counter easy hit

۔ پاکستانی تاریخ کے ایک اہم ترین کیس کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشاف

کراچی(ویب ڈیسک)بلدیہ میں کپڑے بنانے کی فیکٹری جہاں 11 ستمبر 2012 کو لگنے والی آگ کے نتیجے میں تقریباً 300 افراد ہلاک ہو گئے تھےپاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بلدیہ گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگانے سے قبل ملزمان نے چرس پی اور اس کے بعد کیمیکل چھڑک کر آگ لگادی،ارشد نامی چشم دید گواہ نے یہ بیان منگل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ریکارڈ کرایا۔پاکستان کی صنعتی تاریخ کے سب سے بڑے حادثے میں بلدیہ ٹاؤن میں واقع کارخانے علی انٹرپرائزز میں 12 ستمبر سنہ 2012 کو آگ بھڑک اٹھی تھی جس کے نتیجے میں 259 افراد جھلس کر ہلاک ہوگئے تھے۔ابتدائی طور پر آتشزدگی کے اس واقعے کو حادثاتی قرار دیا گیا تھا لیکن بعد میں جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم نے اسے تخریب کاری قرار دیا اور تحریری رپورٹ میں یہ کہا تھا کہ بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری میں آگ لگائی گئی تھی۔نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چشم دید گواہ ارشد نے بتایا کہ وہ بطور الیکٹریشن کام کرتا تھا، جس روز یہ واقعہ رونما ہوا اس روز زبیر چریا نے اس کہا کہ آج کچھ مہمان آئیں گے شام کو ملنا۔شام کو پانچ مہمان آئے جن کا تعلق فیکٹری سے نہیں تھا ان میں سے تین حلیے سے بلوچ معلوم ہوتے تھے جبکہ دو اردو سپیکنگ تھے، زبیر چریا نے کہا کہ یہ میرے مہمان ہیں انہیں واش روم میں لے جاؤ جہاں چریا بھی آگیا اور سب نے چرس پی جس کے بعد وہ اپنے کام پر چلا گیا۔‘ارشد نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ وہ میزنائن فلور پر کام کرتا ہے، اس نے مڑ کر دیکھا کہ زبیر چریا نے قمیض سے سیاہ رنگ کی شاپنگ بیگ نکالی اسے ھلایا اور کپڑے پر پھینک دیا جس سے وہاں آگ لگ گئی، باقی لوگوں نے بھی اسی طرح کیا جس سے گودام میں آگ لگ گئی وہاں سے سیدھا راستہ سیکنڈ فلور پر جاتا ہے تھوڑی دیر کے بعد دیکھا کہ سیکنڈ فلور پر بھی آگ لگ چکی تھی، جبکہ فرسٹ فلور پر آگ نہیں لگی تھی۔جب آگ بجھانے چھت پر جا رہے تھے تو دیکھا زبیر اور اس کے ساتھی کینٹین کو لاک کرکے اندر بیٹھے ہوئے ہیں اس نے دیوار پھلانگ کر دروازہ کھولا تو زبیر چریا اور اس کے ساتھی چرس پی رہے تھے اور خوش گپیاں لگا رہے تھے۔ وہ ان کی طرف لپکے کے آپ نہ جاؤ لیکن ہم بیس پچیس لوگ تھے نکل گئے۔یاد رہے کہ زبیر چریا فیکٹری میں فنشنگ ڈیپارٹمنٹ کا انچارج تھا، اس سے قبل رحمان بھولا کا اعترافی بیان بھی سامنے آچکا ہے جس میں اسے نے کہا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے کراچی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی نے اسے کہا تھا کہ فیکٹری میں آگ لگا دو کیونکہ وہ 25 کروڑ بھتہ نہیں دے رہا، جس کے بعد رحمان بھولا نے کیمیکل لاکر زبیر چریا کو دیا تھا۔ واقعے کے بعد رحمان بھولا فرار ہوگیا تھا جسے انٹرپول کی مدد سے بینکاک سے گرفتار کیا گیا تھا۔بلدیہ فیکٹری میں پبلک پراسیکیوٹر ساجد محبوب شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مقدمے میں دو اصل ملزم ہیں جن میں زبیر چریا اور رحمان بھولا شامل ہیں جو دونوں جیل میں ہیں جبکہ جے آئی ٹی نے تین ملزمان کی نشاندھی کی ہے جو واقعے کے بعد بھتہ خوری میں ملوث ہیں، یہ ایم کیو ایم لندن کے سابق رہنما انیس قائم خانی کے جاننے والے ہیں اور انھوں نے فیکٹری مالکان سے یہ کہہ کر پانچ کروڑ 58 لاکھ لیے تھے کہ ایم کیو ایم ان کی حمایت کرے گی یہ تینوں عبوری ضمانت پر رہا ہیں۔ملزمان زبیر چریا اور عبد الرحمان بھولا کے وکیل نے چشم دید گواہ سے استفسار کیا کہ واقعے کے اتنے عرصے بعد بیان کیوں قلمبند کرایا؟بلدیہ گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کے مرکزی ملزم رحمان بھولا کی گرفتاری گذشتہ دنوں انٹرپول کے ذریعے عمل میں لائی گئی تھیگواہ ارشد کا کہنا ہے کہ وہ رینجرز کے پاس گیا کہ اس کا پکا بیان لے لیں کیونکہ اسے زندگی کا خدشہ تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سماعت کا پتہ نہ چلے سکے اس لیے پنجاب چلا گیا اور 2015 میں پہلی بار کراچی آیا جب جے آئی ٹی نے اس بلایا تھا۔ اس نے جے آئی ٹی کے سامنے بھی یہ ہی بیان دیا تھا۔ بلدیہ فیکٹری میں پبلک پراسیکیوٹر ساجد محبوب شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مقدمے میں 375 گواہاں کے بیانات ہوچکے ہیں جن میں سے سے 342 کو غیر ضروری قرار دیا جاچکے۔واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے ملزم محمد زبیر عرف چریا کو 2016 میں سعودی عرب سے گرفتار کیا گیا تھا، اس سے قبل ان کے وکیل نے درخواست ضمانت بھی دائر کی تھی کہ زبیر کا اس واقعے میں کوئی کردار نہیں لیکن عدالت نے درخواست مسترد کردی تھی۔