تسلی بخش: پاکستانی معیشت کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ درآمدات اور برآمدات کے حجم میں فرق گزشتہ برسوں میں بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ پاکستانی برآمدات کی مالیت ملکی درآمدات کی مالیت سے بہت کم ہے۔ اس ملک کی زیادہ تر برآمدات ٹیکسٹائل کے شعبے کی مصنوعات ہوتی ہیں اور ماضی قریب میں ان برآمدات کی شرح میں اضافہ بہت معمولی رہا ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی: ان جملہ وجوہات کی وجہ سے پاکستانی ریاست کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی ہے اور اس وقت ان کی مالیت کم ہو کر قریب 10.3 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو حال ہی میں ملک کی موجودہ نگران حکومت کی طرف سے باقاعدہ طور

پر جاری کیے گئے تھے۔ ماہرین کے مطابق زر مبادلہ کے اتنے کم ذخائر اس لیے پریشانی کا باعث ہیں کہ ان رقوم کے ساتھ پاکستان مستقبل میں اپنی صرف دو ماہ یا اس سے بھی کم عرصے کی درآمدات کا بل ادا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔روپے کی قدر میں کمی: پاکستانی کرنسی “روپے ” کے لیے مشکل یہ ہے کہ درآمدات زیادہ، برآمدات کم اور پھر بجٹ میں خسارہ، یہ سب ایسے اسباب ہیں، جو ملکی کرنسی پر دباؤ کی وجہ بنتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت گزشتہ برس دسمبر سے اب تک روپے کی قدر میں چار مرتبہ کمی بھی کر چکی ہے، جس کا نتیجہ افراط زر کی مزید اونچی شرح کی صورت میں نکلا ہے۔پچھلے پانچ سالوں کی غلطیاں: پاکستان کی گزشتہ منتخب حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں کیا کیا غلطیاں کیں، ان کی چند لفظوں میں وضاحت کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم نے پچھلے چار پانچ سالوں میں پاگلوں کی طرح نئے قرضے لیے۔ اب ان قرضوں کی واپسی کا وقت ہے لیکن ہمارے پاس اب زر مبادلہ کے اتنے ذخائر تو ہیں نہیں کہ ہم یہ قرضے واپس کر سکیں۔‘‘

حفیظ پاشا کے بقول اربوں ڈالر مالیت کے یہ قرضے واپس تو کیے ہی جانا ہیں اور پاکستانی ریاست کے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان قرضوں کی واپسی ممکن کیسے ہو گی؟ہر بار آخری لمحے پر آئی ایم ایف سے مدد: پاکستان 1980 کی دہائی کے اواخر سے اب تک کئی بار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف سے اپنے لیے قرضے لے چکا ہے۔ آخری مرتبہ یہ قرضے 2013 میں لیے گئے تھے۔ تب اسلام آباد نے اسی طرح کے ایک بحران کو روکنے کے لیے، جس طرح کے بحران کا اب پھر خطرہ ہے، آئی ایم ایف سے 6.6 ارب ڈالر کے قرضے لیے تھے۔ پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں ایک مالیاتی مشاورتی فرم ’انسائٹ سکیورٹیز‘ کے ڈائریکٹر ذیشان افضل کے مطابق، “پاکستان کو اس وقت کم از کم بھی 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔” کئی دیگر ماہرین کے بقول پاکستان اس وقت اپنے لیے جن زیادہ سے زیادہ نئے قرضوں کی امید لگائے بیٹھا ہے، ان کی مالیت قریب 6.5 ارب ڈالر بنتی ہے۔