counter easy hit

ڈر؟ اور پنجابی سنگت

مجھے معروف شاعرہ ناز بٹ نے پانچ چھ مصرعوں پر مشتمل ایک اچھی نظم بھیجی ہے۔ میں اپنے بہت عزیز قارئین کے لیے آج کے کالم کا آغاز اسی نظم سے کر رہا ہوں۔

Pujabi, Sangat's, and, fears, by, Doctor, Muhammad, Ajmal, Niaziچاہتیں بے شمار ہونے پر
زندگی مختصر سی لگتی ہے
سانس کی ڈور ٹوٹنے کا ڈر
ہر گھڑی دل سے لپٹا رہتا ہے
دونوں ہاتھوں میں آسماں تھامے
پاﺅں کیوں کپکپاتے رہتے ہیں
نظم بہت خوبصورت ہے اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ بھی ایک حقیقت ہے جسے ہم تلخ حقیقت بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ ڈر تو فطری ہے اور ڈر نیگٹیو نہیں ہے۔ مگر ہم اسے پازیٹو کیوں نہیں رہنے دیتے۔ ڈرے ہوئے لوگ خدا سے نہیں ڈرتے مگر ڈرے ہوئے لوگوں نے بڑی بڑی معرکہ آرائیاں کی ہیں۔
میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر خان نیازی نے ایک عجیب بات کی تھی۔ وہ بہت بڑے بڑے جملے بولتے تھے جو پورے شہر میں کئی دنوں تک گھومتے رہتے تھے اور جھومتے رہتے تھے۔
بلی اتنی ڈری کہ شیر بن گئی
منیر نیازی کی شاعری میں خوف ایک علامت اور بامعنی حقیقت بن کے سامنے آیا۔ بچے ماں سے ڈرتے ہیں مگر پھر اسی کی گود میں جا کے پناہ لیتے ہیں۔ ایک محبت کا ڈر بھی ہوتا ہے اور یہ سب سے خوبصورت ڈر ہے۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی نڈر ہوتے ہیں۔
میرے نزدیک یہ بات سوچنے کی ہے کہ نہ ڈرنے والا ڈرنے والے سے افضل ہے جس کے دل میں ڈر نہیں ہے وہ نڈر نہیں ہو سکتا۔ نڈر کے لفظ کے اندر ڈر موجود ہے۔ بہادر بزدل نہیں ہوتا مگر وہ کمزور سے ڈرتا ہے وہ کبھی کسی کمزور کے مقابلے میں نہیں آتا۔
اچھا جملہ کوئی بھی کہہ سکتا ہے۔ بہت برسوں پہلے کی بات ہے ہم پشاور گئے وہاں پی ٹی وی کا مشاعرہ تھا۔ کمپیئر پروین شاکر تھیں۔ سارے اہم شعراءاور شاعرات موجود تھیں۔ ہم سب سٹیج پر مشاعرے کے آغاز کے منتظر بیٹھے تھے۔ سارے کیمرہ مین مشاعرے کو شوٹ کرنے کی تیاری پکڑ رہے تھے۔ ایک بہت باوقار سا کیمرہ مین میرے پاس آیا اور اس نے کہا آپ کو میرا کیمرہ بہت پسند کر رہا ہے۔ میں خوش ہوا۔ کیمرہ مین کے احساس جمال سے کہ اس نے ایک مشین کے زندہ کردار کو زبان دی۔ میں وہاں مشاعرہ پڑھ کے اور ایک اچھی کمپیئرنگ سے لطف اندوز ہو کر ہوٹل پہنچا تو پریشان خٹک بھی پروین شاکر سے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ پروین کے بارے میں بات ہوئی تو میں نے کہا کہ کسی عورت سے بات کرنے کے لیے اس سے اجازت لینا پڑتی ہے مگر پروین شاکر اور ایسی عورتوں کے لیے اپنے آپ سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ جب یہ جملہ پروین نے سنا تو بہت خوش ہوئیں۔ میں نے خوشی کا یہ تاثر کم کم عورتوں میں دیکھا ہے۔ بہت اچھا رابطہ پروین شاکر کے ساتھ تھا۔ اس کے فون گھر بھی آتے تھے۔ میری خاتون اول میری اہلیہ رفعت سے بھی اس کی بات ہوتی تھی۔ اسے پروین کے اشعار مجھ سے بھی زیادہ آتے ہیں۔
کو بکو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
