counter easy hit

سیاسی بلوغت

ملک میں الیکشن کا دور دورہ ہے۔ الیکشن ہوگا یا سلیکشن، یہ تو وقت ہی بتائے گا کیونکہ ہماری انتخابی تاریخ الیکشن کے نام پر سلیکشن سے بھری ہوئی ہے۔ ہر مرتبہ ووٹ ڈالنے والے سے لے کر ووٹ لینے والے تک، سب اس اضطراب میں ہوتے ہیں کہ آیا میں نے جس کو ووٹ دیا ہے اسی کو ملے گا یا… اسی طرح ووٹ لینے والا بھی اس سوچ میں مبتلا ہوتا ہے کہ پتا نہیں میرے اپنے ووٹ بھی میری گنتی میں آئیں گے کہ نہیں، کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ اصل فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں؛ انتخابی عمل صرف ایک ڈراما ہوتا ہے۔

یوں الیکشن کے دن سے لے کر اگلے الیکشن کے دن تک ووٹر کی کسی بھی معاملے میں کوئی شراکت نہیں ہوتی، یوں وہ گراؤنڈ میں بیٹھے ایک تماشائی کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے جسے صرف اگلے پانچ دن میچ دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے، وہ بھی چپ چاپ۔ اگر ووٹر اس عرصے کے دوران اپنے کسی حق کےلیے آواز بلند کرے تو اس پر جمہوریت کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگتا ہے یا اسے خلائی مخلوق کا آلہ کار بننے کا طعنہ ملتا ہے۔ یوں ہماری جمہوریت کی تکمیل ہوتی ہے جس میں جمہور کا پانچ سال تک کوئی رول نہیں ہوتا۔ الیکشن کے زیادہ تر معاملات اسٹیبلشمنٹ طے کرتی ہے، باقی رہی سہی کسر دھن، دھونس اور دھاندلی فیکٹر نکال دیتا ہے۔

‎گزشتہ برس فرانس میں صدارتی الیکشن ہوا جس میں ایک نوجوان ٹیکنوکریٹ ایمینوئل میکرون تقریباً پینسٹھ فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوا۔ مگر حکومت کو ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے اور ہڑتالیں شروع ہوگئیں، یہاں تک کہ فرانس کی ریلوے پچھلے دو ماہ سے ہڑتال پر ہے۔ صدر کی غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف قانون سازی بھی اس کے خلاف مظاہروں کا سبب بنی، حتیٰ کہ اس کی اپنی پارٹی کے ایک سینئیر ممبر پارلیمنٹ نے نہ صرف اس قانون کے خلاف ووٹ دیا بلکہ پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ کا اعلان بھی کر دیا۔ مگر آج کے دن تک ایمینوئل میکرون یا اس کی جماعت نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘، ’’خلائی مخلوق‘‘ یا ’’جمہوریت کے خلاف سازش‘‘ کا نعرہ نہیں لگایا، بلکہ مذکرات سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

‎ہمارے ملک میں جیسے جمہوریت کا نام صرف الیکشن رکھ دیا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح سیاسی شعور کو بھی صرف ووٹ کا نام دے دیا گیا ہے، حالانکہ سیاسی شعور الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا الیکشن والے دن۔ ووٹر کےلیے، امیدوار کےلیے صرف اتنا ہی جاننا ہر گز کافی نہیں کہ وہ کون سی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا ہے بلکہ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ وہ جس جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا ہے اس جماعت میں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی استعداد ہے، اس جماعت کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی، وہ جماعت ملکی معیشت کو کیسے بہتر کر سکتی ہے، ملک کو درپیش دیگر چیلنجز کے حل کےلیے کوئی جامع حکمت عملی بھی رکھتی ہے یا نہیں، یہ سارے امور ووٹ دیتے وقت ووٹر کے مدنظر ہونے چاہئیں۔

‎ہمارے ملک میں موجودہ انتخابی نظام جو صرف جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کےلیے بنا ہوا ہے، اس میں ووٹ کے ساتھ ساتھ ووٹر کے سیاسی شعور کو بھی خرید لیا جاتا ہے۔ غربت، برادری، لالچ اور خوف، یہ چاروں عناصر جس معاشرے میں تقویت پاجائیں وہاں کچھ بھی ہو مگر جمہوریت نہیں ہوسکتی؛ اور ان ہی عناصر کو ہتھیار بنا کر عوام کو سیاسی بانجھ بنا دیا جاتا ہے۔ غریبوں کی نمائندگی کا نعرہ سرمایہ دار لگارہا ہوتا ہے اور ادھر جاگیردار کسانوں کی نمائندگی کا ڈھونگ رچاتا ہے۔ مگر الیکشن کے بعد نہ سرمایہ دار کو غریب کے مسائل کی پروا ہوتی ہے نہ جاگیردار کسانوں کو گھاس ڈالتے ہیں۔ بلکہ “جمہوریت چلتی رہے‘‘ کے منشور پر حکومت کو پیارے ہوجاتے ہیں اور کئی کئی ماہ اپنے حلقے کا وزٹ کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

‎اگر یونہی ہماری جمہوریت پروان چڑھتی رہی اور جمہور پہلے کی طرح پستے رہے تو آہستہ آہستہ جمہور کا اس نام نہاد جمہوریت سے اعتبار بالکل اٹھ جائے گا جو پہلے ہی اتنا زیادہ نہیں۔ لہٰذا اگلے الیکشن میں عوام کی صرف ووٹ کی حد تک شمولیت کے بجائے نظام میں وہ بڑی تبدیلیاں لانی ہوں گی جن سے عوام بھی پورے پانچ سال اس نظام کے شراکت دار ٹھہریں اور الیکشن سے پہلے اور بعد میں حکومت کا مواخذہ کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہوں۔