counter easy hit

پھر کوئی آقا کی شان میں گستاخی نہ کر سکے!

Blasphemy Law

Blasphemy Law

تحریر : اختر سردار چودھری
آزادی اظہار رائے کے نام پر ان اخبارات کی یہ گھنائونی حرکت اصل میں دین اسلام کی دنیا میں بڑھتی ہوئی مقبولیت سے حسد ہے ۔پوری دنیا میں ہولو کاسٹ پر بات کرنے پر پابندی ہے اسے جرم سمجھا جاتا ہے ۔اس پر سزا ہے اس معاملے میں آزادی اظہار رائے پر کیوں پابندی ہے ۔اظہاررائے کی آزادی صرف مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں ہے ؟ ان اخبارات نے کبھی کسی اور مذہب ،یادھرم کی تو گستاخی نہیں کی ۔ہولو کاسٹ پر ہی بات کرنے پر پابندی ہے ۔دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ہر چوتھا آدمی مسلمان ہے ،جب ان کے جذبات مجروع کیے جائیں ،اور یہ بھی کہا جائے کہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں یہ تو ممکن نہیں ہے۔فرانس میں حجاب پر پابندی لگائی گئی کیا وہاں خواتین حجاب پہن کر کیا کوئی دہشت گردی کر رہی تھیں دوسروں کو اپنی پسند کا لباس پہننے کی آ زادی نہیں ہے اور جو خود کرتے ہیں اسے آ زادی اظہار رائے کا نام دے رہے ہیں۔ فرانسیسی ہفت روزہ چارلی ایبڈو نے ایک مرتبہ چند دن پہلے بھی یہ گھٹیا حرکت کی تھی اور اب پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہوئے 30 لاکھ کی تعدا د میں میگزین شائع کر دیے ہیں اور 50 لاکھ کاپیاں مزید شائع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ ہوا ،کیوں ہوا ؟اس کے اسباب تلاش کیے جاتے اور ان کو دور کیا جاتا بجائے اس کے ہوا یہ کہ ان توہین آمیز خاکوں کو شائع کرنے والوں کے حق میں یورپ کی تاریخ کا (کہا جاتا ہ ) سب سے بڑا مظاہرہ ہوا ۔جس میں 40 ممالک سے سفیروں ،مشیروں اور سربراہوں نے شرکت کی ۔جن میں سے بہت سے مسلمان بھی تھے ۔کتنے افسوس کا مقام ہے پاکستان و سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کا ان ممالک سے ہی یارانہ ہے دوستی ہے ،تعلقات ہیں ،ان کی ہی غلامی کرتے ہیں ان سے امداد ،خیرات پر ہی ان ممالک کا گزارہ ہے ،وہ ہی ان کے اتحادی ہیں وغیرہ وغیرہ جو ان افراد کو پناہ دیتے ہیں جو شان اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی کریں ،اسے انعامات سے نوازا جاتا ہے سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے ۔پناہ دی جاتی ہے۔

مغربی ممالک کا یہ دوہرا معیار ہے ۔اس طرح کے دوہرے معیار سے کیا ہو گا ،تیسری عالمی جنگ ،دہشت گردی اور انتہا پسندی میں اضافہ ،دنیا میں مسلمانوں سے نفرت اور مسلمانوں کے دل میں ان کی خلاف نفرت ،دنیا میں اس وقت تعداد کے لحاظ سے مسلمان دوسرے نمبر پر ہیں۔سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں لیکن سارے مسلمان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی جان سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نفرت کرتا ہو اس سے نفرت کرتے ہیں ۔حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہیں ایک مسلمان کے لیے اپنی جان و مال کے علاوہ اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر پیار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ۔مسلمان اور دیگر مذاہب کو ماننے والوں کے درمیان سب سے اہم فرق ہی حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے ۔ اللہ سبحان و تعالی کو تو عیسائی ،یہودی ،ہندو بھی مانتے ہیں ۔دین اسلام میں کسی بھی پیغمبر کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں ہے ۔مسلمان تمام نبیوں ،رسولوں ،پیغمبروں کو اللہ کے نبی مانتے ہیں ۔مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی یہ ہی تعلیم دی گئی ہے، لیکن ان مذاہب کے پیروکار اس پر عمل نہیں کرتے۔