اک یہی بات ہے اچھی مرے ہر جائی کی
آج شاید پنجابی سنگت میں اچھی عورتوں کا دن تھا۔ تنقیدی اجلاس کی صدارت بہت وقار اور اعتبار والی خاتون شاعرہ شاہدہ دلاور شاہ نے بہت بھرپور میں انداز کی۔ ڈاکٹر غافر شہزاد بھی آج پنجابی سنگت میں موجود تھے۔ وہ دو دفعہ حلقہ ارباب ذوق (پاک ٹی ہاﺅس والے) کے سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ ایوان اقبال والے حلقے کے سیکرٹری حسین مجروح بھی یہاں موجود تھے۔ پاک ٹی ہاﺅس والے حلقے کے سیکرٹری ڈاکٹر امجد طفیل بھی بہت محنت کر رہے ہیں۔
حلقہ ارباب ذوق دو ہیں تو پھر پنجاب ادبی سنگت کیوں نہ دو ہو۔ جب ہم جوان تھے تو شفقت تنویر مرزا‘ راجہ رسالو تنویر ظہور اور کئی دوسرے دوست بہت مشہور تھے۔ اب دوسری پنجابی ادبی سنگت کے اجلاس ناصر باغ چوپال میں ہوتے ہیں۔ میں وہاں نہیں جاسکا مگر قذافی سٹیڈیم میرے گھر وحدت کالونی کے پاس ہے تو میں کبھی کبھی یہاں چلا آتا ہوں۔ یہاں آسیہ اکبر ایڈووکیٹ اور ریحان چودھری موجود ہوتے ہیں۔ مجھے پنجاب کا ایک خوبصورت میگزین سنیہا دیا۔ اس کے مدیراعلیٰ پنجابی کے بہت مخلص دوست عاشق راحیل ہیں۔ ڈاکٹر یونس اور ڈاکٹر نبیلہ رحمان مجلس مشاورت میں شامل ہیں۔
تنقیدی اجلاس میں بہت معروف خاتون بینا گوئندی نے اپنا خوبصورت افسانہ پیش کیا۔ میں نے ہمیشہ اسے مزیدار پنجابی بولتے دیکھا ہے۔ برادرم حفیظ طاہر نے نظم پڑھی‘ بہت بھرپور تنقید ہوئی۔
اس کے بعد مشاعرہ ہوا۔ اجلاس کے بعد مشاعرے کی روایت بہت مضبوط ہے۔ ریحان چودھری اور آسیہ اکبر ایڈووکیٹ دونوں شاعر نہیں ہیں اس کے باوجود مشاعرہ ہوتا ہے اور خوب ہوتا ہے۔ کچھ دوست صرف مشاعرہ پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ مشاعرہ سننے والے بھی اجلاس میں موجود رہتے ہیں جیسے موجود نہ ہوں۔ اسمبلیوں کی طرح یہاں بھی کئی لوگ ہیں جنہوں نے کبھی ایک لفظ نہیں کہا مگر جیب میں غزل ضرور ہوتی ہے۔ بہت دوستوں نے اچھی چیزیں سنائیں۔
مشاعرے کی صدارت خوبصورت اور شاندار شاعرہ طاہرہ سرا نے کی۔ وہ خالص پنجابن کی شخصیت کے ساتھ بہت محبوب لہجے میں شاعری پڑھتی ہیں۔ ایسی شاعری میں نے کم کم کسی پنجابی عورت سے سنی ہے۔ ایک یاد ہے نسرین انجم بھٹی کی کہ اس سے بڑھ کر کوئی شاعرہ نہیں ہوگی۔ میرے دوست سرفراز انور صفی نے میرے کان میں کہا کہ وہ پاکستان کی امرتا پریتم ہے۔ اسے دوسری نسرین انجم بھٹی بھی تو کہا جاسکتا ہے۔
امرتا کی کوئی دوسری نظم لاﺅ جو اس نظم کے مقابلے کی ہو۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول
مشاعرے میں صدر شاعرہ طاہرہ سرا‘ بینا گوئندی‘ حسین مجروح‘ نصیراحمد ناصر‘ صابرعلی صابر‘ اقبال قیصر‘ یوسف پنجابی‘ سبط حسین‘ عابد شاہ گیلانی، آخر میں طاہرہ سرا کی کچھ حیرت انگیز اور خوشگوار بولیاں حاضر خدمت ہیں۔
جنج ویہڑے وچ آن کھلوتی
پٹولیاں وچ لُکدی پھراں
نی میں پگ تھلے آکے مر گئی
کسے نے میری کُوک نہ سنی
مائے چنی ویاں وٹیاں وٹاکے
ایہہ دیوا ساری رات جگنا

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website