counter easy hit

چیف جسٹس ثاقب نثار کی ایک سالہ کارکردگی کیسی رہی ؟ دو اداروں کے مشترکہ سروے میں پاکستانیوں نے کیا رائے دی ؟ یہ خبر پڑھیے اور اپنی رائے ضرور دیجیے

لاہور (ویب ڈیسک) گیلپ اور گیلانی پاکستان کے رائے عامہ کے حالیہ سروے میں 57فیصد پاکستانیوں نے چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار کی گزشتہ ایک برس کی مجموعی کارکردگی کو قابل تعریف قرار دیا ہے۔گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن اور گیلپ کے اشتراک سے کرائے گئے رائے عامہ کے جائزے کے مطابق 32 فیصد پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ
نامور صحافی علی حسن روزنامہ پاکستان میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔چیف جسٹس کی کارکردگی بہت اچھی رہی جب کہ 25 فیصد افراد نے چیف جسٹس کی کارکردگی کو اچھی اور 11 فیصد نے مناسب قرار دیا۔ دوسری جانب 14 فیصد پاکستانیوں نے چیف جسٹس کی گزشتہ ایک برس کی کارکردگی کو خراب اور 13 فیصد نے انتہائی خراب قراردیا جب کہ 5 فیصد پاکستانیوں نے سوال کا جواب نہیں دیا۔اختلاف کرنا تو ہر کسی کا بنیادی حق ہے، مگر اعتراف کرنے والوں نے جو کارکردگی کو بہت اچھی، اچھی اور مناسب قرار دیا ہے، وہ چیف جسٹس کے عوامی مسائل سے دلچسپی اور متعلق اقدات کے معترف ہیں۔ انہوں نے جو بھی اقدامات کئے ہیں، ان کے سبب حکومتی لوگ اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ جوڈیشل ایکٹوازم کے نتیجے میں سرکاری محکموں کے کام متاثر ہو رہے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ سرکاری محکموں کے کیا کام متاثر ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کی خواہش یہ ہے کہ حکومتوں کو بے لگام چھوڑ دیا جائے کہ یہ جمہوریت کے سبب منتخب ہونے والوں پر قائم ہیں۔ دوہری شہریت، پانی، اومنی گروپ، ہسپتال، تعلیمی اداروں، میڈیکل کالجوں، سرکاری محکموں، پولیس، وغیرہ وغیرہ تو ایسے معاملات ہیں جن کا عوام سے براہ راست تعلق ہے۔
وہ عوام جن کے ٹیکسوں کے سہارے اس ملک میں جمہوریت قائم ہے، جن کے ٹیکسوں کے سبب ہی عوام کے منتخب نمائندے خواہ وزراء ہوں یا اراکین پارلیمنٹ اور اسمبلیاں، ہر حیثیت کا حامل سرکاری اہلکار، اپنی تن خواہیں حاصل کرتے ہیں۔ ان کے دیگر اخراجات ، سہولتیں اور مراعات بھی ان ہی ٹیکسوں سے ادا کی جاتی ہیں۔ چیف جسٹس کا کارکردگی کے بارے میں سروے تو بہر حال اگر جمہوری تقاضوں کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو چیف جسٹس ہی کی جیت ہے۔ ان کے حق میں تو 57فیصد لوگوں نے رائے دی ہے۔ ہمارے انتخابی نظام میں تو جسے سب سے زیادہ ووٹ پڑتے ہیں وہ ہی کامیاب قرار دیا جاتا ہے خواہ وہ ووٹ نصف سے بہت ہی کم کیوں نہ ہوں۔ سب ایک ہی رائے کے حامل ہیں کہ ان کے کاموں میں مداخلت نہ کی جائے۔ بھلا یہ بتائیں تو سہی کہ یہ کیا کام کرتے ہیں۔ کیا وزراء اپنے محکموں اور ذیلی دفاتر کا تواتر کے ساتھ دورہ کرتے ہیں۔ کیا وہ ہر درجے کے ملازم سے براہ راست ملاقات کرتے ہیں،وہ اپنے رائے دہندگان کے ساتھ ماہانہ بنیادوں پر کتنی ملاقاتیں کرتے ہیں ۔ ان کی تو خواہش ہوتی ہے کہ ان کی دہلیز پر ہی حاضری دی جائے۔
یہ ہی حال اراکین پارلیمنٹ اور ا سمبلیوں کا ہے۔ شائد گنتی کے لوگ ہی ہوں گے جو اپنے رائے دہندگان کے ساتھ تواتر سے ملاقاتیں کرتے ہوں گے۔ بڑے سرکاری افسران کا بھی یہ ہی حال ہے، اگر دفاتر میں بیٹھنا ہی ذمہ داری نبھانے کا نام ہے تو اس تکلف کی بھی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ یہ لوگ جمہوریت صرف اسی حد تک چاہتے ہیں کہ وہ اور ان کے رشتہ دار کسی نہ کسی بہانے منتخب ہوتے رہیں۔ ان کی جمہوریت کی ابتدا اور انتہا عام انتخابات کے دوران پولنگ کے روز ہی ہوتی ہے اور اسی روز گنتی کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے زیادہ انہیں جمہوریت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ اور وہ سمجھتے بھی نہیں ہیں کہ جمہوریت کے کیا کیا تقاضے ہوتے ہیں۔ تمام پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے اراکین ایک طرف، ان سے بہت زیادہ معلومات تو چیف جسٹس نے حاصل کر لی ہیں، جس کے سبب انہوں نے گراں قدر خدمات بھی انجام دی ہیں۔ وہ ملک کے کونے کونے میں گھومے ہیں۔ کیاہسپتال، کیا تعلیمی ادارے، کیا جیل، کیا عوامی سہولتوں کے دوسرے ادارے۔ سب ہی کے انہوں نے چکر لگا لئے ہیں۔ ان کے دوروں کے نتیجے میں ہی انہیں براہ راست تمام معلومات حاصل ہوئی ہیں۔
جو کام حکومتی اداروں کے کرنے کے ہیں، ان میں ہی تو وہ مدد گار ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی خدمات کا معترف ہونے کی بجائے ان پر تنقید بے مقصد سی بات ہے۔ چیف جسٹس کا اس بات سے کوئی سروکار نہیں رہا ہے کہ کون ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں ؟ انہیں حکومت پاکستان سے کسی تمغے کے حصول کی تمنا بھی نہیں ہے۔ بے زبان لوگ، وہ محروم طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ تو ان کے حق میں جھولی پھیلا کر دعائیں کرتے ہیں۔ از خود نوٹسوں کے صلے میں ہزاروں لوگوں کا بھلا ہوا ہوگا۔ وہ لوگ دوسری صورت میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے تھے، کوئی ان کی داد رسی کے لئے آگے نہیں بڑھتا تھا۔ بلا شبہ ابھی بھی ایسے ہزاروں لوگ ہوں گے، جن کے مسائل موجود ہیں ، ان مسائل کا حل کیا جانا اہم بھی ہے، لیکن کسی نے کسی بہانے تو آغاز کیا ہے۔ حکومتوں کو از خود نوٹسوں پر سماعت پر بھی اعتراضات ہیں۔ناقدین کو یہ شکایت بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کیا کام کہ وہ ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں سرگرم ہو، لوگوں سے ڈیم فنڈ کے لئے پیسے مانگتا پھرے ۔ پاکستان میں پانی کا جو قحط آنے کو ہے اس کے لئے گزشتہ حکومتوں نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کیا خدمات انجام دی ہیں۔
کیا انہیں اس دن کا انتظار تھا کہ پاکستان پانی کے قحط کا شکار ہوکر بنجر ملک بن جائے اور لوگ پانی کے قطروں کو ترسیں، اگر اس دن کا انتظار نہیں تھا تو پھر پانی کے بڑے یا چھوٹے ذخائر کی تعمیر کا کام کیوں نہیں جنگی بنیادوں پر شروع کیا گیا۔ یہ کس کی ناکامی سمجھی جائے ؟ چیف جسٹس نے تو بہتر ہی کیا کہ لوگوں کو جگا دیا۔ ابھی سے پیسے جمع کرنا شروع کریں گے تو کوئی بات بنے گی۔ کہیں سے تو ابتدا ہونی تھی۔ ایسی ابتدا جس کی بنیاد چیف جسٹس نے ڈال دی ۔ عام لوگوں کو مقدمات اور از خود نوٹسوں کے نتیجے میں ہونے والی کارروائی پر ایک اعتراض ہے وہ یہ کہ عدالت عظمی کسی بھی معاملے میں بڑے سرکاری افسران کے خلاف کوئی نتیجہ خیز کارروائی نہیں کرتی ہے۔ بات دراصل ملک میں موجود نظام حکومت کی بنیادی خرابی کی ہے۔ اس نظام میں افسران کے پاس تاخیری حربوں کے ہر وقت دس جواز موجود ہوتے ہیں۔ انہیں عام لوگوں یا شکایات کنندگان کو سہولت فراہم کرنے کی بجائے ان حربوں کو استعمال خوب آتا ہے۔ محتسب کے دفاتر میں بھی تاخیری حربے ہی استعمال ہوتے ہیں اور ایک مخصوص دائرے میں رہتے ہوئے وہ بھی عام لوگوں کی شکایت کا کوئی ازالہ نہیں کرتے ہیں۔اس صورت حال کی وجہ سے عام لوگ ہی پریشان پھرتے ہیں۔