counter easy hit

پنجاب

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
وزیر اعلیٰ پنجاب جناب میاں محمد شہبازشریف کی کاوش کہ پنجاب کی مخلوق خدا کوادویات سازی میں دو نمبر اور غیر معیاری ادویات سے چھٹکارہ دلا کر ہی رہنا ہے ان کی یہ نیت قابلِ فخر بھی اور قابلِ ستائش بھی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی نیت پر شک کئے بغیر پاکستان بلخصوص پنجاب کے کمیسٹوں ، ڈرگس، میڈیکل سٹورز ، ڈسٹری بیووٹرز ہول سیلرز اور رٹیلرز نے گزشتہ روز پورے پنجاب چھوٹے بڑے شہر قصبوں میں کامیاب ہڑتال کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کی دھمکی بھی دے رکھی ہے، ہر آدمی کی اپنی اپنی سوچ اور عقل کی بات ہیں، انسانی فطرت کا تقاضا ہے ہر ایک انسان دوسرے انسان سے اختلافِ رائے بھی رکھتا ہے مگر مسائل کے حل کے لئے متاثرین کو شریک کئے بغیر پائدار حل نہیں نکل سکتا، جہاں تک مسائل کے حل کئے لئے سٹرکوں پر آنے ،ہڑتالوں اور دھرنوں کی بات ہیں ۔یہ جموریت کا حسن تو ہوسکتے ہیں مگر نیک شگوں نہیں،خاص طور پر جہاں معاملہ صحت اور بیماری کا ہو،کاش کوئی اُن بے بس عوام کا دکھ درد سمجھنے کی کوشش کرے جن کے گھر کے فرد ایک وقت ادویات نہ کھائیں تو سسکیوں۔

آہوں اور آئے مر گیا آئے مر گیا کی آوازیں جب تندرست بھائی بہنوں ماں اور باپ کے کانوں میں پڑے تو کیا ایسا گھرانا قیامت ِ صغریٰ کا عملی مظاہرہ پیش نہیں کر رہا، اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس کا زمہ دار کون ہے؟ پنجاب حکومت نے 6 اگست 2015 کو پنجاب ڈرگز آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت ڈرگ ایکٹ اور ترامیم میں اضافہ کیا گیا ہے ادویات میں خود ساختہ تبدیلیوں کی سزاؤں میں اضافہ کر دیا گیا ہے، یعنی اگر ایک کمپنی ایک ڈراپس 10 ایم ایل بنا رہی ہے اگر ایک پوائینٹ 0.001 اضافہ یا کمی ہے تو وہ دوا جعلی تصور ہوگئی، اگر کسی دوا کا رنگ زائقہ میں تبدیلی واقع ہو گئی ہے تب بھی دوا جعلی تصور ہوگئی، ایسی تبدیلیوں پر سزاؤں پراضافہ اورجرمانے اور ایف آئی آر کا انراج کے علاوہ تفتیش کا دائرہ ڈرگ انسپکٹرز کے علاوہ پولیس انسپیکٹرز کو بھی منتقل کیا گیا ہے، ڈرگ ایکٹ 1976 ایک وفاقی قانون ہے جس کا دائرہ پورا پاکستان ہے ، کمیسٹ برادری کے مطابق پنجاب ڈرگز آرڈیننس وفاقی ڈرگ ایکٹ 1976 سے متصادم ہے۔اور اس ایکٹ میں پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ترمیم نہیں کی جا سکتیں۔

Pharmaceuticals

Pharmaceuticals

پاکستان میں ادویہ سازی زیادہ تر برٹش فارما کوپیا اور امریکن فارما کوپیا کے تحت مسلمہ اصولوں کے مطابق کی جاتی ہیں، دونوں ایکٹس میں دونوں فارما کوپیا اور دیگر دنیا کے فارما کوپیا کے تحت ادویات کے اجزائے ترکیبی اور دیگر قوائد و ضابط پرکھنے اور جانچ پڑتال کے اصول واضع ہیں۔ پنجاب حکومت نے ڈرگ ایکٹ میں ترمیم سے اس دوا کو معیاری قرار دیا ہے جو سو فیصد اصولوں پر پورا اترے اور اگر کوئی دوا 98% بھی درست پائی جائے تب بھی وہ جعلی تصور ہوگئی اس سے پہلے ایسی ادویات غیر معیاری تصور کی جاتی تھیں ۔ اسی طرح اگر کسی گولی یا کیپسول بلسٹر پیکنگ سے کھلی ہوئی ہو تو وہ بھی جعلی تصور ہوگئی، اس کی سزا، بھاری جرمانہ کمیسٹ کو اد کرنا ہوگا۔

