counter easy hit

درست قانون تک رسائی دور کی بات ہے، آئین کا اردو ترجمہ ہی غیر معیاری ہے، سپریم کورٹ

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (یس ڈیسک) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ قانون کو ماننے والا معاشرہ تبھی تشکیل پاسکتا ہے جب شہریوں کو قانون کا ادراک ہواور غلطیوں سے پاک درست قانون تک ان کی آسانی سے رسائی ہو لیکن درست قانون تک رسائی تو بعدکی بات ہے یہاں تو ملک کے آئین کا اردو ترجمہ غیر معیاری ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں فل بنچ نے قانون کی کتابوں میں غلطیوں سے متعلق مقدمہ میں وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ قوانین کے معیاری ترجمے اور پاکستان کوڈ چھاپنے کیلیے طریقہ کار وضع کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔ عدالت نے ترجمے کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا حکم دیا اور غلط تراجم اور قانون کی کتابیں شائع کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی رپورٹ بھی مانگی ہے۔

سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ دستیاب بجٹ میں یہ کام نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کے ادارہ کے پاس کل 8 کروڑ کا بجٹ ہے، جس کا 70 فیصد تنخواہوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے،اگر بجٹ ہو تو ان کا ادارہ اپنی خدمات دے سکتا ہے۔ عدالت کے استفسار پر بتایا گیا پاکستان کوڈ آخری دفعہ 1967 میں چھاپا گیا تھا۔

جسٹس جواد نے کہا اس کے بعد 2010 میں گزٹ سے اٹھا اٹھا کرکچھ چیزیں شامل کرکے چھاپتے رہے ہیں اور اس کا نام بھی’’ پاکستان کوڈ ‘‘رکھ دیا گیا۔ جسٹس جواد نے کہا یہ اس کیس کی پانچویں سماعت ہے اور ہم یہاں بیٹھ کر صرف ’’پانی کچھ‘‘ رہے ہیں۔ جسٹس جواد نے آئین پاکستان کی اردو میں ترجمہ شدہ ایک کتاب کو لہراتے ہوئے کہا کیا آپ کے خیال میں یہ معیاری کتاب ہے ؟اگر آپ نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہوتا تو معلوم ہوتا کہ اس میں لکھی گئی بہت سی چیزیں ناقابل فہم ہیں، یہ کتاب مجھے بھی سمجھ نہیں آرہی۔

اس میں املاء اورگرائمرکی غلطیاں ہیں اورانتہائی ناقص کتاب ہے، قانون کی کتابوں کے قومی اور صوبائی زبانوں میں ترجمہ کے کام سے کسی کوکوئی دلچسپی نہیں ہے،اگر آپ سے یہ کام نہیں ہوسکتا تو ہاتھ کھڑے کر دیں۔ فاضل جج نے کہا ملک میں چھپنے والی 90 ہزار کتابوں میں سے شاید 9 کتابیں ہی غلطیوں سے مبرا ہوںگی اور وکلاء دھڑا دھڑ یہ کتابیں خرید رہے ہیں۔

ایک مقدمے میں اگر فاضل جج صاحب اپنی یادداشت کی بنیاد پرکتاب کی غلطی کی نشاندہی نہ کرتے توان غلطیوں کی وجہ سے قومی خزانے کو 80،90 ارب روپے کا نقصان ہو جانا تھا۔ فاضل جج نے کہا ملک میں جس طرح کے حالات جارہے ہیں کوئی بھی شخص وزارت قانون کی ویب سائٹس کو ہیک کرسکتا ہے اور اس پر لکھ سکتا ہے کہ ڈکیتی کے ملزم کو 6 کلو مٹھائی اور 2کلو موتی چور کے لڈو دیے جائیں گے، سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دو دفعہ ہیک ہو چکی ہے۔