counter easy hit

پڑھیے پنجاب حکومت کے وہ راز جس سے ہر وزیراعظم بے خبر رہتا ہے

Read the secrets of the Punjab government, which every Prime Minister remains unaware of

پنجاب میں اقتدار کس کے ہاتھ میں ہے ؟ تحریک انصاف کے پاس ہے یا مالِ غنیمت کے طور اپنے سیاسی حلیفوں میں بانٹ دیا گیا ہے ؟ کیا عمران خان پنجاب کی اہمیت سے بے خبر ہیں یا مصلحتوں نے ان کا سارا بانکپن ہی چھین لیا ہے؟ پاکستان کی سیاست میں پنجاب کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ وزارت عظمی کا راستہ پنجاب سے ہو کر گزرتا ہے۔ پارلیمانی سیاست میں پنجاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ تینوں صوبوں کے قومی اسمبلی کے حلقے جمع کر لیے جائیں تب بھی پنجاب سے کم ہیں ۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 141ہے جب کہ باقی تینوں صوبوں کی جنرل نشستوں کی تعداد 128 ہے۔ اسی بات کو ایک اور انداز سے سمجھ لیجیے۔ پاکستان کے کل رقبے کے 44 فیصد پر مشتمل بلوچستان کے پورے صوبے میں قومی اسمبلی کے 16 حلقوں پر انتخاب ہوتا ہے جب کہ پنجاب کے صرف ایک لاہور میں قومی اسمبلی کے 14 حلقے اور فیصل آباد میں 10 حلقے ہیں ۔ شریف خاندان کا معاملہ یہ رہا ہے کہ پنجاب پر اس نے غیر معمولی گرفت قائم کر لی ۔ یوں سمجھیے کہ پنجے گاڑ لیے۔ 1985 میں یہاں پہلی مرتبہ نواز شریف وزیر اعلی بنے۔ تب سے اب تک ، انہوں نے اس صوبے میں کسی اور سیاسی عصبیت کو قدم نہیں جمانے دیے۔ نواز شریف کے بعد کے تین سال وزیر اعلی غلام حیدر وائیں وزیر اعلی رہے لیکن اقتدار عملا شریف خاندان ہی کے پاس رہا ۔ 1993 سے 1997 تک یہاں منظور وٹو اور عارف نکئی جیسے لوگ وزیر اعلی رہے لیکن وہ شریف خاندان کی عصبیت کے لیے کوئی خطرہ نہ بن سکے بلکہ ان کے رد عمل میںیہ عصبیت مزید طاقتور ہوئی۔ 1997میں شہباز شریف ایک بار پھر صوبے کے وزیر اعلی تھے۔ مشرف دور میں پرویز الہی وزیر اعلی بنے لیکن وہ بھی سیاست میں کسی عصبیت کا عنوان نہیں بن سکے۔ جلاوطنی ختم ہوئی تو2008 میں پھر شہباز شریف وزیر اعلی بن گئے۔ آصف زرداری نے گورنر راج لگا کر نہیں فارغ کیا لیکن مارچ 2009 میں شہباز شریف ایک بار پھر وزیر اعلی تھے۔ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں پنجاب میں ایک مرتبہ پھر اقتدار شہباز شریف کے پاس تھا۔پنجاب میں ن لیگ کے اقتدار کا دورانیہ 20 سال اور185 دن کے غیر معمولی طور پر طویل دورانیے پر مشتمل ہے۔ نواز شریف تین دفعہ وزارت عظمی تک پہنچے تو اس کے پیچھے پنجاب میں ان کی قوت کا یہی پہلو کارفرما تھا۔ پنجاب میں شریف خاندان کی سیاسی عصبیت کو ان بیس سالوں میں پہلی بار کسی نے چیلنج کیا تو وہ عمران خان ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا تو یہ حال ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اس کے صرف چھ ایم پی اے ہیں ۔ اگر چہ مسلم لیگ ن کی نشستیں اب بھی تحریک انصاف سے زیادہ تھیں ۔ لیکن تحریک انصاف نے آزاد اراکین کو ملا کر حکومت بنا لی۔ اب اقتدار لے ہی لیا تھا تو لازم تھا کہ ایک ایسی مثالی ، متحرک اور قابل حکومت قائم کی جاتی کہ لوگ شہباز شریف کو بھول جاتے ۔ لیکن ہو کیا رہا ہے؟ سب سے بڑے صوبے کی حکومت لینے کے بعد کفران نعمت کے طور پر عثمان بزدار نامی ایک ایسے شخص کو وزیر اعلی بنا دیا گیا ہے جس کا اس سے پہلے تحریک انصاف کے حلقوں میں بھی کوئی تعارف نہیں تھا ۔ ایک کمزور وزیر اعلی ایک منہ زور بیوروکریسی کو کیسے قابو کر سکتا ہے؟ رہی سہی کسر حلیفوں نے پوری کر دی ۔ عمران خان کو اقوال زریں سنا دیے گئے کہ تھانوں اور اداروں کو سیاسی مداخلت سے پاک ہونا چاہیے۔ عمران خان نے کسی حد تک اسے پالیسی بنا دیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ تھانوں اور اداروں میں تحریک انصاف کے اراکین کی تو سنتا کوئی نہیں البتہ گجرات کے چودھریوں کا طوطی بول رہا ہے۔ یوں لگتا ہے صوبے میں اقتدار تحریک انصاف کے پاس نہیں بلکہ ق لیگ کے پاس ہے۔ نونہالان انقلاب کو سیاسی تاریخ سے ویسے ہی کوئی رغبت نہیں ، انہیں معلوم ہی نہیں ق لیگ کے کتنے لوگ بلے کے انتخابی نشان پر جیت چکے۔ نام عمران خان کا استعمال ہو رہا ہے ، نیک نامی ان کی داؤ پر لگی ہے لیکن پنجاب میں حکومت کسی اور کی ہے۔بجائے اس کے کہ ن لیگ کا دو عشروں کا تسلط توڑا جاتا ، اسے اور مضبوط کر دیا گیا ہے۔ بیوروکریٹ اور پولیس افسر نجی محفلوں میں اب کھل کر کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی طرح عمران خان کی تحریک انصاف کا بھی کوئی مستقبل نہیں ۔ اس لیے وفاداری شریف خاندان سے رکھو یا پھر چودھریوں کے ساتھ ۔ بیوروکریسی کا خیال ہے جس قائد کی ملک میں اولاد ہی نہ ہو اس کی سیاست کتنا عرصہ چل پائے گی ۔ یہ بابو گھاٹے کا سودا کیوں کریں گے؟ بہتر ہوتا عمران خان پنجاب میں مسلم لیگ کو حکومت بنانے دیتے۔ تحریک انصاف کم از کم اس حکومت پر تنقید تو کر ہی لیا کرتی۔سب سے بڑے صوبے میں طرز حکومت کے باب میں ان کی بے نیازیاں دیکھیے ، وزیر اعلی کے ترجمان کو اختیارات سونپ کر سمجھا جا رہا ہے ایسے لطائف سے صوبہ چلایا جا سکتا ہے۔ پنجاب کا ایک اپنا مزاج ہے اسے ٹویٹرپر نہیں چلایا جا سکتا ۔ اس کے لیے سماج میں جڑیں ہونا لازم ہے.لہجے کے مسائل کا ذمہ دار بھی کوئی فرد واحد نہیں ہوتا ۔ قیادت اس کی باقاعدہ حوصلہ فزائی کرتی ہے ۔ سیاسی مخالفین کی تضحیک اور توہین جب ایک پالیسی بن چکی ہو تو تعزیر کے کوڑے کے لیے فیاض چوہان کی پشت ہی کیوں؟ رویوں پر بلاشبہ نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ لیکن توہین اور تضحیک کی پالیسی بدلے بغیر یہ رویے کیسے تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ فیاض چوہان نے نامناسب بات کہی تھی تو تنبیہہ بھی کی جا سکتی تھی لیکن ایک بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا ۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں ایک عشرہ اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے رہنے والے دیرینہ کارکن کویوں ڈمپ کر کے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی؟ کیا باقی کابینہ جب منہ کھولتی ہے تو علم و دانش کے موتی گرتے ہیں؟ پنجاب چلانا ہے تو سنجیدگی اختیار کرنا پڑے گی۔ ٹویٹر پر پنجاب نہیں چل سکتا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website