counter easy hit

چنگاری

Corruption

Corruption

تحریر : طارق حسین بٹ
کیا پاکستان اس لئے تخلیق ہوا تھا کہ یہاں پر ایک مخصوص گروہ اس ملک کے خزانوں پر ہاتھ صاف کرتا رہے اور قومی دولت کو شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کرتا رہے ؟کیا لاکھوں انسانوں نے قربانیاں محض کسی مخصوص خاندان کی حاکمیت اور اقتدار کی خاطر دی تھیں ؟بالکل نہیں کیونکہ پاکستان کا قیام اس اسلامی روح کو تابندگی دینے کی خاطر تھا جسے صدیوں پہلے انسانی آنکھ نے دیکھا تھا ور جس پر وہ عش عش کر اٹھی تھی۔تخلیقِ پاکستان کا واحد مقصد اس اسلامی نظام کا قیام تھا جو ہر مسلمان کے دل میں ایک خوبصورت آرزو بن کر دھڑک رہا ہے۔ قیامِ پاکستان اسی جامع نظامِ حکومت کو عملی شکل میں دیکھنے کی حسرت کا دوسرا نام تھا جسے کوئی بھی دلوں سے کھرچ نہیں سکتا۔

ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ ہمارے حکمران طبقہ نے سرکاری دولت کو پنی دولت سمجھنا شروع کر دیا اور قومی دولت کوذاتی دولت سمجھ کر ذاتی بینک اکائونٹس میں جمع کرواناشروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حالیہ برسوں میں بر سرِ اقتدار آنے والی چند شخصیتیں پا کستان کی امیر ترین شخصیات بن گئیں ۔ ان اہلِ اقتدار گروہوں کے سرخیلوں سے کسی پارٹی کارکن نے کیاکبھی یہ پوچھنے کی کوشش کی ہے کہ جنابِ عالی آپ کے ہاں یہ جو دولت کی ریل پیل ہے اس کے ذرائع ہمیں بتائیے؟وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر اس اسلامی نظامِ حکومت کی داغ دبیل ڈالین جس میں عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے تا کہ کر کرپشن اور نا انسافی کاقلع قمع ہو سکے۔

بدقسمتی سے پاکستان کے نظریاتی قائد علامہ محمد اقبال ٢١ اپریل ١٩٣٨ میں داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے جبکہ اس کے بانی بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح ١١ ستمبر ١٩٤٨ میں انتقال کر گئے۔ان دو عظیم ہستیوں کے بعد کوئی ایسی ہستی موجود نہیں تھی جو قیامِ پاکستان کے اغراض و مقاصد کا کما حقہ ادراک رکھتی ہو۔ایک مختصر مدت کے لئے ذولفقارعلی بھٹو نے عوامی مفادات کا علم بلند کیا تو انھیں بے دردی سے راستے سے ہٹا دیا گیا۔اسی طرح کا مقدر عوامی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کا بھی بنا جب انھیں ٢٧ دسمبر ٢٠٠٧ کو سرِ عام شہید کر دیا گیا اور قاتلوں سے باز پرس تک کرنا روا نہ رکھا گیا۔ وہ اب بھی بلا خوف و خطر کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہماری موجودہ سیاسی قیادت اس معیار کی نہیں ہے جس کی امانت و دیانت پر عوام کو اعتماد ہو اور جس کی فہم و فراست پر عوام کو کامل یقین ہو۔

انتخابات میں ووٹ دینا ایک مجبوری ہے لہذا جو قائد بھی عوامی وہ وٹ کا حقدار بنا اس نے عوامی حوا ہشات کا احترام کرنے کی بجائے عوام کو دھوکہ دینے میں اپنی عظمت تصور کی جس سے جہوریت پر عوام کا ایمان متزلزل ہوا۔پارٹی کارکنوں کو بھی خبر ہے کہ ہمارے قائدین کے ہاں جو دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں تو اس کا سبب اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے کہ انھوں نے قومی خزانے پر بڑی بے دردی سے ہاتھ صاف کیا ہے لیکن ذاتی مفادات کی خاطر وہ بھی خاموشی کی چادر اوڑھ کر سو جاتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے اپنے قائدین کے لئے زندہ باد کے نعرے لگا کر انھیں مزید کرپشن کا لائسنس عطا کر درہتے ہیں۔اگر ان میں وطن سے محبت کے جذبے قوی ہوتے تو وہ اپنے قائدین کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرتے اور ان سے لوٹی ہوئی دولت کا حساب مانگتے لیکن لگتا ہے کہ مادیت پرستی کی سوچ نے ان سے احتساب کرنے کی سوچ کو اچک لیا ہے۔اب وہ بھی اپنے قائدین کے ساتھ اس کرپشن میں برابر کے حصہ دار بن چکے ہیں جس نے اس ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ان کی غفلت اور ہوس پرستی قائدین سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ جھنوں نے احتساب کا کردار ادا کرنا تھا وہ خود کرپشن کی لعنت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔،۔

