counter easy hit

ایک دلچسپ اور معنی خیز تحریر ملاحظہ کیجیے

See an interesting and meaningful article

لاہور (ویب ڈیسک) ایک آدمی مرا اور اُسے دوزخ میں بھیجنے کا فیصلہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ جہنم کی تو کئی اقسام ہیں بلکہ ہر مُلک کے شہریوں کے لئے ایک الگ جہنم مخصوص ہے۔ ”مجھے جرمن دوزخ کی جھلک دکھایئے۔“ خواہش پوری ہوئی تو پوچھنے لگا ”یہاں کیا سلوک ہوتا ہے؟“ نامور کالم نگار شاہد ملک اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ”پہلے ایک گھنٹے کے لئے الیکٹرک چئیر پہ جھٹکے دیتے ہیں، اُس کے بعد حکم ملے گا کہ اب ایک گھنٹہ کیِل کانٹوں کی سیج پہ لیٹے رہو۔“ ”اور پھر؟“ …… ”پھر آئے گا جرمن ابلیس اور شروع ہو گی تمہاری پٹائی جو اُس کا دن بھر کا کام ہے۔“ دوزخی کو یہ بات پسند نہ آئی اور اُس نے فرانسیسی دوزخ دیکھنے کی تمنا کی۔ یہاں سے برطانوی، امریکی اور روسی دوزخ۔ ہر جگہ حالات ایک جیسے تھے۔ یہاں تک کہ پھرتے پھراتے وہ پاکستانی جہنم کے گیٹ پہ جا پہنچا جہاں انتظار کرنے والوں کی طویل قطار لگی ہوئی تھی۔ (صبر کریں، کہانی جاری ہے)۔ دوزخی نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا ”یہاں کیا سلوک ہوتا ہے؟“ جواب ملا ”پہلے ایک گھنٹے کے لئے الیکٹرک چئیر پہ جھٹکے دیتے ہیں، اُس کے بعد حکم ملے گا کہ اب ایک گھنٹہ کیِل کانٹوں کی سیج پہ لیٹے رہو۔“ دوزخی نے پوچھا ”پھر؟“ ”پھر آئے گا پاکستانی ابلیس اور شروع ہوگی تمہاری پٹائی جو اُس کا دن بھر کا کام ہے“۔ ”یہ تو وہی کچھ ہے جو اِس سے پہلے ہر مُلک کی جہنم میں دیکھ چکے ہیں۔ پھر یہ انتظار کرنے والوں کا ہجوم کیسا؟“ ”بھئی، یہاں نظم و نسق کا حال اور طرح کا ہے۔ جھٹکے دینے والی الیکٹرک چئیر مدت سے خراب پڑی ہے۔ کِیل کانٹے کوئی چوری کر کے لے گیا ہے۔ رہا پاکستانی ابلیس تو وہ سابق سی ایس پی افسر ہے۔ اُس کا معمول یہ ہے کہ مرضی کے ٹائم پہ دفتر آئے، بطور حاضری دو ایک فائلوں پہ دستخط کئے اور چائے پینے نکل گئے“۔ احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں کہ ’مَیں گُل کو دیکھ کے تخلیقِ گُل کی سوچتا ہوں‘۔ مجھے واٹس ایپ پہ کسی کے توسط سے درج بالا کہانی سُن کر الطاف حسین حالی یاد آئے۔ اِس لئے کہ اردو میں اصولِ تنقید کی پہلی کتاب ’مقدمہء شعرو شاعری‘ میں انہوں نے ایک جگہ یہ کہہ کر چونکا دیا تھا کہ دورِ جاہلیت میں شاعری زیادہ ترقی کرتی ہے۔ مَیں حالی نہیں، مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ عہدِ جبر میں متبادل راستے کے طور پر تصوف ترقی کرتا ہے۔ اگر مَیں مفہوم واضح نہیں کر سکا تو ماضیء قریب کے ایک معروف عالمِ دین کا یہ قول شاید کچھ مدد دے کہ ہومیوپیتھی طب کا تصوف ہے۔ اِسی طرح کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے لمحہء موجود میں بڑھتی ہوئی سیاسی، سماجی اور معاشی بے یقینی سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ تجزیوں سے زیادہ لطیفے زور پکڑ رہے ہیں، جیسے جنرل ایوب خان کے آخری تین چار برسوں میں ہوا تھا؟ اُنیس سو ساٹھ کی دہائی میں بے بسی کی کوکھ سے جنم لینے والے لطائف کا اسٹاک عوامی ذہن میں عرصے تک محفوظ تھا۔ اب صرف وہی ایک آدھ بیانیہ یاد رہ گیا ہے جس کے سب ٹیکسٹ کو اُس دَور کے تضادات پر نظر ڈالے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔ جیسے محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی الیکشن میں ناکامی کے کچھ ہی ماہ کے اندر زباں زدِ خاص و عام ہونے والا ایک لطیفہ۔ وہ یہ کہ ساری دنیا کے سربراہانِ مملکت و حکومت دربارِ الہی میں حاضر ہوئے۔ میزبان نے، جس سے مراد خدا کی ذات ہے، ایک ایک کرکے سب سے ہاتھ ملایا اور ہر مرتبہ سِیٹ سے ذرا سا اُٹھ کر۔ بڑے بڑے ممالک کے قائدین کے بعد جب ہمارے صدر کی باری آئی تو اُن سے بیٹھے بیٹھے ہاتھ ملا دیا گیا۔ کسی نے پوچھا کہ یہ امتیازی سلوک کیوں۔ ارشاد ہوا کہ اگر مَیں اٹھتا تو یہ میری سِیٹ پہ بیٹھ جاتا اور پھر کُرسی کبھی نہ چھوڑتا“۔ اُن دنوں خفیہ اداروں کی کارکردگی کے بارے میں بھی ایک خیالی لطیفہ بہت مقبول ہوا۔ کسی نے صدر صاحب کو بتایا کہ پاکستان پربننے والی ایک ڈاکومینٹری میں، جو سنیما گھروں میں فلم شو کے آغاز سے پہلے دکھائی جاتی، لوگ قائد اعظم کی جھلک نظر آنے پر اُتنی تالیاں نہیں پیٹتے جتنی داد آپ کی تصویر دیکھ کر ملتی ہے۔ صدر سُن کر خوش تو ہوئے مگر اُنہیں اِس کا یقین نہیں تھا۔ چنانچہ ایک شام اصل صورتحال معلوم کرنے کے لئے بھیس بدل کر خود سنیما پہنچ گئے۔ وہی ہوا کہ قائد اعظم کو دیکھ کر ناظرین میں مکمل سناٹا تھا، لیکن صدر کی تصویر دکھائی دی تو سارا ہال زوردار تالیوں سے گونج اٹھا۔ صدر حیرت زدہ ہو کر یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اچانک ساتھ والی کرسی پہ بیٹھے ہوئے آدمی نے کہنی ماری اور کہا: ”اوئے زور سے تالیاں بجاؤ، نہیں تو پولیس والے پکڑ لیں گے“۔ اِس دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب چینی کی کمیابی کے خلاف عوامی لہر مُلک کے ایک سے دوسرے سرے تک پھیل گئی۔ چنانچہ وزیرِ تجارت کرنل (ریٹائرڈ) عبدالغفور ہوتی نے رابطہء عوام کی مہم شروع کرنے کا اعلان کر دیا، جس پہ سرکاری ذرائع ابلاغ بھی معنی خیز تبصرے کئے بغیر نہ رہ سکے۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبار ’پاکستان ٹائمز‘ نے، جو سرکار کا ترجمان تھا، ادارتی صفحے پہ ایک یادگار کارٹون شائع کیا۔ کارٹون میں عبدالغفور ہوتی کو جلسہ گاہ میں ایک اونچے اسٹیج پہ کھڑے ہو کر ہاتھ میں اِس شان سے چینی کی بوری تھامے دکھایا گیا تھا کہ پبلک اُس پر ٹُوٹی پڑ رہی ہے۔ نیچے لکھا تھا ’رابطہء عوام مہم‘۔ ریڈیو پاکستان لاہور سے دیہاتی بھائیوں کے پروگرام میں مرزا سلطان بیگ عرف نظام دین کا یہ جملہ تو بھولتا ہی نہیں کہ ”چودھری جی، تہاڈی اکھ تے گھڑی مُڑی مکھی پئی بیندی اے، کِتے چینی ویکھ تے نئیں آئے؟