counter easy hit

انصاف کا سست رو نظام

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمدعلی شیخ نے کہا ہے کہ انصاف سستا  ہے نہ ہی تیز ، میں اعتراض کرتا ہوں کہ سائلین کو جلد انصاف نہیں ملتا ۔ اس سماج میں اپنی مرضی سے جی بھی نہیں سکتے، ہمیں ہمیشہ غلط کو غلط کہنا چاہیے اور سچ کے ساتھ کھڑے رہنا چاہیے۔ سائلین کو جلد انصاف نہیں ملتا اس حقیقت کو جانتے ہوئے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ضمیر مطمئن ہے تو ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے ۔ چیف جسٹس نے ملک میں تعلیم کی مایوس کن صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سفارش یا سیاسی بنیادوں پر تعینات ہونے والا استاد بچوں کو کیا پڑھائے گا ایسے اسکول بھی ہیں جہاں 700 بچے ہیں اور استاد ایک ہے۔ اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں۔ سفارشی کلچر عام ہے مستحق کو حق نہیں ملتا۔ فاضل چیف جسٹس نے ہیلپ لائن کے تحت دوسری جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔

اس حقیقت سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف کی تاخیر کا عالم یہ ہے کہ باپ کی زندگی میں شروع ہونے والے مقدمات کا فیصلہ پوتوں کی زندگی میں ہوتا ہے اور زیر سماعت ملزمان پندرہ پندرہ سال جیل میں گزارنے کے بعد بے گناہ قرار دے کر بری کیے جاتے ہیں۔ جیلیں جرائم کے اڈوں میں بدل گئی ہیں پیسے کے عوض جیلوں میں منشیات اور لڑکیوں سمیت برائی کی ہر چیز دستیاب ہوتی ہے دولت مند قیدی رات اپنے گھروں میں گزار کر صبح جیلوں میں واپس پہنچ جاتے ہیں۔ عادی مجرم جرائم کی منصوبہ بندی جیلوں میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔ ایک جیل میں جہاں ایک ہزار قیدیوں کی گنجائش ہوتی ہے تین تین چار چار ہزار قیدی رکھے جاتے ہیں۔ غریب قیدی وکلا کی فیس دینے سے قاصر ہونے کی وجہ سے برسوں جیل میں پڑے رہتے ہیں۔ دولت مند قیدی دولت کے بل بوتے پر جیل میں گھر سے زیادہ آرام دہ زندگی گزارتے ہیں۔ یہ ساری خرابیاں عشروں سے ہمارے سیٹ اپ کا حصہ بنی ہوئی ہیں، لیکن ان میں بامعنی اصلاح کی سوچنے والا کوئی نہیں۔ حکمران اگر کوئی کام کرتے ہیں تو اس کا مقصد صرف پبلسٹی ہوتا ہے۔

عدالتی نظام میں جو خرابیاں دکھائی دیتی ہیں وہ آج کی نہیں ہیں یہ ورثے میں ملی ہوئی ہیں۔ ہم ہندوستان پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی کے دور پر فخر کرتے ہیں۔ یہ فخر اس حوالے سے تو بجا ہے کہ 15-20 فیصد اقلیت نے اپنی دانائی سے 80 فیصد سے زیادہ اکثریت پر ایک ہزار سال تک حکومت کی لیکن اس دور میں قانون اور انصاف کا نظام انتہائی ابتر بلکہ ظالمانہ تھا۔ اقتدار کی ہوس میں برسر اقتدار حکمران اقتدار کے ممکنہ دعویداروں کو بندی خانوں (جیلوں) میں ڈال کر بھول جاتے تھے اور سازشوں کا اور سفاکی کا عالم یہ تھا کہ اقتداری جھگڑوں میں ایک دوسرے کو قتل کرانا عام بات تھی۔ اس دور میں قانون اور انصاف کا کوئی منظم اور ادارہ جاتی نظام نہ تھا عموماً بادشاہوں کی زبان سے نکلے ہوئے لفظ ہی قانون اور انصاف کا کام انجام دیتے تھے۔

اس دور میں کوئی بادشاہ عدل و انصاف سے کام لیتا تو وہ سارے زمانے میں مشہور ہوجاتا تھا۔ اس حوالے سے عدل جہانگیری مقبول عوام تھا کیونکہ بادشاہ خود فریادیوں کی فریاد براہ راست سنتا تھا اور بلا کسی تاخیر کے فیصلے سنا دیتا تھا اس حوالے سے آج بھی عدل جہانگیری کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔شاہی دور کی باقیات آج ہمارے سامنے وڈیرہ شاہی کی شکل میں موجود ہے اور یہ تاثر عام ہے کہ وڈیروں کی ایک جیب میں قانون ہوتا ہے دوسری میں انصاف ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج بھی دیہی علاقوں میں انتظامیہ وڈیروں کے اشارۂ ابرو پر کام کرتی ہے۔ ماضی کے شاہی دور میں جو جبر کا کلچر عام تھا شاہی دور کی باقیات آج اس کلچر کو فالو کر رہی ہے۔ کسی کسان یا ہاری کی یہ ہمت نہیں کہ وہ وڈیروں سے نظر ملاکر بات کرسکیں۔ اس غلامی سے بغاوت کرنے والوں کو اپنے غنڈوں کے ذریعے بھیانک سزائیں دی جاتی ہیں سرکش ہاریوں کی بے عزتی کرنے کے لیے ان کی خواتین کے ننگے جلوس نکالے جاتے ہیں۔ یہ ماضی نہیں حال کا حال ہے۔

