counter easy hit

اسٹریٹجک تحمل کے لیے پیشکش اب بھی موجود ہے، پاکستان

اسلام آباد(ایس ایم حسنین) جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک تحمل کی رجیم وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کے لیے تجاویز اب بھی موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والے مباحثے میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر روزانہ کی جانے والی اشتعال انگیزی اور قبل از وقت جوہری حملے کے خطرات پر روشنی ڈالی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان خطے کی سیکیورٹی کو درپیش خطرات سے غافل نہیں رہ سکتا (جبکہ ہم) خطے کی سیکیورٹی اور فل اسپیکٹرم ڈیٹیرنس کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائیں گے’۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ‘تخفیف اسلحہ اور عالمی سیکیورٹی’ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے سفیر منیر اکرم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ‘اسٹریٹجک تحمل’ کی تجویز ‘انٹر لاکنگ عناصر’ (آپس میں ملنے والے عناصر) پر منحصر کرتی ہے تاکہ اس کی اپنی اور جنوبی ایشیائی خطے کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔

یاد رہے کہ پاکستان کی جانب سے پہلی مرتبہ 1998 میں بھارت کو اسٹریٹجک کنٹرول رجیم کی پیشکش کی گئی تھی، جس میں 3 عناصر اسٹیبل ڈیٹیرینس، مسلح افواج کی تعداد میں متناسب کمی اور تمام تنازعات کا پر امن حل شامل تھا۔

یہ بھارت کی پاکستان کے اندر مشترکہ فوجی حملوں کی کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کے جواب میں تھا تاکہ اسے اسٹریٹجک ہتھیاروں کے استعمال سے روکا جائے۔یاد رہے 1998 میں بھارت کی جانب سے بھی ‘نو فرسٹ یوز پالیسی’ (ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی) کو اختیار کیا گیا تھا لیکن یہ وعدہ صرف ان ممالک کے لیے کیا گیا تھا جو جوہری ہتھیار نہیں رکھتے تھے اور نہ اس طرح کے ہتھیار رکھنے والی ریاستوں کے ساتھ صف آرا تھے۔

پاکستانی سفیر منیر اکرم کا کہنا تھا کہ ‘بھارت نے پاکستان پر اچانک حملہ کرنے کے لیے اپنی ‘کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن’ کو فعال بنایا جس کے ساتھ ہی اس نے کئی ‘اسٹرائک فورس’ بریگیڈز بھی سرحد پر تعینات کردیں ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت ‘بحری ناکہ بندی کا منصوبہ’ بنا چکا تھا اور وہ پاکستان سے ‘محدود جنگ’ میں جوہری ہتھیار استعمال کا ارادہ بھی رکھتا تھا۔

منیر اکرم کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کے ’ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کی نام نہاد پالیسی‘ پر اعتماد کا فقدان ہے جبکہ گزشتہ سال ان کے وزیر دفاع نے بھی خود اس وقت شکوک و شہبات کا اظہار کیا تھا جب انہوں نے قبل از وقت جوہری حملے کا خطرہ مول لیا تھا۔

اسی حوالے سے مزید یہ کہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا اگست 2019 میں کہنا تھا کہ بھارت کی ‘نو فرسٹ یوز’ پالیسی نہ ہی مطلق اور نہ ہی مستقل ہے جبکہ تنازع میں کوئی بھی بھارت کو اس کی پابندی پر مجبور نہیں کرے گا۔

پاکستانی سفیر نے عالمی برادری پر زور دیا کہ جوہری تخفیف کی بات کرتے ہوئے عالمی اور علاقائی چیلنجز اور روایتی اور غیر روایتی عدم مساوات کو نظر انداز نہیں کرے۔علاقائی اور عالمی امن کو لاحق چیلینجز پر بات کرتے ہوئے پاکستانی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ روایتی اور غیر روایتی عدم مساوات اور جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے لیے جامع اور مجموعی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید یہ کہ اسلام آباد طویل عرصے سے اس پر اعتراض رہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان روایتی عدم مساوات جنوبی ایشیا میں جوہری دوڑ کی حوصلہ افزائی کرے گا اور پورے خطے کو ایک خطرناک تنازع میں ڈال دے گا۔

منیر اکرم کی جانب سے جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کے لیے 3 نکاتی فارمولا پیش کیا گیا، جس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات خاص طور پر جموں و کشمیر کے اہم مسئلے کا حل، روایتی قوتوں کے درمیان توازن کو بقرار رکھنا، جوہری اور میزائل کی روک تھام کے لیے باہمی اقدامات کرنا شامل ہیں۔

انہوں نے بھارت کے شدت پسندانہ رویے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسے دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت اور ترقیاتی پروگرامز میں سے ایک کی حاصل رہی اور گزشتہ سال بھارت نے زمین، سمندر، فضا اور خلا میں روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں پر تقریباً 70 ارب ڈالر خرچ کیے۔انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ بھارت نے بحر ہند میں اینٹی بیلسٹک میزائل (اے بی ایمز) لگا کر، ڈیبرس-جنریٹنگ اینٹی-سیٹیلائٹ (اے ایس اے ٹی) کو بنانے کے بعد اس کا ٹیسٹ کرکے اور تمام ڈیلیوری سسٹم اور پلیٹ فارمز کی حد کو بڑھا کر اور ان میں جدت لاکر اسے نیوکلیئرائز کردیا ہے۔

پاکستانی سفیر نے یہ بھی بتایا کہ بھارتی فوج مسلسل لائن آف کنٹرول پر توپ خانوں اور چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کرکے شہریوں کو نشانہ بناتی ہے، بھارت نے 2019 میں 3000 سے زائد مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جبکہ رواں سال اب تک 2 ہزار 400 مرتبہ اس کی خلاف ورزی ہوچکی ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website