تمام ممالک میں یہ قانون ہونا چاہیے کہ کسی بھی نبی کی شان میں گستاخی کرنا جرم ہو ۔تمام انبیاء اور مقدس کتب کی توہین کسی بھی طرح کی جائے تو یہ جرم ہو گا اورثابت ہونے پر سزا موت رکھی جائے ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو دنیا کے لیے یہ صورت حال انتہائی خوفناک ہے ایک بہت ضروری بات جو اب بہت توجہ چاہتی ہے ۔فرانسیسی اخبار نے ایسا کیوں کیا ؟ اس لیے کہ کوئی مسلمان ان پر حملہ کریں۔ایسا ہی ہوا ۔ پھر اس کے بعد 40 ممالک نے احتجاج کیا ۔اس میگزین نے دوبارہ پھر توہین کی اور 30 لاکھ کاپیاں فروخت ہو ئیں اب پھر اس نے 50 لاکھ کاپیاں شائع کرنے کا اعلان کیا ۔مسلمانوں کو اس سارے واقعہ میں دہشت گرد ثابت کرنا مقصود تھا ۔جو کہ کیا جا رہا ہے ۔مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد ان کے خلاف عالمی جنگ چھیڑنا ہی مقصد ہے ۔ایسی گٹھیااور نیچ حرکت کر کے وہ مسلمانوں کی غیرت کو للکارتے ہیں ،اور پھر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں ۔اگر مسلمان خاموش ہو جائیں جیسا کہ کہا جا رہا کہ ان کی اس گستاخی کو نظر انداز کر دو ۔تو وہ مسلمانوں کو انتہا پسند نہیں کہیں گے ،دہشت گرد نہیں کہیں گے ۔خاموشی اختیار کی جائے ۔لیکن وہ پھر بھی باز نہیں آئیں آئیں گے۔ کیونکہ ان کے پاس پیسہ ہے وہ طاقت ور ہیں ، ان کے سامنے ایک مقصد ہے ،مسلمانوں کو اشتعال دلاناان کو دہشت گرد قرار دینا اور پھر ان پر زندگی اجیرن کر دینا ۔اس لیے خاموشی یا نظر انداز کر دینا یہ درست طرز عمل نہیں ہے ۔کہا جا سکتا ہے کہ بار بار یہ آقا مکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کر کے وہ ہمارے اندر سے حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔اور جس دن ایسا ہو گیا ۔اس دن ہم صرف نام کے ،مسلمان رہ جائیں گے ۔جیسا وہ چاہتے ہیں۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم احتجاج کریں ،بھر پور احتجاج کریں ،ایسا ہم نے پہلے بھی کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں یہ بھی کوئی پائیدار حل نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ہی تو وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم ایک انتہا پسند قوم ہیں ۔آزادی اظہار رائے پر یقین نہیں رکھتے ۔ایک حل یہ بھی ہے کہ جو ایسا کرتا ہے اس کے خلاف اعلان جہاد کر دیا جائے ۔ایسا بھی کسی حد تک ہو رہا ہے اس اعلان کا اثردنیا پر تب ہو گا اگر سب مسلمان ممالک جن کی تعداد 58 ہے ایک مشترکہ اعلان کریں ،لیکن بہت سے مسلمان ممالک اس کے خلاف ہیں ۔ ایسا نہیں ہو سکتا یا مشکل ہے۔ ان کا خیال ہے اس طرح ایک اور عالمی جنگ چھڑ جائے گی۔ مسلمانوں کا بہت زیادہ نقصان ہو گاوغیرہ وغیرہ بلکہ اگر کہا جائے کہ توہین رسالت کرنے والے ایسی گھٹیا حرکت کرتے ہی اس لیے ہیں کہ ایسا ہو جائے ۔اصل سوال یہ ہے کہ اب کرنا کیا چاہے ؟جس سے ایسے واقعات رونما ہونے بند ہو جائیں ۔ کوئی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کرنے کی جرات نہ کرے ، ہم کیا کر سکتے ہیں ،لائحہ عمل کیا ہو؟ ۔ تمام مسلمان ممالک مشترکہ طور پر ایک لائحہ عمل طے کریں اور جو بھی لائحہ عمل ہو اس پر مستقل عمل بھی ہونا چاہیے ۔ڈنمارک نے جب یہ گستاخی کی تھی تو اس کی اشیاء کا بائیکاٹ کیا گیا تھا ۔مگر تھوڑی دیر بعد یہ مہم بھی دم توڑ گئی ۔کیا مسلمان ممالک ،توہین آمیز خاکے بنانے والے ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیسے کر سکتے ہیں ؟ہم مسلمان چار دن احتجاج کریں گے پھر بھول بھال جائیں گئے ۔وہ تو کافر ہیں جو ان کو یاد دلاتے ہیں ان کی غیرت آزماتے ہیں ،تو ان کو یاد آتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔

مسلمان نیند میں ڈوبے ہوئے ہیں بلکہ بے ہوش ہو چکے ہیں ، کوئی بھی حادثہ ان کو بیدار کرنے سے قاصر ہے ۔اور کچھ تو اپنے دینی بھائیوں سے لڑائی میں مصروف ہیں ،ان کو گستاخ ،بدعتی ،کافر ،ثابت کرنے سے فرصت نہیں ہے ۔بعض پر موت کا خوف اتنا طاری ہے کہ جہاد کے ہی منکر ہو چکے ہیں ،مجاہدین کو بھی دہشت گرد کہتے ہیں اور بعض نے دہشت گردی کو ہی جہاد سمجھ رکھا ہے ۔دین اسلام جو کہ میانہ روی ،اعتدال کا دین تھا اسے اپنوں نے کیا سے کیا بنا دیا ہے ۔یہ فرقہ پرست مسلمانوں کو اتنی بھی سمجھ نہیں ہے کہ ا پ چاہے جس بھی فرقے سے ہوں غیر مسلموں کی نظر میں آپ مسلمان ہیں ۔ اس لیے کیا ہی اچھا ہوتا جو ہوتے مسلمان بھی ایک ۔ شیطان کے پجاری مسلمانوں کی مرمت کرنے کے لیے ایک ہیں ،اور مسلمان الگ الگ ان سے پٹ رہے ہیں لیکن اخوت کے رشتے میں خود کو نہیں پرو رہے ۔ اللہ کی رسی کو متحد ہو کر نہیں پکڑ رہے ۔ اس شیطانی ٹولے نے توہین رسالت کو آ زادی اظہار رائے کا نام دیا اور اس پر ان سب کا اتحاد بھی ہے۔

دکھ تو اس وقت ہوتا ہے جب ان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مسلمان بھی نظر آتے ہیں ۔مسلمانوں کو دیکھنا چاہیے کس طرح ابلیس کے پیروکار ہماری غیرت ایمانی کا مذاق اڑانے کے لیے اتحاد کیے ہوئے ہیں ۔ ان کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے کیا ہم مسلمان ایک نہیںہو سکتے ؟ پاکستان میں جماعت الدعوة کے علاوہ کوئی اور جماعت اتحاد بین المسلمین کے لیے متحرک نہیں ہے اگر کوئی ہے بھی تو اس کے سیاسی مقاصد ہیں ۔جماعت اسلامی ،منہاج القرآن ،جمیعت علما اسلام نے الگ الگ احتجاج کیا ۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس واقعہ پر تمام جماعتوں کی مشترک کانفرنس بلانے کی ضرورت نہیں ہے ۔احتجاج کرنے ،مذمت کرنے سے کیا یہ گستاخیاں ختم ہو سکتی ہیں ،کیا وہ دہشت گرد نہیں جو دہشت گردی کا سبب بنتے ہیں اس پر اکساتے ہیں ؟

Muhammad Akhtar Sardar

Muhammad Akhtar Sardar

تحریر : اختر سردار چودھری