counter easy hit

پولیو مرض

غم زدہ گیت آج گاتے ہیں
سوز کی دھن نئی بناتے ہیں

پولیو مرض اک پرانا ہے
اس کا قصہ تمہیں سناتے ہیں

اس سے بچنے کی اک دوائی ہے
جسکے ٹیکے لگائے جاتے ہیں

کچھ رضاکار یہ لگاتے ہیں
اور بچوں کے پاس جاتے ہیں

اس مہم کے خلاف ہیں جو لوگ
غیر دینی اسے بتاتے ہیں

ان سے وہ جا بجا الجھتے ہیں
ان کو وہ خواہ مخواہ ڈراتے ہیں

گل کے بدلہ یہ خار دیتے ہیں
پیار کے بدلے مار جاتے ہیں

فرض جن کو عزیز ہوتا ہے
جان اپنی وہ ہار جاتے ہیں

پولیو ٹیم کی حفاظت کو
پھر محافظ پکارے جاتے ہیں

زور چلتا نہیں حکومت پر
اور بدلے اتارے جاتے ہیں

ٹارگٹ پر ہیں یہ پولیس والے
جو کراچی میں مارے جاتے ہیں

چھوٹے بچوں کی جان کا صدقہ
ٹیکے والے اتارے جاتے ہیں

بچے اس قوم کی امانت ہیں
جن کو یہ لوگ ہی بچاتے ہیں

پولیو کی مہم چلاتے ہیں
مرض کو دور یہ بھگاتے ہیں

خیر ہو انکے پاسداروںکی
جان پہ اپنی کھیل جاتے ہیں

انکے قاتل جو دندناتے ہیں
روز آتے ہیں روز جاتے ہیں

ہاتھ میں کیوں مگر نہیں آتے
کیوں ہمیشہ وہ بھاگ جاتے ہیں

کیوں جوابات پھر نہیں ملتے
کیوں فسانے سنائے جاتے ہیں

ہے کہاں پر وہ روشنی کی کرن
جس کو انجم چھپائے جاتے ہیں

Prince Anjum Balouchistani

Prince Anjum Balouchistani

تحریر: پرنس انجم بلوچستانی