counter easy hit

تم نہیں ہم گریٹ گیم کے منصوبہ ساز ہیں، سعودی فرمانروا نے امریکی سفیر کو باور کرادیا

saudi-king-salman-meets-us-bipartisan-delegation-including-dennis-ross-and-zalmay-khalilzad-ahead-of-kerrys

saudi-king-salman-meets-us-bipartisan-delegation-including-dennis-ross-and-zalmay-khalilzad-ahead-of-kerrys

واشنگٹن (یس نیوز ڈیسک) مذہب کے نام پر شدت پسندی کو فروغ دینے اور جنگجو لشکر تیار کر کے مختلف ممالک میں بھیجنے کے الزامات سعودی عرب پر ایک عرصے سے لگتے رہے ہیں، اور ہمیشہ ان الزامات کی سختی سے تردید بھی کی جاتی رہی ہے، لیکن ایک سینئیر امریکی سفارتکار کا کہنا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار سعودی عرب کی ایک انتہائی اعلٰی شخصیت نے اعتراف کر لیا ہے کہ ان تنظیموں کی آبیاری سعودی عرب ہی کرتا رہا ہے۔

پولیٹیکو میگزین  میں شائع ہونے والی تحریر میں امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد لکھتے ہیں کہ ان کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں ایک انتہائی اعلیٰ شخصیت نے پہلی بار اعتراف کیا کہ ”ہم نے آپ کو گمراہ کیا۔“ زلمے خلیل زاد کے مطابق اس شخصیت کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے اسلامی شدت پسندوں کی حمایت 1960ءکی دہائی میں اس وقت شروع کی جب مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے سوشلسٹ نظریات اسے اپنی بقا کے لئے خطرہ بنتے نظر آئے۔ انہیں سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا اور سعودی عرب نے اسلامی شدت پسندی کو استعمال کرتے ہوئے جمال عبدالناصر کے جدید نظریات اور اثرات کا راستہ روک دیا۔ اس تجربے سے سعودی عرب نے سیکھا کہ اسلامی شدت پسندی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے اور طاقت کے کھیل میں اس کا استعمال بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ بعدازاں یہی پالیسی روس کا راستہ روکنے کے لئے بھی استعمال کی گئی، جب 1980ءکی دہائی میں امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میںا سے شکست دی گئی۔
زلمے خلیل زاد لکھتے ہیں کہ سعودی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مصر کے بعد روس اور پھر ایران کے خلاف بھی یہ ہتھیار کامیاب رہا لیکن بالآخر اس کا رُخ سعودی عرب اور اس کے مغربی دوستوں کی جانب ہی ہوگیا۔ آج سعودی عرب شدت پسندی اور دہشت گردی کو اپنے لئے دو عظیم ترین خطرات میں سے ایک تصور کرتا ہے، دوسرا خطرہ ایران ہے۔
اعلٰی سعودی شخصیت کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب سعودی عرب یکسر تبدیل ہوچکا ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جدت پسندی کے نام سے ایک انقلاب لایا جارہا ہے۔ زلمے خلیل زاد لکھتے ہیں کہ ماضی کے سعودی عرب سے آج کا سعودی عرب بہت مختلف ہے۔ آج نوجوان وزیروں کی ایک ٹیم روزانہ 16 سے 18 گھنٹے کام کرتی ہے تاکہ اپنے ملک کی تقدیر بدل سکے اور اسے خطے کی ایک بڑی، بہتر اور رہنما طاقت بنا سکے ۔ یہ نیا تصور نائب ولی عہد محمد بن سلمان کا ہے، جو سعودی عرب کو تیل کی قید سے آزاد کرکے ایک ایسی جدید ریاست بنانا چاہتے ہیں کہ جس کے زرائع آمدن متنوع اور جدید دور سے ہم آہنگ ہوں۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب ان اصلاحات میں کامیاب ہو گیا تو یہ پہلے سے بھی بڑی اور مضبوط طاقت بن کر ابھرے گا۔
(زلمے خلیل زاد عالمی شہرت یافتہ امریکی سفارتکار ہیں۔ وہ عراق اور افغانستان جیسے ممالک میں سفارتکاری کا تجربہ رکھتے ہیں اور مشرق وسطٰی میں شدت پسندی و دہشت گردی سے متعلقہ معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website