counter easy hit

میں ملبے تلے دبا ہوا تھا۔۔۔ مجھے کھانا اور۔۔۔۔ اکتوبر 2005 کے زلزلے میں چار دن ملبے تلے دبے رہنے والے بچے نے ایسی بات بتا دی کہ آپ بے اختیار کہہ اٹھیں گے ۔۔۔ سبحان تیری قدرت

لاہور(ویب ڈیسک ) آٹھ اکتوبر سنہ 2005 کو آنے والے زلزلے سے کشمیر اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔اسی زلزلہ کی تباہ کاریوں میں ایک معجزہ بھی دیکھنے کو ملا جب ایک 9 سالہ بچہ ہزاروں ٹن ملبے تلے دب گیا ، اس بچے کا نام ابوبکر تھا ،

جس کو زلزلے کے 4 دن گزر جانے کے بعد 12 اکتوبر آرمی کے دتوں نے کھدائی کر کے زندہ نکال لیا ، آج ابوبکر 22 سال کا نوجوان ہے اور اس ہولناک واقعہ کو یاد کر کے آج بھی اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ابوبکر سے جب بات ہوئی تو اس کا کہنا تھا کہ جب زلزلہ ایا تو میں روزے میں تھا لیکن وہ روزہ چار دن کا ہو گیا اس کا مزید کہناتھا کہ مجھے بالکل امید نہیں تھی کہ مجھے یہاں سے زبدہ نکال لیا جائے گا ، تفصیلات کے مطابق زلزلے کے فوری بعد متاثرہ علاقوں اور وہاں کے باشندوں کی بحالی کے لیے بنائے گئے ادارے ایرا کے اعداد و شمار کے مطابق زلزلے سے 73 ہزار افراد کی اموات ہوئیں اور سوا لاکھ سے زائد لوگ شدید زخمی ہوئے جبکہ 35 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔منہدم ہونے والے سکولوں میں 18 ہزار بچوں کی اموات ہوئیں۔23 ہزار بچے معذور یا طویل مدتی اثرات والے زخموں سے دوچار ہوئے۔تقریباً 17 ہزار بچے ماؤں سے محروم ہوئے۔21 ہزار بچے یتیم ہوئے۔1700بچوں کے والدین نہ رہے۔اس زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعلیمی نظام سب سے زیادہ متاثر ہوا اور اقوامِ متحدہ میں بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق منہدم ہونے والے سکولوں میں 18 ہزار بچوں کی اموات ہوئیں۔زلزلے کے بعد متاثرہ علاقوں میں تعمیرِ نو کا سلسلہ عالمی امدادی اداروں کی مدد سے شروع تو ہوا لیکن دس برس بعد آج بھی ان علاقوں میں جہاں 50 فیصد تعلیمی ادارے ہی دوبارہ بن پائے

وہیں صحت اور حکومت کے نظاموں کی بحالی دو تہائی تک ہو ہی سکی۔ایرا کے قائمقام نائب چیئرمین اور آج کل ادارے کے کرتا دھرتا بریگیڈیئر ابوبکر امین باجوہ کا کہنا ہے کہ متاثرین کے بحالی کے لیے 500 ارب روپے کے لگ بھگ رقم درکار تھی اور ان کے ادارے نے 244 ارب روپے کے منصوبے مکمل کیے۔ان کے بقول ’ہم نے نصف رقم سے 70 فیصد منصوبے مکمل کیے ہیں۔‘سکولوں کی تعمیر میں تاخیر کا اعتراف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ اب حکومت اور ان کے ادارے کی پہلی ترجیح ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے متاثرہ علاقے جو شہروں کے قریب تھے وہاں تعلیمی اداروں کی تعمیرِ نو ہو چکی تاہم دور افتادہ علاقوں میں سکولوں کی تعمیر میں دیر ہوئی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’عطیات دینے والوں نے بھی شہروں کے قریب عمارتوں کی تعمیر کو ترجیح دی۔‘نامہ نگار عبداللہ فاروقی سے بات کرتے ہوئے بریگیڈیئر ابوبکر نے دعویٰ کیا کہ زلزلے سے تباہ ہونے والے چھ لاکھ سے زائد مکانات میں سے دس سال بعد 99 فیصد سے زیادہ تعمیر ہو چکے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’چھ لاکھ گھر بنوا کر دیے جبکہ تباہ شدہ گھر چھ لاکھ 11 ہزار تھے یوں یہ شرح 99 اعشاریہ چار فیصد ہے جو کہ دنیا کے کسی ملک میں نہیں۔

‘ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف تباہ شدہ مکانات کی تعمیر کا ہدف پورا ہوا بلکہ اس تعمیر میں مقامی آبادی کو ساتھ ملا کر معیار کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔بریگیڈیئر ابوبکر نے بتایا کہ علاقے میں 2005 سے اب تک چار سے چھ ریکٹر سکیل شدت کے قریباً 130 زلزلے آ چکے ہیں لیکن ایک بھی مکان کو نقصان نہیں پہنچا۔پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد اور بالاکوٹ دو ایسے بڑے شہر تھے جو اس قدرتی آفت کے نتیجے میں تقریباً مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے۔نامہ نگار ظہیر الدین بابر کے مطابق تعمیرِ نو کی بات کی جائے تو مظفرآباد میں یہ عمل قابلِ ذکر رہا جس میں قومی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کا اہم کردار رہا۔ان کا کہنا ہے کہ دس سال بعد یہ شہر بین الاقوامی طرزِ تعمیر کا مرکز دکھائی دیتا ہے جن میں ترکی سے لے کر کیوبا تک کے رنگ عیاں ہیں۔نامہ نگار کے مطابق بالاکوٹ میں صورتحال مظفر آباد کے برعکس نہیں تو بالکل ویسی بھی نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بالاکوٹ کے باشندوں کے لیے سعودی عرب سے ملنے والے عارضی گھر مستقل رہائشیں بن چکی ہیں کیونکہ نئے شہر کی تعمیر کے وعدے کاغذی منصوبہ بندی سے آگے نہیں بڑھ سکے۔بریگیڈیئر ابوبکر بالاکوٹ کی تعمیرِ نو میں ایک دہائی کی تاخیر کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈالتے ہیں۔بالاکوٹ کو نئے مقام پر منتقل کرنے کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’صوبائی حکومت کے معاملات اُن لوگوں سے چل رہے ہیں جن سے (نئے شہر کی) زمین واگزار کرانی ہے۔ جب وہ مل گئی تو ہم تیار ہیں۔‘اُن کے مطابق نئے بالاکوٹ کے لیے محض 14 فیصد زمین مل سکی ہے جو متاثرین میں تقسیم کے لیے تیار ہ اور وہ تقسیم بھی صوبائی حکومت کو کرنی ہے۔