counter easy hit

ساحرلدھیانوی کا باورچی، کرشن چندر کی نوکیلی کٹیلی‘ ہنسانے اور رلانے والی ایک اچھوتی تحریر

پرکالا پروڈکشن کے دو حصے دار تھے‘ داﺅد مکرانی اور سندر بس جانی۔ دونوں بے حد چلتے پُرزے تھے اور ہر جیت کمار اور آرادھنا کو لے کر ایک فلم بنا رہے تھے۔ یہ جوڑی ان دنوں فلم انڈسری میں اعلیٰ درجے کی جوڑی سمجھی جاتی تھی۔ پرکالا پروڈکشن کا دفتر بے حد شاندار تھا لیکن داﺅد اور سندر کا ذاتی کمرہ جو دفتر کے بالکل آخر میں تھا سب سے شاندار تھا اور ا سے بہت کم لوگوں نے دیکھا تھا۔ آپس میں ذاتی گفتگو کے لیے داﺅد اور سندر اسی کمرے کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اس پر ہر وقت تالا پڑا رہتا تھا۔ کمرے کی ایک چابی داﺅد کے پاس تھی دوسری سندر کے پاس۔ تیسری چابی پلٹو کے پاس تھی۔ پلٹو پر کالا پروڈکشن کا چپراسی اور دونوں حصے داروں کا منہ چڑھا تھا کیونکہ اس کے پاس تیسری چابی تھی اور جب دفتر بند ہو جاتا اور سب لوگ چلے جاتے‘ اس کے بعد بھی داﺅد اور سندر اسی کمرے میں بیٹھتے تھے۔ ایسے موقعوں پر پلٹو ہی ان کی خدمت کرتا تھا۔ چار گھنٹے محفلِ ناﺅ نوش جمتی۔ گھروں پر بیویوں کو ٹیلی فون ہوتا کہ دفتر میں بہت کام ہے۔ فلم کے شوق میں دور دور سے اُڑ کرآنے والی تتلیوں سے ملنے کا یہی وقت تھا۔ ایسے وقت میں پلٹو ہی خدمت کرتا تھا۔ میں بھی ایک عرصے سے پلٹو کی خدمت کر رہا تھا۔ آٹھ دس بار اسے بھیل پوری کھلا چکا تھا۔ ایک دن پلٹو نے مجھ سے کہا۔ ”آج دونوں سیٹھ خالی ہیں آٹھ بجے تک۔ اس لیے تم سات بجے آنا۔“ میں ساڑھے چھ بجے ہی پہنچ گیا۔ پلٹو اس وقت سوڈے کی بوتلیں ذاتی کمرے میں لے جا رہا تھا‘ مجھے جلدی سے دفتر کے باہر اپنی کرسی پر بٹھا کر اندر چلا گیا۔ کوئی دس منٹ بعد ہنستا مسکراتا باہر نکلا اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے اندر بلانے لگا۔ ”اندر چلو‘ سیٹھ بلاتے ہیں۔ میں نے تمہارا انٹرویو مقرر کروا دیا ہے۔ مگر خبردار میری کوئی بات وہاں کاٹنا نہیں۔ جو میں کہوں ہاں میں ہاں ملاتے جانا ورنہ تو پٹرا ہو جائے گا۔“میں دھڑکتے دل سے اس کے ساتھ ساتھ چلا۔ تین عالی شان کمرے پار کر کے ہم سیٹھوں کے ذاتی کمرے کے باہر پہنچے۔ پلٹو نے دستک دی اور آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ میں اسکے پیچھے پیچھے….داﺅد سندر دونوں ایک ہی صوفے پر بیٹھے تھے۔ سامنے کانچ کی ایک لمبی تپائی تھی جس پر فائلوں کی ایک چھوٹی سا طشت تھی۔ کونے میں ایک چھوٹی سی میز پر ایک ٹائپ رائٹر رکھا تھا۔ ایک کونے میں مخمل کا دیوان تھا‘ دو صوفے تھے‘ چند کرسیاں اور ایک لوہے کی الماری سیٹھوں کے صوفوں کے پیچھے پورے کمرے کی لمبائی میں ایک پھول دار پردہ پڑا تھا۔ نیلے رنگ کے اس دبیز پردے کے پیچھے کیا تھا‘ یہ معلوم نہ ہو سکا۔ ہاں وہاں سے روشنی چھن کر آرہی تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اُدھر بھی کچھ ہے۔ میں نے ایک لمحے میں کمرے کاجائزہ لیا۔ پلٹو بولا۔ ”یہ میرا دوست ہے پینٹ ماسٹر‘ اعلیٰ درجے کے گیت لکھتا ہے۔ تین سال ساحر لدھیانوی کا باورچی رہ چکا ہے۔“”ساحر کا باورچی؟“ داﺅد نے حیرت سے میری طرف دیکھ کر کہا‘ میں نے حیرت سے پلٹو کی طرف دیکھا۔ سندر نے جلدی سے مجھے ایک کرسی پر بیٹھ جانے کااشارہ کیا‘ میں جلدی سے بیٹھ گیا۔ سیٹھ داﺅد کی آواز کڑوی اور کھوکھلی تھی۔ ”ساحر ہر گانا کسی کو سُنانے سے پہلے اسے سُناتا تھا۔ یہ اجازت دیتا تھا‘ تو کسی دوسرے کو سُناتا تھا۔“ پلٹو کہتا رہا اور سندرکا منہ کُھلنے لگا۔”اب یہ محض کہنے کی بات نہیں ہے۔“ پلٹو بولا۔ ”ساحر کا تاج محل اسی کا لکھا ہوا ہے۔“”تاج محل اس کا لکھا ہوا ہے؟“ داﺅد حیرت سے چیخا…. ”پلٹو تو ”بلنڈر“ تو نہیں پھینکتا ہے؟“”نہیں سیٹھ۔“ پلٹو نے فائلیں ایک کنارے پر رکھ کر کانچ کی لمبی تپائی پر خالی گلاس سجاتے ہوئے کہا۔ ”اپنے کو جھوٹ سے کیا ملنے والا ہے؟ یہ میرا دوست گجب کا گیت کار ہے۔“”لیکن تاج محل تو ساحر نے برسوں پہلے لدھیانے میں لکھا تھا‘ ایسا میں نے سُنا ہے۔“ داﺅد سیٹھ بولا۔”پلٹو نے کہا۔“ یہ بھی لدھیانے کا رہنے والا ہے۔ دونوں ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ دونوں شاعر تھے پھر یہ تو اپنی اپنی قسمت کی بات ہے‘ ایک آج آسمان پر ہے دوسرا فٹ پاتھ پر۔“سندر بس جانی نے مجھے ہمدردی کی نظر سے دیکھا۔”لدھیانے میں اس نے ایک گیت لکھا تھا‘ راج محل‘ جسے توڑ موڑ کے ساحر نے تاج محل کر دیا۔ تم سناﺅ پینٹ ماسٹر انہیں راج محل۔“ پلٹو نے آخر فقرہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔میں راج محل سنانے لگا۔ ساحر نے تاج محل کو توڑموڑ کے لکھا تھا یا نہیں‘ یہ تو مجھے نہیں معلوم مگر میں نے تاج محل کو توڑ موڑ کر ’راج محل‘ ضرور بنا دیا۔راج محل سننے کے بعد داﺅد اور سُندر دونوں نے دانتوں تلے انگلی دبا لی۔ داﺅد بولا۔“ وہی جات کی گجل معلوم ہوتی ہے۔“سندر بولا۔”اورزیادہ سمجھ میں بھی آتی ہے۔“داﺅد نے کہا۔“ صاف دکھتا ہے‘ راج محل کا تاج محل بنا دیا ساحر نے۔“پلٹو نے فتح مند نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور کہا۔”اب اندر کی بات کیا بتاﺅں سیٹھ۔ جب یہ ساحر کا باورچی تھا‘ وہ روج اس سے ہر گانے پر صلاح لیتا تھا۔ کئی اچھے سے اچھے ٹکڑے دیے ہیں اس نے ساحر کی گجلوں میں…. ا ندر کی بات بتا رہا ہوں۔ پر قسمت دیکھیو بے چارہ فٹ پاتھ پر ہے۔ اس کو ایک چانس جرور دو سیٹھ۔“ پلٹو نے بات ختم کی اور دہسکی کی بوتل تپائی پر رکھ دی۔”اچھا تم باہر جاﺅ۔“ داﺅد نے پلٹو سے کہا۔”ہم اس کے سنگ بات کرتا ہے۔“ پلٹو نے بہت ہوشیاری سے مجھے آنکھ ماری اور پھرباہر چلا گیا۔ پلٹو کے جاتے ہی داﺅد ذرا سا کھانسا۔ سندر بس جانی نے اپنے گلے کی ٹائی درست کی۔ داﺅد بولا۔”اور کیا کیا لکھان کرتے ہو؟“”گجل گیت‘ گانا‘ دو گانا‘ تیگانہ‘ سب لکھتا ہوں۔“ میں نے کہا۔ ”یہ تیگانا کیا ہوتا ہے؟“ سندر نے پوچھا۔ سندر اور داﺅد میں‘سندر ٹھیٹ بزنس مین مانا جاتا تھا اور داﺅد کی رائے فلمی کہانی مکالمے‘ گیت کے بارے میں مستند سمجھی جاتی تھی۔میں نے کہا۔”دو گانا تو ہیرو ہیروئن کا ہوتا ہے۔ تیگانے میں ولن بھی بیچ بیچ میں گاتا ہے جیسے میں نے ایک تیگانا لکھا ہے۔ پہلے ہیرو گاتا ہے پھر ہیروئن ‘ آخر میں ولن۔ ذرا سنیے گا۔“ہیرو: ”میں کہتا ہوں ڈنکے کی چوٹ‘ تو ہے زہر کی پوٹ۔“ہیروئن: ” میں کہتی ہوں ڈنکے کی چوٹ‘ تیرے من میں ہے کھوٹ“ولن: ”دھت تیرے کی۔“ولن دھت تیرے کی پر‘ داﺅد اُچھل پڑا۔ میری بدصورت لمبے لمبے ناخنوں والی میل سے بھری انگلیاں چُوم کر بولا۔ دھت تیرے کی‘ کیا گجب کا ٹکڑا ہے دھت تیرے کی‘ آگے سناﺅ۔“میں آگے سنانے لگا۔”ہیرو: میں نے کھودیا دس کا پتا‘ میں نے کھو دیا سو کا نوٹ۔“ہیروئن: ”کھائی حسن کی چوٹ‘ میرے آنچل کی اوٹ“ولن: ”پڑ گئی ٹھرے کی ٹوٹ‘ دھت تیرے کی۔“ٹھرے کی ٹوٹ‘ اور اس پر دھت تیرے کی؟“ دونوں سیٹھ اُچھل پڑے۔ جلدی سے ایک گلاس میں میرے لیے دہسکی انڈیلی دوسرے میں اپنے لیے ‘ تیسرے میں داﺅد کے لیے اتنی انڈیلی کہ اسے کہنا پڑا۔ ”بس جانی۔“بس جانی نے ہاتھ روک لیا۔ پھردونوں میں نہ جانے کیا خفیہ اشارہ ہوا کہ سندر نے ایک دم اپنا لہجہ بدل دیا۔ اپنے گلے کی ٹائی اور بھی ڈھیلی کرتے ہوئے بولا۔“ اچھا ہے مگر بہت اچھا نہیں ہے‘ ٹھیک ہے مگر بہت ٹھیک نہیں ہے۔ چلے گا مگر بہت نہیں چلے گا۔“”ہاں اچھا ہے مگر کچھ اچھا ہے۔ مجے کا ہے مگر کچھ کسر ہے‘ ابھی تم کو بہت محنت کرنا پڑے گا۔“ داﺅد سیٹھ بولا۔”وہ بھی کر لوں گا‘ سیٹھ۔“ میں نے کسی قدر لجاجت سے کہا۔ حالانکہ اندر سے مجھے بہت غصّہ آرہا تھا۔”اس کو ایک چانس ملنا چاہیے۔“ سیٹھ داﺅد نے سندربس جانی سے سفارش کی۔ ”اس کی شاعری میں دم معلوم ہوتا ہے۔“”پھر ساحر کا باورچی رہ چکا ہے۔“ سندر بس جانی سے غور کرتے ہوئے کہا۔”تو ایک چانس دے دو اسے۔“پر چانس ہے کدھر؟“ سندر نے داﺅد سے کہا۔“ بڑے والا فلم تو خود ساحر لکھ رہا ہے۔“”تو چھوٹا والا اس کو دے دو جوتم آگل مہینے میں شروع کر رہے ہو۔“ داﺅد ایسے بولا جیسے اس کا اگلی فلم سے کوئی تعلق نہ ہو۔“”ہا ں وہ چھوٹی فلم۔ اس میں تم خود کو آزما سکتے ہو۔“ سندر بس جانی سے مجھ سے کہا جیسے مجھ پر بڑی مہربانی کر رہا ہو۔ ”پر وہ بہت چھوٹی تصویر ہے۔ اس کو ہم اس لیے شروع کر رہے ہیں جو نئے لوگ اِدھر اُدھرسے تمہاری طر ح فلم کے کام کی تلاش میں آتے ہیں ان کا کچھ بھلا ہو جائے۔ اپنے کو کچھ کھانے کمانے کا نہیں ہے اس دھندے میں دو چار لاکھ بنا ڈالیں گے نئے لڑکے لڑکیوں کو لے کر۔“”سب نئے لوگوں کو چانس دیا ہے اس فلم میں۔ تم کو بھی دے لے گا۔“ داﺅد نے پچکار کر کہا۔” اس کا کنٹریکٹ بناﺅ جی‘ ابھی۔“”شرائط تو طے کر لیں۔“ سندر بس جانی کسی قدر کڑوے لہجے میں بولا۔ہم پچاس روپیہ ایک گانے کا دیں گے‘ ہے تو بہت کم‘ پر تمہاری اشتہاربازی پر بہت خرچ جو کرے گا۔“”کیا اشتہاربازی کرو گے؟“ میں نے جل کر کہا۔ یہی لکھو گے کہ ہماری پہلی فلم ساحر لدھیانوی لکھ رہا ہے اور دوسری اس کا باورچی؟“”تم تو خفا ہو گئے پینٹ ماسٹر۔“ داﺅد نے ہنس کر میرے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔ پھر سندر سے مخاطب ہو کر بولا۔” ہم جانتا ہے‘ یہ شاعر لوگ کا دل بہت پتلا ہوتا ہے‘ جرا سی بات پر بھڑک جاتا ہے۔ اس کو اور وہسکی دو‘ سندر!“سندر نے میرے لیے اور وہسکی انڈیلی۔ اپنے اور دا ¶د کے لیے بھی داﺅد کو پھر کہنا پڑا۔ ”بس جانی۔“سندر نے غور سے میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”ہم کاہے کو ایسی مشہوری کرے گا جس سے تمہاری اور ہماری بدنامی ہو‘ ہم تو کسی سے بولے گا تک نہیں کہ تم ساحر کے باورچی ہو۔ ہم تو ساحر سے بھی نہیں بولے گا۔ ہم ا یسا منصوبہ کرے گا تم جیسے ساحر کے دوست رہ چکے ہو۔ لدھیانے کے ہم جماعت ہو۔دونوں دوست دونوں شاعر۔ اب دونوں ایک ہی کمپنی میں دو الگ الگ فلموں کے گانے لکھتے ہیں۔ ایک میں ایک نے لکھا راج محل‘ دوسرے نے لکھا تاج محل۔ عوام ٹوٹ پڑے گی دیکھنے کے لیے کہ تم دونوں میں سے کون سا اچھا ہے۔ تم بات سمجھتے نہیں ہو کیا؟“میں اب سمجھ گیا۔ سندر واقعی ٹھیٹ بزنس مین تھا۔”اور تمہارا نام بھی بدلنا پڑے گا۔“ داﺅد سیٹھ بولا۔ ”یہ پینٹ ماشٹر نہیں چلے گا۔ تمہارا نام رکھا جارے گا بجلی بھوپالی۔“”بجلی بھوپالی؟“ میں نے پوچھا۔”ہاں بجلی بھوپالی۔“ داﺅد نے کڑک کر کہا اور پھر دادطلب نگاہوں نے سندر کی طرف دیکھ کر بولا۔”کیوں؟“”بجلی بھوپالی‘ بہت اچھا نام ہے۔“ سندر بولا۔ ”جب مشہوری میں آئے گا‘ سالا بجلی کی مافق چمکے گا بجلی بھوپالی‘ واہ!“سندر سیٹھ نے داﺅد سیٹھ کے ماتھے پر ہاتھ مار کہا۔”کیا فنکارانہ نام ہے۔ مانتا ہوں سیٹھ‘ فن کے معاملے میں تمہارا دماغ بہت چلتا ہے۔“”سالا ہم گلت لین میں آگیا ۔“ داﺅد کسی قدر مایوسی سے بولا۔ ”ہم کو ٹیم نہیں ملتا ہے کاروبار سے۔ نہیں تو ہم سچ کہتا ہے ہمارا مگج میںایسا اشٹوری بھرا ہے کہ ایک دفعہ لکھ دیوے تو سارے ریٹر لوگوں کی گردن توڑ دیوے۔ اکھا ریٹر لوگ بمبئی چھوڑ چھوڑ کر بھا گ جاوے۔“ وہ تھوڑی دیر چُپ رہا پھر اداس ہو کر بولا۔“ پر کیا کرے ہم کو اس دھندے سے ٹیم نہیں ملتا ہے۔“ سیٹھ داﺅد کی آنکھوں میں آنسو تھے۔تھوڑی دیر ہم دونوں اس آدمی کے المیے پر غور کر رہے تھے جو ’ریٹر‘ بنتے بنتے بزنس مین بن گیا تھا۔ داﺅد سیٹھ نے بھی جب اور غور کیا تو اس میں زیادہ وزن نہ پایا۔ فوراً ایک لمبا گھونٹ لے کر پنتیرا بدلا اور میری طرف دیکھ کر بے حد ہشاش بشاش ہو کر بولا۔ ”تم کو چانس مل گیا تو ہمارے بولنے پر ایک بات ہماری بھی رکھنی ہو گی۔“”کیا؟“ میں نے داﺅد سیٹھ سے پوچھا۔”پیسہ ملے گا گانے کا پچاس روپیہ‘ پر رسید دو گے پانسو کی۔“”وہ کیوں؟“”ارے بابا!“ داﺅد سیٹھ نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ ”ہم یہ بڑا فلم شروع کرکے مصیبت میں پھنس گیا ہے‘ اب تویہ مصیبت ہے کہ کسی چوپڑی میں جگہ نہیں ہے‘ کسی مد میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا یہ نیا فلم شروع کرتا ہے کہ تم نئے لوگ کو چانس دے گا اور تھوڑ بلیک ٹھیک کرے گا ورنہ اپنے کو اس دھندے سے کچھ کمانے کا نہیں ہے۔“

”سمجھ گیا۔“ میں نے کہا ”تم نئے لوگوں کو چانس دے گا اور پُرانا بلیک

ایڈجسٹ کرے گا۔“”تم ٹھیک سمجھا ہے۔“ سندر بس جانی نے کہا۔”میں جاتا ہوں۔“میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔سندر نے جھٹ مجھے بازو سے پکڑ لیا۔‘ ”کدھر جاتا ہے؟“”واپس فٹ پاتھ پر۔“
”پاگل ہوا ہے؟“”ہاں‘ پاگل ہے ہم۔ پچاس روپے لے گا تو پچاس کی رسید دے گا پانسو لے گا تو پانچ سو کی رسید دے گا۔ ہم کالا دھندا نہیں کرے گا۔“اس پر وہ دونوں پہلے تو چُپ رہے پھر ایک دمِ زور زور سے ہنسنے لگے۔ اتنا ہنسے اتنا ہنسے کہ ان کی آنکھوں میں پانی آگیا‘ ہنستے ہنستے دونوں میری طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کراشارہ کرتے جاتے تھے اور کہتے تھے۔
”بالکل بچہ ہے۔“
”ایک دم کچا ہے۔“
”سالا گدھا ہے۔“
”نرا اُلّو کا پٹھا ہے۔“
”سالا تم کس دنیا میں رہتا ہے؟“ سیٹھ بس جانی نے مجھے ایک بیزار کن نفرت سے د یکھتے ہوئے کہا۔
”رسید کے بغیر میں آپ کو اس کی اجازت نہیں دوں گا۔“
وہ حیرت سے میرا منہ دیکھنے لگے۔ ایسے جیسے کسی پاگل کو پاگل خانے میں دیکھ رہے ہوں۔ پھر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ آیا وہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ واقعی ان کے سامنے کرسی پر موجود ہے۔“
”میں اپنے اصول توڑ نہیں سکتا۔“ میں نے بہت سختی سے کہا۔
”ہم اپنے نہیں توڑ سکتے۔”سندر بس جانی نے جواب دیا۔
”میں تو جاتا ہوں۔“
”تو جاﺅ۔“ سندر بولا۔
میں اٹھنے لگا تو سیٹھ داﺅد بولا۔”پریہ تیگانہ تو دیتے جاﺅ۔
ہم تم کواس کے پچاس کے بدلے پچھتر دیں گے اور پانسو کے بدلے تین سو کی رسید لیں گے۔“

”جی نہیں‘ اس گانے کے سو روپے لوں گا اور سو کی رسید دوں گا۔بس۔“
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف مایوس ہو کر دیکھا۔ اتنے میں سیٹھ داﺅد نے پھر کوئی خفیہ اشارہ کیا۔سیٹھ نے جیب سے سو کا نوٹ نکال کرمیری طرف بہت بیزاری سے پھینک دیا۔ میں نے نوٹ جیب میں رکھا اور رسید لکھ کر دے دی۔ گانا لکھ کر دیا ا ور پتلون جھاڑ کراٹھ کھڑا ہوا۔ اتنے میں پلٹو نے دروازہ کھولا۔ اس کے پیچھے پیچھے نہایت شاندار لباس میں ملبوس وہ لڑکیاں اٹھلاتی‘ بل کھاتی‘ لچکتی ‘ ہنستی مسکراتی کسی تمہید وتعارف اور اطلاع کے بغیر اندر داخل ہوئیں۔ ان دونوں کی ساڑھیوں کے گرد چھ فٹ تک کسی خوشبو کا ایک نہ دکھائی دینے والا ہالا لرز رہا تھا۔ انھیں دیکھ کر داﺅد اور سندر دونوں اپنے صوفے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں تو خیر پہلے ہی سے کھڑا تھا۔ ان میں سے ایک لڑکی جو دوسری سے قدمیں زیادہ لمبی تھی اور نازک سی تھی اور لباس بھی شاندار پہنے ہوئے تھی‘ میری طرف دیکھ کر کچھ ہچکچائی پھر مڑ کر اپنی سہیلی کا تعارف کرانے لگی۔“ یہ میری سہیلی جیولی ہے آج ہی جبل پور سے آئی ہے اسے فلم میں کام کرنے کا بہت شوق ہے۔“
دونوں سیٹھوں نے شگفتہ مسکراہٹ سے ان دونوں کا استقبال کیا۔ پھر پہلی لڑکی نے میر ی طرف غور سے دیکھا۔ سندر نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا۔“ یہ ساحر کا باورچی ہے۔“
میں جلدی سے ہاتھ جوڑ کر کمرے سے باہر نکل آیا۔ میں تیزتیزقدموں سے واپس لوٹ رہا تھا اور میر ی آنکھوں میں آنسو تھے‘ یکایک میرے پیچھے لڑکیوں کی ہنسی اور قہقہوں کا طوفان سا برپا ہو گیا۔ وہ لوگ کسی بات پر اتنے زور زور سے ہنس رہے تھے‘ سیٹھوں کے قہقہے بھی ان میں شامل تھے۔ کیا وہ لوگ میری حماقت پر ہنس رہے تھے‘ ایسا ’چانس‘ کوئی احمق ہی رد کر سکتا ہے۔ پلٹو کیا کہے گا؟ بے چارنے نے کیسا کیسا دھوکا کر کے مجھے کام دلوا ہی دیا تھا۔ فلم میں پہلا ’چانس‘۔
اوپین ماشٹر! یہ اصول تیرے کس کام کے ہیں؟ کیا تو انھیں چاٹ سکتا ہے؟ کیا ان کی بتی بنا کے جلا سکتا ہے؟ کیا انھیں کھا سکتا ہے؟ انھیں ایک گدے کی طرح فٹ پاتھ پر بچھا سکتا ہے؟ کیا ان اصولوں سے ان لڑکیوں کی خوشبو آتی ہے جن کے قہقہے اب تک تیرے کانوں میں گونج رہے ہیں؟
پھر کب تک ان اصولوں کا کفن سر سے باندھے آرزو ¶ں کے میلے میں گھومے گا؟ اب بھی پلٹ جا اور دستخط کر دے اس معاہدے پر‘ اور شامل ہو جا اس حمّام میں جہاں سب ننگے ہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website