counter easy hit

سیاچن کا محاذ ، رات کی تاریکی ، مورچے میں بیٹھے پاک فوج کے جوان اور مٹی کے تیل کے دیے کا بجھنا اور پھر خود بخود جل اٹھنا

لاہور (انتخاب : شیر سلطان ملک ) سیاچن کے برف زارِ نار میں برف ہی سیہ اور سائبان ہے۔ چاروں جانب صرف برف کی چادر نظر آتی ہے اسے آپ کفن سمجھیں یابندگان با صفا کا پُر انوار لباس ۔جن لوگوں کو سیاچن کیلئے چنا جاتا ہے‘ انکی بہترین فٹنس اولین شرط ہے۔ تربیت کے بعد آخر میں ایک بار پھر نامور کالم نگار فضل حسین اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔سیاچن جانے کی رائے پوچھی جاتی ہے۔ ایک ایک لمحے کا عذاب آنگیں ہونا یقینی ہے۔ پھر بھی یہ سپوت ولنٹیئر ہوتے ہیں۔ وہ کونسا جذبہ ہے جو ان کو برضا و رغبت برف زارِ نار میں لے جانے کی تڑپ پیدا کرتا ہے وہ ہے مادرِ وطن سے محبت اور اپنے و نسلوں کے آزاد و روشن مستقبل کی تمنا وجستجو۔برف گر رہی ہوتی جو رفتہ رفتہ جم جاتی ہے۔ سیکڑوں فٹ کی کھائی میں گرنے والا کچی برف میں دھنس کر غائب ہو بھی سکتاہے اور پھر آسیب ایک مزید مہیب ہے۔ ایک جوان نے بتایا وہ اگلو میں بیٹھا تھا جس میں دو لوگ ہی لیٹ سکتے ہیں۔ تیسرے کو بیٹھنا پڑتا ہے۔ سامنے مٹی کے تیل کا دیا جل رہا تھا جو جلتے جلتے بغیر ٹمٹمائے بُجھ گیا۔ یہ کوئی انہونی نہیں، جوان دوبارہ دیا جلانے کا سوچ رہا تھا کہ دیاخودبخود جل اٹھا۔ ایسے میں خوف سے کیا کیفیت ہوسکتی ہے۔ سیاچن قراقرم کی برفیلی چوٹیوں پر موجود، تین کھرب مکعب فٹ برف سے بنا ہوا 45 میل لمبا اور تقریباً 20 ہزار فٹ کی بلندی سے شروع ہونیوالا برف جہان ہے ۔یہاں ڈیوٹی دینے فوجیوں کیلئے روایتی تیاری ناکافی ہوتی ہے۔ عام طور پر درجہ حرارت منفی دس سے منفی بیس ڈگری رہتا ہےجبکہ اکتوبر سے مارچ تک ناقابلِ یقین منفی 50 ڈگری تک گر جاتا ہے۔ سردی کے موسم میں برفانی طوفان اور ہوائوں کے جھکڑ 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے اور اپنے ساتھ اوسطاً 40 فٹ برفباری لاتے ہیں۔حیران کن امر یہ ہے کہ مقامی لوگ کھپر وعام لباس میں چلتے پھرتے ہیں جو پاک فوج کے معاون ہیں۔ اس گلیشیئرپر سالانہ آٹھ ماہ برفباری ہوتی ہے اور اونچائی کی وجہ سے صرف 30 فیصد تک آکسیجن رہ جاتی ہے جو فوجیوں کا سب سے کڑا امتحان ہے۔ سانس لینا یعنی وہ چیز جو ہم سب سے آسان سمجھتے ہیں وہی وہاںسب سے مشکل کام ہے۔ آپ لمبی سانس لینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اتنی کم آکسیجن میں آرام کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ سیاچن پر تعیناتی سے پہلے تمام فوجیوں کو مخصوص تربیت سے گزرنا پڑتا ہے ،انھیں آرمی کے کوہ پیمائی کے سکول میں تربیت دی اور سیاچن کی آب وہوا کاعادی ہونے کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ فوجیوں کو کم آکسیجن میں پوری صلاحیت سے کام کرنے کے قابل بنایا جائے۔سیاچن پر ڈیوٹی دینے والے پاکستانی فوجی کندھوں پر 25 سے 30 کلو وزنی سامان اٹھا کر ہزاروں فٹ بلندی پر سفر کرتے ہیں۔اس سامان میں آکسیجن کنستر، برفانی کلہاڑی، خشک کھانا، رسیاں، خاص جرابیں اور دستانے ہوتے ہیں۔برف پر چلنے والے مخصوص جوتے ہی صرف دس کلو وزنی ہوتے ہیں۔ایک فوجی جو زندگی سیاچن پر گزارتا ہے اسے وہ تجربہ کسی اور محاذ پر نہیں مل سکتا۔ معمولی کام جیسے دانت برش کرنا، باتھ روم جانا، شیو کرنا، یہ بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔ منفی 20 ڈگری کی سردی میں جلد پر ٹھنڈے پانی لگنے کا مطلب ہے فراسٹ بائیٹ اور اس کا علاج صرف اس عضو کو کاٹ کر پھینکنا ہے۔ اس ناگہانیت سے کئی سرفروش گزر چکے ہیں ۔بی بی سی ،اے ایف پی وائس آف امریکا اور دیگراداروں کی رپورٹس دل دہلا دیتی ہیں۔سیاچن کی آزمائش سے گزرنے والے کہتے ہیں:۔ سال میں راشن ایک دفعہ ہی ملتا ہے جسے برف میں سٹور کر لیتے ہیں، وہ کھانے نہ ہی کھائیں تو بہتر ہے۔ کھانا بنانا ایک الگ امتحان ہے۔ اتنی اونچائی پر صرف دال گلانے میں چار پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔ سیاچن پر دشواری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب اوپر جاتے ہیں تو تربیت میں کہا جاتا ہے کہ کم ہلو اور آکسیجن بچائو۔لیکن 19بیس ہزار فٹ کی بلندی پر آپ ساکت نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ اس قدر شدید سردی میں خون جمنے کا خطرہ ہوتا ہے۔کریں تو کیا کریں؟جسمانی بیماریوں کے علاوہ ایک اور مسئلہ ذہنی حالت بھی ہے۔ایک پوسٹ پر چند لوگ ہوتے ہیں۔انہی تین چارکے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے آپکے پاس باتیں ختم ہو جاتی ہیں ۔ ایک دفعہ اوپر چلے گئے تو کچھ نہیں ہو سکتا، تنہائی کے اس ماحول میں فوجی آخر وقت کیسے صرف کرتے ہیں؟یہی سب سے مشکل ہوتا ہے کہ دن کیسے کاٹیں؟ سارا سارا دن اتھاہ تنہائی کے عالم میں، خون جمادینے والی سردی میں چاروں طرف برف کی چادر کو دیکھنا اور ایک ان دیکھے دشمن سے لڑنا اور کچھ نہیں صرف دیوانگی ہے۔ اسلم لودھی نے کیپٹن علی روئوف مگسی شہیدِ سیاچن کے حوالے سے لکھا:ایک رات وہ اگلو کے تھے کہ انہیں اذان کی آواز سنائی دی ‘ وہ حیران تھے کہ دور دور تک یہاںکوئی انسان یا آبادی دکھائی نہیں دیتی ‘ پھر اذان کی آواز کہاں سے آرہی ہے‘ چاندنی رات میں اردگرد دیکھنے کی جستجو کی تو برفانی چوٹیوںپر سفید لباس پہنے دور تک لوگ نماز پڑھتے دکھائی دیئے ‘کیپٹن علی نے بھی بے ساختہ نماز کی نیت کر لی ‘ نماز سے جب فارغ ہوئے تو بدحواسی کے عالم میں خیمے میں داخل ہوئے ‘اس لمحے وہ پسینے سے شرابور تھے ‘ ساتھیوں کے پوچھنے پر پُر اسرار روداد سنائی۔ ساتھی مسکرائے اور کہاپریشان نہ ہوں وہ پاک فوج کے ان شہیدوں کی روحیں ہیں۔کچھ سیاہ کار بغض عناد کینے اور کرودھ میں کہتے ہیں فوجی کو تنخواہ اسی لئے دی جاتی ایسی مخلوق کی اولاد کو بھرتی کرکے سیاچن پر چھ ماہ کی تعیناتی لازم قرار دی جائے تو کیسا رہے گا۔