counter easy hit

رانی آف پونچھ کابدنام معاہدہ امرتسر سے شروع ہوتا ہے، یہ قیمت مضحکہ خیز اور توہین آمیز تھی، ایک تاریخی واقعہ

مظفرآباد (ویب ڈیسک)بریڈ فورڈ میں مقیم نامور کشمیری شخصیت سردار عبدالرحمٰن خان اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   پونچھ ریاست جموں و کشمیر کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ پونچھ کے اردگرد ریاست جموں و کشمیر کا علاقہ ہے۔ سوائے مغرب کے جہاں پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی سرحدیں ہیں پونچھ کا رقبہ چار تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ تحصیل سدھنوتی، تحصیل  باغ، تحصیل حویلی اور تحصیل مینڈر۔ ریاست پونچھ کا قصہ بدنام معاہدہ امرتسر سے شروع ہوتا ہے۔مارچ 1846ء میں انگریزوں نے ریاست جموں و کشمیر کو ایک قلیل رقم کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ کو بیچ دی۔ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو اپنے اعتماد میں لئے بغیر تمام ریاست بشمول انسان، زروزمین گلاب سنگھ کے حوالے کردی۔ یہ قیمت مضحکہ خیز اور توہین آمیز تھی۔ علامہ اقبال نے اس بارے میں کہا ’’قوے فروختندر وچہ ارزاں فروختند‘‘۔راجہ بلدیو سنگھ کا بڑا بیٹا سکھ دیو سنگھ اس وقت ریاست پونچھ کا راجہ تھا۔ وہ جواں سالی ہی میں فوت ہوگیا۔ اس کی جگہ جگت دیو سنگھ نے لے لی۔ جگت دیو سنگھ ایک نہایت انوکھا آدمی تھا، وہ سادہ لوح تھا لیکن بہت ہی مذہبی آدمی تھا وہ اکثر تنہا رہتا تھا اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دس بجے صبح سے پہلے کسی مسلمان کا منہ دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ پنڈتوں اور پرہتوں کے نرغے میں مصروف رہتا تھا۔ اس کی بیوی رانی بھی پڑھی لکھی نہ تھی اور نہ ہی یہ لوگ روشن خیال تھے۔ ان دونوں کا مذہب کی طرف ہمہ وقت دھیان رہتا تھا۔ یہ سب صورت حال احتجاج میں تبدیل ہوگئی۔ جب احتجاج بڑھ گئے اور بدامنی پھیلنے لگی تو راجہ اور رانی دونوں ریاست پونچھ سے پرسرار طور پر غائب ہوگئے۔ کچھ مورخین کا خیال کہ شاید ہندوستان چلے گئے اور اپنی مذہبی دلچسپی کی خواہشات کو پوری کرنے کے لئے ’’بنارس‘‘ یا ’’ہردوار‘‘ رہائش پذیر ہوگئے۔ 1932ء میں پونچھ کا  سٹیٹس اور بھی کم کردیا گیا۔مہاراجہ اور راجوں کے آگے اپنی بے بسی کے عالم میں مزاحمت کے ہتھیار نہیں پھینکے۔ اس جدوجہد میں ریاست پونچھ کے لوگ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ مولانا غلام حیدر جنڈالوی ترائو کھیل کے نزدیک ایک چھوٹے سے قصبے جنڈال کے رہنے والے تھے۔ وہ انتہائی بہادر شعلہ بیان مقرر اور عالم دین تھے۔

وہ مسلمانان پونچھ کے بڑے قائدین میں شمار ہوتے تھے۔ ڈوگرہ مہاراجوں کے خلاف ہمیشہ برسرپیکار رہتے تھے۔ جلسے جلوسوں اور احتجاجی مہمات میں حکمرانوں کے خلاف جر أت مندانہ انداز میں للکارتے تھے۔ وہ اس جرم کی سزا کئی بار قید کی سلاخوں کے پیچھے بھگت چکے تھے۔ انہوں نے ریاست جموں و کشمیر کی ایک طرفہ کارروائی سے ریاست پونچھ کی حیثیت کو ختم ہونے کا سختی سے نوٹس لیااور علم بغاوت بلند کردیا اور اپنے ساتھیوں سے مل کر حکمت عملی تیار کی۔ پونچھ کے راجہ جگت دیو سنگھ نے اپنی موت کے بعد ایک بیوہ اور معصوم بچہ چھوڑا تھا، بچے کا نام ٹکا صاحب تھا۔ جگت دیو سنگھ کے بعد پونچھ میں جو وزیر مقرر کیا گیا اس نے جگت سنگھ کی بیوی اور بچے کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا۔ انہوں نے رانی کے وجود سے ہی انکار کردیا۔ اس طرح ریاست پونچھ عملی طور پر ریاست جموں و کشمیر میں بالکل ضم ہوگئی۔ یہ صورت پونچھ کے عوام کو بھی منظور نہ تھی گو کہ مسلم عوام ڈوگر راج کے خلاف تھے لیکن جس طرح ریاست کو چور دروازے سے ختم کیاگیا وہ لوگوں کو منظور نہ تھا۔ پھر علم بغاوت بلند ہوگیا، ریاست پونچھ کی رانی اور اس کا بیٹا اس ناانصافی سے بہت دکھی تھے وہ خفیہ طور پر اپنے اس دکھ اور جذبہ انتقام کو پونچھ کے عوام تک پہنچاتے رہے تھے۔ پھر مولانا غلام حیدر جنڈالوی اور رانی آف پونچھ کے درمیان ایک خفیہ بات چیت کے ذریعے ایک منصوبہ تیار کیا گیا جس کے تحت رانی کو برٹش انڈیا میں پہنچایا جائے گاجہاں پہنچ کر وہ ریاست پونچھ کا مقدمہ برطانوی حکومت کی اعلیٰ عدالت کے سامنے پیش کرکے انصاف کی فریاد کرے گی۔ مولانا غلام حیدر جنڈالوی اور رانی کے درمیان خفیہ طور پر طے ہوا تھا کہ وہ رات کی تاریکی میں اپنی شناخت اور حلیہ بدل کر دریائے پونچھ کے پل پر پہنچے گی جہاں اس کے لئے سواری موجود ہوگی اور اس کو اٹھا کے لے جایاجائے گا۔ پھراس کو براستہ کوٹلی اور میرپور ہندوستان پہنچایا جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے اس خفیہ راز اور سازش کو وقت سے پہلے ہی افشا کردیا گیا اور مہاراجہ کی پولیس نے رانی اور اس کے بیٹے کو پونچھ محل میں بند کردیا اور نگرانی سخت کردی۔ مولانا غلام حیدر جنڈالوی اور ان کے ساتھیوں کو ریاست بدر کردیا گیا۔ وہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد واپس اپنی دھرتی پر پہنچے۔ آج پونچھ آزاد کشمیر میں شامل ہے سوائے پونچھ شہر اور پونچھ کی دو تحصیلوں کے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website