جہاں تک عوام کای عمومی سوچ کا تعلق ہے وہ اب بھی کرپشن سے نجات چاہتے ہیں اور ہر اس سیاسی قائد کو جو پاکستان کی قومی دولت کو لوٹنے کا مجرم ہے اسے سزا دلوانا چاہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہورہی ہے کیونکہ با اثر حلقے اس آ واز کو پرِ کاہ سے زیادہ اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔دولٹ لٹتی جا رہی ہے اور عوام بے بسی سے اس لٹنے کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے دنوں میں یہ امید بندھی تھی کہ حکمرانوں کا احتساب ہو گا اور لوٹی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں جمع کروایا جائے گا لیکن بدقسمتی سے احتساب کرنے والے خود لوٹ مار میں شامل ہو گئے اور یوں امید کی یہ چنگاری بھی بجھ کر راکھ ہو گئی۔جب کسی کو ڈر اور خوف باقی نہ رہے تو پھر لوٹ مار کا رنگ ہی اور ہوتا ہے۔

خدا فراموشی تو پہلے ہی اپنا وجود کھو چکی ہے ، عدالتیں بھی بے اثر ہو چکی ہیں اور فوج آئین کے ہاتھوں مجبور تماشائی ہے لہذا کوئی ایسا دروازہ باقی نہیں بچا جہاں سے کرپشن کرنے والوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے۔ ایک ادارہ نیب تھا جسے یہ فرض سونپا گیا تھا کہ وہ حکمرانوں کا احتساب کر کے انھیں عدالت کے کٹہرے میں لائے۔ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اپوزیشن لیڈر اور لیڈر آف دی ہائوس کی باہمی مشاورت سے چیرمین نیب کا تقرر کر کے نیب کے چیرمین کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ احتساب کا فریضہ سر انجام دے تا کہ نظامِ حکومت شفافیت سے رو بعمل ہو سکے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے نیب کا ادارہ حکمرانون کی لونڈی بن کر سویا ہوا ہے اور حکمران اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں۔

کرپشن اپنی انتہائوں کو چھونے لگی تو ہر کسی کو اس ملک کی یکجہتی کی فکر دامن گیر ہو گئی کیونکہ کرپشن کے بعد کسی بھی ملک کا قائم رہنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔نیب نے یکلخت نیند سے بیدار ہو کر احتساب کا نعرہ بلند کر دیا جس سے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو گئیں لیکن ستم با لائے ستم یہ ہے کہ نیب کا یہ نعرہ فقط نعرہ ہی ثا بت ہو گا کیونکہ آج تک کوئی ادارہ حکمرانوں کا احتساب نہیں کر سکا۔جب کوئی احتساب کا نعرہ بلند کرتا ہے تو لوگ چو کنے ہو جاتے ہیں کہ کچھ ہونے والا ہے۔حالیہ دنوں میں چیرمین نیب کا بیان حکمرانوں پر آسمانی بجلی بن کر گرا ہے اور میاں محمد نواز شریف نے چیرمین نیب کو کھلے الفاظ میں دھمکی دے دی ہے کہ کوئی ان کا احتساب نہیں کر سکتا کیونکہ کسی کو ہمارا احتساب کرنے کا اختیار نہیں ہے لہذا نیب کے چیرمین کو اپنی حدود میں رہنا ہو گا۔

میری حکومت شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے کی کسی کو اجازت نہیں دے گی چاہے وہ نیب کا ادارہ ہی کیوں نہ ہو۔اگر میاں محمد نواز شریف اسی پر ہی اکتفا کر لیتے تو شائد بات زیادہ دورتک نہ جاتی لیکن انھوں نے یہ کہہ کر کہ ہم نیب کے اوپر ایک ایسا ادارہ بنائیں گئے جو نیب کا احتساب کریگا تو عوام کو سمجھ جانا چائیے کہ پاکستان میں حکمرانوں کا احتساب نہیں ہو سکتا ۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ وزیرِ اعظم کو احتساب سے اتنا خوف کیوں ہے؟ اگر انھوں نے کرپشن نہیں کی تو انھیں کھلے عام چیرمین نیب کے بیان کی حمائت کرنی چائیے تھی تا کہ معاشرے کا سارا گندھ صاف ہو جاتا لیکن ایساکرنے کی بجائے میاں محمد نواز شریف نے چیرمین نیب کو دھمکی لگا کر دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔انھوں نے چیرمین نیب کو وارننگ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ان کا کوئی احتساب نہیں کر سکتا۔

چیرمین نیب کو دھمکی دینا خود اس بات کا اعلان ہے کہ حکمران کرپشن میں دھنسے ہوئے ہیں اور وہ احتساب پر یقین نہیں رکھتے۔میاں محمد نواز شریف کی دیکھا دیکھی ان کی ساری جماعت ان کے دفاع میں کھڑی ہو گئی ہے جس سے چیرمین نیب کی پوزیشن انتہائی کمزور ہو گئی ہے۔وفاقی وزراچیرمین نیب کو اپنی حدود میں رہنے کا مشورہ دے رہے ہیںاور اپنے مینڈیٹ کا احترم کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کسی نے اپنی مرضی کا احتساب کرنے کی کوشش کی تو اس سے آئینی طریقے سے نپٹا جائیگا۔

Tariq Butt

Tariq Butt

تحریر : طارق حسین بٹ