counter easy hit

شہر قبرستان

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Pakistani Muslim families pray beside the graves of their relatives to mark Shab-e-Barat or the night of forgiveness in Karachi on June 2, 2015. Muslims believe that if someone prays to God throughout the night and seeks forgiveness for all the sins he may have committed, he could be forgiven. The entire night of prayer is devoted to asking for forgiveness for the past year and for good fortune in the year to come. AFP PHOTO/Asif HASSAN

Pakistani Muslim families pray beside the graves of their relatives to mark Shab-e-Barat or the night of forgiveness in Karachi on June 2, 2015. Muslims believe that if someone prays to God throughout the night and seeks forgiveness for all the sins he may have committed, he could be forgiven. The entire night of prayer is devoted to asking for forgiveness for the past year and for good fortune in the year to come. AFP PHOTO/Asif HASSAN

میرے دوست کے والد کی وفات پر اُس کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے میں لاہور کے قدیمی قبرستان میانی صاحب آیا ہوا تھا مرحوم کا جنازہ پڑھا جا چکا تھا اب ہم مرحوم کو اُس کی آخری آرام گاہ میں اُتارنے کے لیے جمع تھے قبر کی تیا ری آخری مرا حل میں تھی میں حسبِ معمول دور حد نگا ہ تک پھیلے ہو ئے قبرستان کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیسے کیسے نا بغہ روزگار لو گ اِس قبرستان کی مٹی کا حصہ بن چکے تھے ایک سے بڑھ کر ایک خو بصورت طاقتور صاحب اختیار غیر معمولی صلا حیتوں کا مالک انسان یہاں دفن تھا قبرستان کا سناٹا پراسرارئیت نئی اوربو سیدہ قبریں تا زہ مرجھائے ہو ئے پھولوں کی ملی جلی خوشبو اگر بتیوں کی مخصوص بو نے ماحول کو اور سوگوار بنا یا ہوا تھا میں جب کبھی بھی قبرستان جا تا ہوں تو اپنی اوقات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ آج منو ں مٹی کے نیچے انسان بھی کبھی ہما ری طرح جیتے جا گتے زندگی کی بھاگ دوڑ میں مصروف تھے لیکن اپنے اپنے وقت پر قبرستان کی مٹی میں اضافے کا مو جب بنتے چلے گئے میں انہی سوچوں میں غرق تھا میراجاننے والا میرے پا س آیا اور میرے کان میں سر گوشی کی جناب قبر تو کب کی تیار ہو چکی ہے اب ان کے خاندان کے سربراہ کا انتظار ہے۔ اب ہم سب لوگ انتظار کی سولی پر لٹک گئے جب کا فی دیر ہو گئی اور لوگ آپس میں چہ مگو ئیاں کر نے لگے تو میرا دوست میرے پا س آیا اور کہا سر میں انتظا ر کی معذرت چاہتا ہوں۔

18لیکن ہما ری یہ مجبوری ہے کہ ہم خو شی غمی کو ئی بھی کام اپنے خاندان کے اِس چوہدری کے بغیر نہیں کر سکتے ہم تو اِن کی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے یہ ہما رے سارے خاندان کے بڑے ہیں اِن کے بغیر ہما را کو ئی کام نہ شروع اور نہ اختتام ہو سکتا ہے اِن کے بغیر ہما ری ساری خوشیاں ادھو ری ہیں ہما ری خو شیوں کا دارومدار بھی اِن کی شرکت اور رضا مندی میں ہے اِسی دوران میرے دوست کا چھو ٹا بھا ئی آگے بڑھا اور اپنے بھا ئی سے مخا طب ہوا کہ بہت دیر ہو گئی ہے آئے ہو ئے لوگ اب تنگ آگئے ہیں اب ہمیں والد صاحب کو دفنا دینا چاہئے تو بڑے بھا ئی نے دھاڑتے ہو ئے کہا تم ۔ ” بڑے صاحب ” کے بغیر والد صاحب کو دفنا نے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہو اگر وہ نا راض ہو گئے تو ہماری ہمت ہے کہ اُن کی نا راضگی برداشت کر سکیں میں اُن کی ناراضگی کا رسک نہیںلے سکتا۔ اب مجھے سمجھ آئی کہ جنا زہ بھی بہت لیٹ کیو ں ہوا جنا زے پر بھی بڑے صاحب کا بہت انتظا ر کیا گیا بڑے صاحب نے جنا زے کی اجا زت دی اب ہم قبرستان میں بڑے صاحب کے رحم و کرم پر تھے چند لوگوں نے دبے دبے لفظوں میں سمجھا نے کی کو شش کی کہ یہ میت کی بے حرمتی ہے جنازے کے بعد میت کو فوری طو ر پر قبر میں اتا ر دینا چاہیں لیکن لوا حقین اِسی با ت پر اڑے ہو ئے تھے کہ خاندان کے سربراہ کا آنا ضروری ہے بلکہ بہت ضروری ہے سربراہ کو بار بار فون کیا جا رہا تھا۔