قانون اور انصاف کے نظام کا تعلق عموماً ملک میں موجود سماجی ڈھانچے سے بھی ہوتا ہے آج کے اکیسویں صدی کے دور میں ہمارے قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں پنچایت اور جرگے کے شرمناک فیصلے کیے جاتے ہیں اور ان پر دھڑلے سے عملدرآمد بھی کیا جاتا ہے۔ ونی، وٹہ سٹہ اور غیرت کے نام پر قتل عام بات ہے اور یہ عمل اس لیے جاری ہے کہ ہمارا سماجی ڈھانچہ ابھی تک قبائلی اور جاگیردارانہ ہے دیہی علاقوں میں یہ عمل دھڑلے سے جاری ہے چونکہ یہ معاشرے جبر پر قائم ہیں۔ اس لیے اس کے خلاف بغاوت کے واقعات عام ہیں ہماری لڑکیوں کو پسند کی شادی کا حق نہیں۔ اس حق تلفی کے خلاف شہروں ہی میں نہیں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی لڑکیاں بغاوت کر رہی ہیں ۔ ایک تازہ خبر کے مطابق پشاور کی دو سہیلیوں نے دو مردوں کے ساتھ پسند کی شادی کی اور اپنے شوہروں کے ساتھ رہنے لگیں یہ اس جبر کے خلاف بغاوت ہے جو ہمارے معاشروں میں جاری ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں اور معاشروں میں اگرچہ طبقاتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے لیکن خواتین کی آزادی رائے کا ان معاشروں میں بے حد احترام کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی یافتہ معاشروں میں خواتین کو مکمل صنفی آزادی حاصل ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ آزادی اب بے لگام ہو رہی ہے اور ترقی یافتہ ملکوں کے دانشور اس بے لگام آزادی سے سخت پریشان ہیں کہ اگر اسے جاری رہنے دیا جائے تو ترقی یافتہ معاشروں میں جنسی بے لگامی عام ہوجائے گی اور قانون اور انصاف کے ادارے اس بے لگامی کو روکنے میں ناکام ہوجائیں گے۔ اسی خوف اور خطرے کی وجہ سے ترقی یافتہ ملکوں میں عورت کی آزادی کو قانون اور انصاف کے شکنجے میں لانے کی آوازیں امڈ رہی ہیں ایک طرف وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ جبر ہے تو دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کی بے لگامی ہے اور دونوں صورتوں میں قانون اور انصاف بے بس نظر آتے ہیں۔

بات چلی تھی سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس  احمد علی شیخ کی اس آبزرویشن سے کہ ہمارے ملک میں انصاف کا نظام انتہائی سست رفتار ہے اور سائلین کو انصاف کے حصول میں ایک عمر بتا دینا پڑتی ہے۔ چیف جسٹس  نے فرمایا کہ میں عدلیہ کی اس کمزوری کا اعتراف کرتا ہوں اور عدلیہ کوشش کر رہی ہے کہ وہ انصاف کی سست رفتاری پر قابو پائے۔ انصاف کی سست رفتاری کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں، ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انصاف کی جلدی فراہمی میں جس قدر عملے کی ضرورت ہوتی ہے اتنی تعداد میں ججز اور عدالتی عملہ دستیاب نہ ہو جس کی وجہ سے انصاف میں تاخیر ہو اور دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انصاف فراہم کرنے والے غیر ذمے داری اور سستی کا مظاہرہ کریں۔ اگر انصاف کی بروقت فراہمی میں یہی دو رکاوٹیں موجود ہیں تو ان کا سدباب کوئی مشکل امر نہیں لیکن اگر انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی وجہ ہمارا سماجی اور اقتداری ڈھانچہ ہے تو اس پر قابو پانا آسان نہیں۔

اس قسم کی تمام شکایات کی بالواسطہ اور بلاواسطہ ذمے داری ہمارے حکمران طبقے پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ انصاف کے نظام کو درکار وسائل فراہم کرنا حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے اور بدقسمتی سے حکومتوں اور حکمرانوں کی ترجیحات ’’مختلف‘‘ ہیں جس کی وجہ سے صرف انصاف فراہم کرنے والے ادارے ہی متاثر نہیں ہو رہے بلکہ دوسرے اہم حکومتی ادارے بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جن میں بلدیاتی ادارے سرفہرست ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام میں وکلا کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی لالچ نے اس ریڑھ کی ہڈی کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے جس کا براہ راست اثر ان غریب سائلین پر پڑتا ہے جو وکیلوں کی فیس دینے کی اہلیت نہیں رکھتے انصاف کی بلا تاخیر فراہمی کی خواہش رکھنے والوں کو ان تمام رکاوٹوں پر غور کرنا چاہیے جو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا سبب بنے ہوئے ہیں اور ان کے ازالے کی کوشش کی جانی چاہیے۔