counter easy hit

معتبر ترین پاکستانی صحافی نے دلائل دے کر تہلکہ خیز پیشگوئی کر دی

لاہور (ویب ڈیسک) بلوچستان سے اختر مینگل حکومت سے علیحدگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔ ان کی پرواز سے آزاد ارکان بھی تذبذب کا شکار ہیں اور پنجاب میں بھی بڑی تبدیلی کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان‘ جنہوں نے آٹھ ماہ گزر جانے کے باوجود bنامور کالم نگار کنور دلشاد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صوبائی اسمبلی کی نشست کا حلف نہیں اٹھایا‘ وہ بھی عنقریب پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلامیہ جاری کر کے صوبائی اسمبلی کی نشست کا حلف اٹھا کر تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا نے والے ہیں۔ پنجاب میں 25 جولائی کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن )کے 129 اور پاکستان تحریک انصاف کے 119 ارکان تھے اور 23 کے لگ بھگ آزاد امیدواروں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر کے اس پارٹی کی حکومت کے لئے راہ ہموار کی تھی؛تاہم پنجاب کے گرم موسم میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ سب آزاد ارکان چوہدری نثار علی خان کے ساتھ کھڑے ہونے جا رہے ہیں اور ان کی راہ میں آئین کا آرٹیکل 163 بھی حائل نہیں ہو گا۔ اس صورتحال کی وجہ سے بھی جون میں بڑی اور جامع تبدیلی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ اس دوران اگر نواز شریف اپنی انا کے باعث شہباز شریف کی راہ میں حائل ہوتے ہیں تو نواز خاندان ہمیشہ کے لئے سیاست کے منظر نامے سے ہٹ جائے گا۔ پنجاب میں گڈ گورننس کے فقدان کے باعث قوی امکان ہے کہ جون میں پنجاب اسمبلی میں بجٹ منظور کرانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان تنازعہ کے تناظر میں بھی اور اس تناظر میں بھی کہ بجٹ کے بعد چوہدری نثار علی خان آزاد رکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے پاکستان مسلم لیگ (ن )میں فعال ہو جائیں گے۔ لگتا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے گی اور چوہدری نثار علی خان وزیر اعلیٰ کے مضبوط امیدوار ہوں گے ۔ یہ بھی امکان ہے کہ پنجاب حکومت صوبائی بجٹ منظور ہی نہ کراسکے۔ پنجاب میں گورننس کے فقدان کے باعث تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے آزادارکان بھی واپس آزاد حیثیت میں آجائیں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا پلڑا پنجاب میں بھاری ہو جائے گا۔ شنید یہ بھی ہے کہ شہباز شریف حکمران جماعت کے ایک با اثر اتحادی سے رابطے میں ہیں۔ جس اہم شخصیت کے ذریعے یہ تعلق بڑھایا جا رہا ہے ‘ وہ خود اس کی راوی ہے اور قابل اعتبار ہے۔ عمران خان نے میڈیا کے دباؤ میں آکر لیڈر آف اپوزیشن کو اپنا دستخط شدہ سرکاری خط جاری کر دیا ہے‘ جس سے الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کے لیے مشاورت کے قانونی تقاضے پورے ہو گئے۔اس خط کے بعد لیڈر آف دی اپوزیشن نے بھی لیڈر آف ہاؤس کو اپنے منتخب کردہ چھ ناموں پر مشتمل خط بھجوا دیا۔ ایسے خط کے بعد الیکشن کمیشن کے ارکان کے لیے اپوزیشن لیڈر کی جانب سے بھیجے گئے ناموں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اگر وزیراعظم کو ناموں پر اعتراض ہوا اور کوئی نتیجہ خیز فیصلہ نہ ہو تو 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی الیکشن کمیشن کے ناموں کا فیصلہ کرتی ہے۔ موجودہ حالات میں تین رکنی الیکشن کمیشن کی موجودگی پر آئینی و قانونی طور پر الیکشن کمیشن مکمل فعال ہے ۔ بھارت میں انتخابات 11 اپریل سے شروع ہیں‘ جو 19 مئی تک جاری رہیں گے۔ پاکستان کے میڈیا کو بھارتی الیکشن پر بھی نگاہ رکھنی چاہیے اور مشاہدہ کرنا چاہیے۔ یاد رہے کہ آئندہ انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سسٹم کے لیے ہمیں بھی آئین میں ترمیم کروانی ہوگی۔ وزیر اعظم عمران خان الیکشن کمیشن کو مضبوط اوربا وقار دیکھناچاہتے ہیں تو ارکان کمیشن کی تعداد دو ہی کافی ہے۔ مارشل لا دور میں اس تعداد کو دو سے چار کیا گیا تھا جبکہ انڈین الیکشن کمیشن 1991ء تک دو رکنی ہی رہا اور 2004ء کے بعد اب انڈین الیکشن کمیشن تین ارکان پر مشتمل ہے۔جنرل پرویز مشرف کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی روشنی میںپاکستان آنا ہو گا مگر جنرل پرویز مشرف سپریم کورٹ کو یہ باور کرا دیں کہ ان کے خلاف کیس کرنے والی حکومت ختم ہو چکی ہے اور ان کے سابق وزیر اعظم اپنی بد دیانتی‘ مکر و فریب اوردھوکہ دہی کی وجہ سے تاحیات نااہل ہیں اس لیے موجودہ حکومت سے دریافت کیا جائے کہ آیا وہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے؟ ویسے بھی جنرل پرویز مشرف کے خلاف غدار کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان کی فوج حالت جنگ میں ہے اور بھارت کے ساتھ کسی بھی وقت کشیدگی شدت اختیار کر سکتی ہے۔ ایسے میں سابق آرمی چیف کے ٹرائل کا اثر فوج کے مورال پر پڑے گا۔ امکان یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف ملک سے غداری کے مرتکب نہیں ہوئے ‘ آئین کی بعض شقوں کو معطل کرنے سے غداری کا مفہوم کیسے سامنے آ تا ہے؟

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website