آخر طویل انتظار کے بعد سربراہ اپنے حواریوں کے ساتھ پو رے کروفر کے ساتھ آتا دکھا ئی دیا لو احقین کو مرحوم کا دکھ بھو ل گیا خو شی سے چہرے کھل اُٹھے اگر میت نہ پڑی ہو تی تو یہ یقینا نعرے ما رنا شروع کر دیتے سب جا کر با ری باری مرا ثیوں کی طرح ہاتھ چوم رہے تھے سربراہ نے آکر دیر سے آنے کی کو ئی معذرت نہ کی بلکہ حکم نا مہ جا ری کیا کہ میں نے کسی اور جگہ بھی جا تا ہے جلدی جلدی میت کو دفنائو اُس کے حکم کی دیر تھی اب بر ق رفتا ری سے میت کو دفنا یا جا نے لگا دعا کے وقت سربراہ صاحب نے چند الفاظ میں دعائیہ کلما ت ادا کئے دعا ابھی پو ری طرح ختم بھی نہ ہو ئی تھی کہ سربراہ صاحب نے واپسی شروع کر دی میں شدید حیرت سے اِس بڑے صاحب کو دیکھ رہا تھا تکبر خودی میں بلکل ہی بھو ل چکا تھا کہ ایک دن اس نے بھی یہا ں آنا ہے جہاں کیڑوں مکو ڑوں نے اِس کو اپنے نظام ہضم سے گزار کر غلا ظت میں تبدیل کر دینا ہے۔


اِس بددما غ انسان کو دیکھ کر مجھے معا شرے کے بے شما ر اِسی طرح کے انسان یا د آنے لگے جو اِسی مرض میں مبتلا ہیں کہ میں بہت ضروری ہوں میرے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا بزم حیات کی رونقیں صرف میرے ہی دم سے قائم و دائم ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انبیا ء کرام کا گروہ جو حقیقت میں خلا صہ کا ئنات ہے زندگی کا نچوڑ تھا جب وہ اِس جہان ِ فانی میں نہیں رہا تو اور کون ہے جو زندہ رہے گا انسان نے اپنی بقا کے لیے لو ہے اور پتھر کے قلعے تعمیر کئے پہا ڑوں کی چوٹیوں پر شاہی محلات بنا ئے لیکن مو ت نے جب آنا چاہا اُس کو لو ہے کے پنجرے شاہی قلعے فصیلیں ڈاکٹر ہسپتال لیبارٹریاں نہ بچا سکیں تا ریخ انسانی کا کو ئی بھی دور ایسانہیں جو موت سے آشنا نہ ہو پھر بھی غافل انسان اِس میں مبتلا ہے کہ جو لو گ چلے گئے وہ غیر ضروری تھے مگر میرا یہاں رہنا بہت ضروری ہے حیران کن با ت یہ ہے کہ یہ سوچ کہ میں بہت ضروری ہوں عام آدمی سے با دشاہ تک سب میں سرائیت کر گئی ہے ‘کو ئی بھی ذی روح اِس ضروری اور اہم ہو نے سے دستبردار ہو نے کو تیار نہیں میں ضروری کا مرض اہل سیاستدان میں بہت زیا دہ نظر آتا ہے جو انی کے دور میں بر سراقتدار آنے والا بڑھا پے میں بھی مسند اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا ہے وہ سمجھتا ہے اُس کے بغیر سلطنت کا شیرازہ بکھر جا ئے گا ملک بر باد ہو جا ئے گا عوام بے سہا را ہو جا ئے گی قومی استحکام خطرے میں پڑ جا ئے گا اپنے اقتدار کو مضبو ط اور طویل کر نے کے لیے حکمران ظلم جبر کی آخری حدیں کرا س کر جا تے ہیں اِس خیال میں مست کہ میں نہ رہا تو ملک عوام کیسے رہیں گے میرے بنا دنیا کا کیا بنے گا گائوں کے معمولی چوہدری سے لے کر امریکہ کی صدارت تک ہر ایک کو یہی خما ر کہ ان کا وجود بزم دنیا کے لیے بہت ضروری ہے اور پھر اپنے ضروری پن کے لیے یہ مذہب اخلا قیات اور انسانیت کی تمام اقدار کو پا ئوں تلے روندتا چلا جا تا ہے۔

