counter easy hit

مولانا سمیع الحق کا قتل : کب کیا ہوا ؟ قاتل کیسے فرار ہوا ؟ تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آ گئی

راولپنڈی(ویب ڈیسک) جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے قتل کی تحقیقاتی ذرائع کے مطابق میڈیکل رپورٹ کے ذریعے یہ انکشاف ہو اہے کہ وہ ہسپتال پہنچنے سے ایک گھنٹہ قبل دم توڑ گئے تھے جبکہ اس وقت ان کے جسم سے خون بھی نہیں بہہ رہا تھا۔
موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے ان کی نعش کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر کےحوالے سے بتایا کہ مولانا جب تک مولانا سمیع الحق کو بحریہ ٹاؤن میں موجود ان کی رہائش گاہ سے 3 سو میٹر کے فاصلے پر قائم سفاری ہسپتال لایا گیا وہ اس سے ایک گھنٹہ قبل ہی انتقال کرچکے تھے اور ہسپتال میں ان کی دل کی دھڑکن صفر تھی جبکہ ان کے جسم سے کسی قسم کا خون بھی نہیں بہہ رہا تھا۔ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ جمعے کو تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کے سبب راولپنڈی میں موبائل فون سروس معطل تھی جس کے باعث نہ تو مولانا اور نہ ہی کسی اور کی جانب سے ہاؤسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ یا پولیس سے کوئی رابطہ کیا گیا۔مقتول سینیٹر کے قتل کی تحقیقات کے لیے سپریٹنڈنٹ پولیس ڈاکٹر غیاث گل کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ تحقیقات کےسلسلے میں ایک ٹیم مقتول رہنما کے سیکریٹری سے پوچھ گچھ کے لیے اکوڑہ خٹک روانہ کی گئی تھی جو مولانا کے وارثین کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروانے پر واپس آگئی تھی جو اب 3 روز کے اندر دوبارہ اکوڑہ خٹک روانہ ہوگی۔ذرائع کے مطابق تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ مولانا سمیع الحق کے،
سیکریٹری سید احمد شاہ انہیں سفاری ولا کی دوسری منزل پر اکیلا چھوڑ کر مرکزی دروازے کو باہر سے تالا لگا کرقریبی فلٹریشن پلانٹ سے پانی لینے گئے تھے چناچہ قتل کے وقت مولانا سمیع الحق گھر میں اکیلے تھے۔پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق احمد شاہ کی غیر موجودگی کے 15 منٹ کے دوران مولانا کا قتل وقوع پذیر ہوا جب وہ مرکزی دروازے کو باہر سے کھول کر گھر میں داخل ہوئے تو مولانا سمیع الحق کے کمرے سے کسی قسم کی آواز نہ آنے پر کمرے کا دروازہ کھول کر دیکھا اور اپنے رہنما کو خون میں لت پت پایا۔پولیس کے بقول چونکہ احمد شاہ گھر کا مرکزی دروازہ باہر سے بند کر کے گئے تھے لہٰذا امکان ہے کہ قاتل پہلے سے ہی گھر میں چھپا ہوا تھا جو بعد ازاں باورچی خانے کے دروازے سے فرار ہوا کیوں کہ جب پولیس شواہد اکھٹے کر کے پہنچی تو مذکورہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔پولیس اب تک حملہ آوروں کی تعداد کا اندازہ نہیں کرسکی تاہم ان کا خیال ہے کہ قتل کرنے والا شخص اکیلا تھا۔اس کے علاوہ ابھی تک پولیس آلہ قتل بھی برآمد نہیں کرسکی جو مبینہ طور پر باورچی خانے میں استعمال ہونے والی چھری ہوسکتی ہے اس سلسلے میں گھر کے اطراف اور آس پاس کے باغات کی بھی تلاشی لی گئی۔خیال رہے کہ ڈاکٹروں کی جانب سے مردہ قرار دیے جانے کے بعد پولیس نے ان کے اہلِ خانہ سے پوسٹ مارٹم کے لیے رابطہ کیا لیکن انہوں نے انکار کردیا تھا۔واقعے کا مقدمہ مولانا سمیع الحق کے بیٹے مولانا حامد الحق کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جس میں کسی کو بھی ملزم نامزد نہیں کیا گیا۔