counter easy hit

عمران حکومت کے فیصلے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بجائے کیسے کیے جاتےہیں ؟ سیکرٹری داخلہ کے انکشاف نے نیا ہنگامہ کھڑا کر دیا

لاہور (ویب ڈیسک) معروف صحافی رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ یہ بات مان لیتے ہیں کہ وزیراعظم کو اپنی تمام کابینہ کو لے کرچلنا ہوتا ہے لیکن شہریار آفریدی اور اعظم سواتی تو عمران خان کے اپنے بندے ہیں ان کو تو سمجھایا جا سکتا ہے۔کم از کم ان لوگوں کو تو عمران خان کو شرمندہ نہیں کروانا چاہئیے۔اگر پرویز الہیٰ عمران خان کے لیے کوئی شرمندگی کا سامان پیدا کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ تو تحریک انصاف کے اتحادی ہیں۔
لیکن عمران خان نے اپنے وزیر نہیں سنبھالے جا رہے۔اعظم سواتی کا مسئلہ اتنا تھا نہیں جتنا بڑھایا گیا۔غریب لوگوں کو جیل کے اندر کروا دیا،اور پھر باق وزراء نے بھی ان کا ساتھ دیا۔لیکن اس طرح کے فیصلے بعد میں مشکلات پیدا کریں گے۔رؤف کلاسرا کا کہنا تھا کہ سیکرٹری داخلہ نے ایک اور کام کیا۔اور عمران خان اور شہریار زآفریدی کی واٹس ایپ پر گفتگو کا اسکرین شاٹ سپریم کورٹ میں دکھایا اب یہ نہیں معلوم کہ انہوں نے اس کام کی اجازت عمران خان سے لی تھی یا نہیں۔ رؤف کلاسرا کا مزید کہنا تھا کہ کیا حکومتیں واٹس ایپ پر چلیں گی کیا اتنے بڑے بڑے فیصلے صرف واٹس ایپ پر ہوں گے۔مجھے نہیں معلوم چیف جسٹس آف پاکستان اس پر کیا رد عمل دیں گے۔تاہم مریم نواز اور چوہدری نثار کی لڑائی بھی اسی طرح ٹویٹر پر شروع ہوئی تھی۔اور سیکرٹری داخلہ نے یہ کام کر کے عمران خان کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔خیال رہے :آئی جی اسلام آباد کے تبادلے پر اعظم سواتی کا کہنا تھ کہ میرے گھر اور باغات پر حملہ کیا گیا۔میرے گھر پر حملہ کر کے ملازمین کو زخمی کیا گیا۔ ملزمان نے اپنے مویشی ہمارے باغات میں چھوڑے تھے۔
منع کرنے پر ملازمین پر کلہاڑیوں اور ڈنڈوں سے حملہ کیا گیا۔ملزمان نے گن مین سے کلاشنکوف کے میگزین چھین لیے۔انہوں نے کہا کہ پہلے بھی آئی جی اسلام آباد کو درخواست دی تھی۔اعظم سواتی نے مزید کہا کہ کوئی خلافِ قانون کام نہیں کیا۔ایک عام شہری کی حیثیت سےآئی جی اسلام آباد سے رابطہ کیا۔ کیا عام شہری کی حیثیت سے تحفظ کا مطالبہ میرا حق نہیں؟۔اعظم سواتی نے مزید کہا کہ آئی جی اسلام آبادنے میرا 22 گھنٹے تک فون نہیں سنا۔ تنگ آکر معاملہ وزیراعظم عمران خان اور سیکرٹری داخلہ کے نوٹس میں لایا۔ جبکہ دوسری جانب معروف صحافی مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ ملک میں ہونے والے حالیہ احتجاجی مظاہروں کو اگر ماضی کے قصوں کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو نتیجہ کچھ اور ہو گا جب کہ اس سے الگ کر کے دیکھیں گے تو نتیجہ کچھ اور ہو گا۔جو کچھ بھی ہم نے اپنے ملک کے اندر کیا ہے اور ہماری سیاسی جماعتوں اور مذہبی عناصراور سلامتی اداروں نے جوبھی کردار ادا کیا ہے اس کو مدِ نظر رکھ لیں تو پھر آپ کہیں گے کہ حکومت نے جو بھی فیصلے کیے ہیں وہ بہت دانش مندانہ اقدام ہے اور پاکستان کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔مجیب الرحمان شامی نے مزید کہا کہ اصولی طور پر وزیراعظم عمران خان نے جو موقف اختیار کیا وہ بلکہ درست تھا ان کو اسی عزم کا اظہار کرنا چاہئیے تھا تاہم ان کا الفاظ کا جو چناؤ تھا ا سکے لیے دو طرح کی رائے آ سکتی ہیں۔جب بھی کوئی وزیراعظم فی البدی تقریر کرے گا تو اس کے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط نہیں رہے گی۔ایسے موقوں پر الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہئیے۔تاہم عمران خان نے جو خطاب کرنے کا فیصلہ کیا وہ بلکل درست کیا۔ہماری لیڈر شپ کو اس قابل ہونا چاہئیے کہ بحران کے دوران لوگوں کو لیڈ کر سکے۔