ضروری پن کے مرض میں مبتلا ہر چوہدری حکمران با دشاہ اقتدار کے ایوانوں تک تو پہنچ ہی جا تا ہے لیکن وہ اچھا انسان نہیں بن پاتا جبکہ دنیا کو چنگیز ہلا کو تیمو ر ہٹلر سکندر فرعون کی کبھی بھی ضرورت نہ تھی بلکہ ہر دور میں اچھے انسان کی ضرورت رہی ہے ایسا انسان جو خو د بھی جئے اور دوسروں کو بھی جینے کا حق دے یہ اہم نقطہ ہر دور میں اہل حق اولیا ء اللہ نے دوسروں کو سمجھا نے کی کو شش کی کہ لوگو ضروری پن کے خو ل سے جلدی نکل آئو اہل حق انسانوں کو یہ نقطہ سمجھا تے رہے کہ عام انسانوں کی تو با ت ہی کیا ہے بہت اہم جن کے کُلے K2سے ٹکراتے تھے آج منوں مٹی کے نیچے مٹی میں تبدیل ہو چکے ہیں جن انسانوں نے خاک نشینوں کی آواز پر لبیک کہا وہ سر کے خاک پر مزے کی نیند لے کر سوتے رہے اور جو اولیا ء اللہ کی پکا ر کو دل میں نہ اتا ر سکے وہ ریشمی مسہریوں پر بھی کروٹیں بدلتے رہے جو یہ راز پا گئے اُن کی کچی قبریں مرجع خلا ئق ٹھہریں اور جو بے خبر رہے ان کے شاہی مقبرے چمگا دڑوں کے گھر بن گئے جنہیں یہ حقیقت سمجھ آگئی اُن کی مٹی کی جھونپڑیاں عاشقوں کی سجدہ گا ہ بن گئیں جو غفلت کا شکا رہو ئے اُن کے شاہی محلا ت بھی عبرت کدے بن گئے فرعون اپنے زمانے کا بہت بڑا اہم اور ضروری شخص تھا لیکن دریا ئے نیل میں شکر کی طرح گھُل گیا کرہ ارض پر سینکڑوں شا ہی محلات کو اب کھنڈرات میں تبدیل ہو تا دیکھتے ہیں یہاں رہنے والوں کو بھی شدت سے یہ احساس تھا کہ ہم اس دنیا کے لیے بہت ضروری ہیں لیکن سالوں کے غبار نے عما رات اور اینٹوں کو تو سلامت رکھا لیکن اِن کے مکینوں کو گمنا می کے اندھیرے غاروں میں اتار دیا۔

آج کے عام انسانوں سے چوہدریوں سرداروں جا گیرداروں حکمرانوں مشہور لوگوں کے حضور عرض ہے کہ آپ شہرت دولت اختیار کے مزے ضرور لیں لیکن کبھی بھی اگر وقت ملے تو ملکوں کی سیر سے پلا زوں کی نقاب کستا نی سے شاندار فنکشنوں سے خاص محا فل سے بڑے لوگوں کی ملا قاتوں سے دولت کے ڈھیر لگا نے سے تھو ڑا وقت نکال کر کبھی کبھی قبرستان جا کر دیکھ لیا کر یں اِن بو سیدہ قبروں میں جو ہڈیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں یہ بھی اپنے زما نے کے بہت اہم اور ضروری لو گ تھے اپنے زما نے میں ان کو بھی ضر وری اور اہم کے مر ض نے حقیقی بصیرت سے محروم رکھا تھاورنہ آج کا انسان ما دیت پرستی میں غرق جا نور کا روپ نہ دھا ر چکا ہو تا بلکہ اپنی 19حقیقت سے آشنا ہو چکا ہوتا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website