“ پھر بھی جس طرح دَورِ جاہلیت میں شاعری کے ترقی کرنے سے دَورِ جاہلیت کے مسائل حل نہیں ہوتے، اُسی طرح بے یقینی کے عہد میں لطیفوں کے زور پکڑنے سے بے یقینی دُور نہیں ہوتی۔ خاص طور پہ جب حقیقت پسندی سے کام لینے والے تجزیہ نگاروں کا حال بھی یہ ہو کہ بقول اکبر الہ آبادی ’ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں‘۔ سِرا نہ ملنے کی شرمندگی سے بچنے کے لئے ہم سنجیدہ سوالوں کا براہِ راست سامنا کرنے سے کتراتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ جواب طلب امور اِدھر اُدھر ہو جائیں۔ یہ فرار کا رویہ ہے جس میں ٹاک شو، سوشل میڈیا اور نجی گفتگو میں یا تو ہم نے بے دھڑک کوئی یک طرفہ ٹِکر بول دیا اور پھر اُس کا جواز لانے کے لئے دلائل کی ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے۔ یا پھر ’سنکی مزاجی‘ یا جعلی مزاحیہ رنگ کے علاوہ ایک حربہ یہ بھی کہ خود کو غصہ چڑھا لیں جو معقولیت کے خلاف موثر ہتھیار ہے۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ انفرادی، جماعتی اور محکمانہ مفادات کو (یا جنہیں ہم مفادات سمجھتے ہیں) ایک طرف رکھ کر بے غرضی، غیر جانبداری اور خوش فکری کے جذبے سے اپنے مسائل کا ایک ایماندارانہ جائزہ لیا جائے؟ یہی کہ مملکت اور معاشرے کو ٹھیک کرنے کے لئے کون سے اقدامات ضروری ہیں اور اُن کی ترتیب کیا ہونی چاہئے۔ ہر کوئی کہے گا کہ بنیادی کام تو یہی ہے۔ مَیں بھی اِس سے متفق ہوں، لیکن تمام تر نیک نیتی کے باوجود دل ہے کہ سہما ہوا ہے۔ اِس سبب کہ اگر صاحبانِ اقتدار یا رائے عامہ پہ اثر انداز ہونے والی کسی ہستی یا ادارے نے امکانی طور پہ بُلا کے پوچھ لیا کہ آپ عقل مند آدمی ہیں، اِس لئے دلی طور پہ بتائیے کہ ہم کیا کریں تو مجھے تو جواب سُوجھے گا نہیں۔ اِس پہ معیشت، دفاع، دفترِ خارجہ، ذرائع ابلاغ، تعلیمی ادارے اور عدالتیں میرا منہ چڑانے لگیں گی اور کہیں دُور سے آواز آئے گی ’چل اوئے بکری‘۔بکری قسم کا انسان کسی باطنی مشکل سے دوچار ہونے کی صورت میں قریبی ساتھیوں سے رجوع کرتا ہے۔ میرے استادوں میں سے تو اب کوئی بھی دنیا میں نہیں رہا۔ صاحب ِ علم دوستوں کی طرف دیکھوں تو میرے تینوں ڈاکٹروں میں سے تاریخ داں خرم قادر سلطنت ِ دہلی کے عہد سے نکل کر مغلیہ دَور تک آنے پہ بھی تیار نہیں ہوتا۔ اسلم ڈوگر منہ سر لپیٹ کر سرکاری تعلقات عامہ کی زلفیں سنوارنے میں مصروف ہیں۔ انجم سلیمی لسانیات پڑھاتے پڑھاتے ’من و تو‘ کے حجابات سے نکل کر معرفت کی اصطلاح میں ’ترٹی چَوڑ‘ کر چکے ہیں۔ لے دے کر کالج کے آخری مرحلے کے ہم جماعت اور اے پی پی کے سابق ڈائرکٹر زمان ملک رہ گئے تھے۔ پر کیا کروں، اختتامِ ہفتہ ’فیس بُک‘ پہ اُن کی تازہ اسٹوری لینڈ کرچکی ہے کہ ’لعنت ہے اُن دانشوروں پر جو ریاست، خداداد پاکستان پر لعنت بھیجنے کی جسارت کریں‘۔ اب آپ ہی بتائیے مَیں کس سے جا کر پوچھوں کہ ہمارا آنگن ٹیڑھا تھا یا ناچ ٹیڑھا ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website