کیمسٹ برادری کے درد کو سمجھنے کے لئے ایک مثال ہی کافی ہے برِصغیر پاکستان و ہندوستان میں یونانی طریقہ علاج عرف عام میں طب یا دیسی جڑی بوٹیوں سے دنیا بھر کے امریکہ اور یورپ سمیت لوگ مستفید ہو رہے ہیں، کیونکہ ان ادویات کے کسی قسم کے بداثرات نہیں جس کی وجہ سی پاکستان میں ڈرگ ایکٹ 1976 کے تحت ایسی ادویات کے لئے کسی قسم کا ڈرگ لائسنس کی بھی ضرورت نہیں امریکہ یورپ میں ان ادویات کو ہربل Harbel or Alternative or Natural Midicine الٹرنیٹیو یا نیچرل میڈیسن وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے ، اب حکومت پنجاب کے تحت میڈیکل سٹور والے یہ ادویات نہیں رکھ سکتے ، یہ ادویات یونانی دواخانے ہی فروخت کر سکتے ہیں پچلے دنوں ایک تحصیل دینہ ضلع جہلم کے ڈرگ انسپیکٹر سید وقار شاہ صاحب سے غیر رسمی ملاقات ہو گی ، موصوف عطائیت کی تشریع یا تعریف کرتے ہوئے فرما رہے تھے اگر کوئی معالج کوالیفائڈ یا رجسٹرڈ بھی ہو اگر وہ اپنا طریقہ علاج چھوڑ کر دوسرے طریقہ سے کچھ بھی دے یا اڈوائس کرے تو عطائیت ہوگئی، مثلاً اگر کوئی ہومیوپیتک ڈاکٹر کسی کو ڈسپرین یا کوئی دیسی دوا کا مشورہ دیتا ہے تو وہ عطائیت کے زمرے میں آتا ہے،

اگر قانون سب کے لئے یکساں اور برابری میں ہو تو جو سرجیکل یا میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر صاحبان اسپغول کا چھلکا ااستعمال کرواتے ہیں ، اسپغول دیسی ادویات کے زمرے میں آتا ہے تو کیا ہمارے سپیشلیسٹ ڈاکٹر صاحبان ۔۔۔ عطائی ہیں ؟؟؟ اسی طرح موصوف فرما رہے تھے کہ ہمارے پاس ہائر اتھارٹی کا لیٹر ہے اب ہم گھٹی گرائپ واٹر وغیرہ بیکریوں ، میڈیکل سٹوروں اور کلینکوں سے اُٹھارہے ہیں کیونکہ گھٹی کا استعمال دوا کے طور پر ہوتا جس چیز کو لوگ تکلیف میں آرام کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ دوا ہے، اور دوا کے اجزئے ترکیبی اور تاریخ ِ معیاد اور مینو فیکچرز کا پتہ ہونا چاہیے سب کچھ ٹھیک ہے ایسا ہی ہونا چاہیے۔

Counterfeit Medicines

Counterfeit Medicines

کیا اس کا یہ مطلب نہیں ۔۔۔کہ دہی فروخت کرنے والے کو بھی ادویات فرخت کرنے والے کے زمرے میں شامل کیا جائے گا، کیونکہ لوگ ، پیٹ کے مڑوڑ اور معدہ کے امراض کے لئے دہی کا استعمال کرتے ہیں اور اس سے افاقہ بھی ملتا ہے، ڈرگ انسپکٹر کے بقول پھر دہی بھی دوا بن گئی۔اور یہ ہربل کے تحت آئے گئی اور پھر جو حکیموں کے علاوہ دہی کے استعمال کا مشورہ دے گا وہ بھی عطائی ہے خواہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہو یا ایم بی بی ایس ؟ ایسا قانین ملک و قوم کے دردوں کو ریلیف نہیں بلکہ سردرد کا سبب بنتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر یہ ادویات ہربل، الٹرنیٹیو میڈیسن اور نیچرل ادویات جعلی یا غیر معیاری ہیں تو متعلقہ کمپنی کو سزا ملی چاہیے اور فرخت کرنے والے کے پاس بنانے والی فرم کااور سیل کرنے والے ڈسٹری بیوٹرز کی بل وارنٹی ہی کافی ہے اگر کوئی کمیسٹ بل وارنٹی پیش نہیں کرتا پھر جرمانہ یا سزا دی جائے۔

جب کے نئے قوانین سارا نزلہ بچارے کمیسٹوں پر ڈال کر ان کی عزت و آبرو کو نست و نمود کیا جا رہا ہے۔کوئی بھی شخص یا ادارہ یہ نہیں چاہتا کہ صحت کے معاملے میں انسانی زندگیوں سے کھیلا جائے، کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے جو ادویات خریدی جائے وہ غیر معیاری یا جعلی ہو، اصل مسئلہ ہے جو ادویات ساز ادارے ادویات تیار کرتے ہیں وہ خام مال جن سے ادویات تیار ہوتیں ہیں وہ دنیا کے دیگر ممالک سے منگوایا جاتا ہے،پچلے ہی دنوں کی بات ہے ایک کمپنی نے خام مال منگوایا جو زائد المیاد ہو چکا تھا اور اس سے بچوں کے لئے چوکلیٹ بنائے گئے،اگر جعلی اور غیر معیاری ادویات کا خاتمہ کرنا ہے تو پھرجرمانے اور سزا کا عملدرآمد وفاقی ڈرگ ایکٹ 1976 میںپارلیمنٹ سے ترمیم پاس کروائی جائے اور اس ایکٹ سے وابسطہ تمام لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے اور اس بات کا پختہ اراا کیا جائے کہ ہم سب صرف پاکستانی ہے ایسا قانون جو وفاقی قانون اور دیگر صوبوں سے مماثلت نہ رکھتا ہو وہ قطاً درست نہیں۔

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا