’’جس کو حکمت ملی اُسے درحقیقت بڑی دولت مل گئی‘‘

یونیورسٹی میں لسانی تنظیمیں عرصہِ دراز سے عام طلبہ کو زد و کوب کررہی ہیں جن کی متعدد بار شکایت درج کروانے کے باوجود تاحال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ منشیات کی سپلائی انہی تنظیموں کی جانب سے اپنے اخراجات چلانے کے لئے کی جارہی ہے۔ روکنا ہے تو یونیورسٹی میں قبضہ کی سوچ کو روکنے کی کوشش کی جانی چاہیئے۔ سندھی طلبہ جنوری کی سرد راتوں میں یونیورسٹی کے باہر فُٹ پاتھ پر دس دن تک سوئے رہے۔ یونیورسٹی لسانی بنیادوں پر جھگڑوں کے باعث ایک ہفتے تک بند رہی، طلبہ وطالبات نے الزام عائد کیا کہ لسانی تنظیمیں یونیورسٹی میں منشیات کے اڈے چلا رہی ہیں جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے میں طلبہ کی بہت بڑی تعداد نشے کی لت میں مبتلا ہوچکی ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی میں لسانی تنظیمیں منشیات فروشوں کے زیرِ سایہ پاکستان مخالف سوچ کو تقویت دے رہی ہیں۔ ہم حکومتی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اِس بات کا سختی سے نوٹس لے کر اِن کونسلز کے خلاف کارروائی کی جائے۔
یونیورسٹی میں پُرامن ماحول کے لئے ضروری ہے کہ لسانی تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے۔ اِن دنیا و مافیا سے بے خبر طلبہ و طالبات کی گفتگو مجھے ایک ماہ پیچھے لے گئی۔ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ کا اجلاس ڈاکٹر امیر اللہ مروت کی زیر صدارت یونیورسٹی میں ہوا جس میں بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ممنوعہ اشیاء کی خرید و فروخت کے علاوہ کیمپس میں جوئے کی لت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کمروں میں بیہودہ تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جہاں پر منشیات اور شراب نوشی آزادی کے ساتھ کی جاتی ہے اور اِس حوالے سے کئی بار پولیس کو اطلاع دی اور کارروائی بھی عمل میں لائی گئی، مگر اگلی ہی صبح تمام افراد رہا ہوجاتے ہیں۔
یونیورسٹی کے ایک اہم ذمہ دار نے بتایا کہ یونیورسٹی کے ملازمین بھی اِس مکروہ کاروبار میں ملوث ہیں، 200 گارڈز کی موجودگی کے باوجود انتظامیہ اِسے روکنے میں ناکام ہے۔ انہوں نے دبے الفاظ میں کہا کہ ممکنہ طور پر ایسے عناصر کی پشت پناہی کچھ بااثر افراد کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اِن سب کے علاوہ کچھ غیر متعلقہ لوگ بھی ہاسٹلز کے کمروں میں رہائش اختیار کئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب نے بھی منشیات فروشوں اور طلبہ و طالبات میں منشیات کی لت کے سامنے بے بسی کا اظہار کردیا ہے، جبکہ یونیورسٹی کے ڈین وسیم احمد نے انکشاف کیا کہ یونیورسٹی میں نشہ آور اشیاء ہاسٹلز میں براہِ راست پہنچادی جاتی ہیں، یعنی پیزا ڈیلیوری کی طرح نشہ آور اشیاء کی بھی فری ڈیلیوری کی سہولت موجود ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کی عمارات، ہاسٹلز، پُر فضا لان مجھے بار بار رکنے کا کہہ رہے تھے مگر مجھے چلتے چلتے یہ خبر بھی ملی کہ یونیورسٹی کی 2 سو ایکڑ سے زائد اراضی پر قبضہ مافیا کا راج ہے، جس کو سی ڈی اے انتظامیہ چھڑوا سکی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں اِس کی گونج سنائی دی، تاہم عدالتِ عالیہ نے نوٹس بھیج کر متعلقہ حکام اور اداروں سے جواب طلب کیا ہے جس کے ردِعمل میں تاحال دونوں جانب سے ایک طویل خاموشی ہے۔
نشے میں دُھت طلبہ وطالبات کو دیکھ کر میں دُکھی تو ہوا ہوں لیکن اُمید ابھی باقی ہے۔ تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں میں ابھی بھی اس جامعہ کے مقابلے میں کوئی دوسری جامعہ نہیں آسکی، مگر یہ یونیورسٹی ایک مقابلہ ہار گئی ہے اور وہ ہے اپنے طلبہ وطالبات کی ملی یکجہتی اور اخلاقیات کا مقابلہ۔ شہرِ اقتدار کے بااختیار اگر پانامہ نااہلی، تیرا چور میرا چور کے جھگڑوں سے نکل گئے ہوں تو قوم کے مستقبل کی جانب نظر دوڑا لیں، ورنہ ہمیں تعلیمی اداروں سے پائلٹ نہیں جہاز ملیں گے۔
یونیورسٹی سے نکلتے ہی میرے سامنے فیصل مسجد، پارلیمنٹ ہاوس اور سپریم کورٹ کی عمارتیں تھیں۔ میں اِن قلعہ بند عمارتوں کے مکینوں سے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر شاید جلے ہوئے سگریٹ کے دھویں کی طرح میرے خیالات بھی منتشر ہوگئے تھے۔ مین روڈ سے ٹیکسی لی اور فیض آباد کے بس اسٹینڈ پر آگیا کیوںکہ اب میرا اِس شہر میں رہنے کو جی نہیں کر رہا تھا۔
نوٹ:یس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔









