counter easy hit

سانحہ پولیس لائن، پیشگی اطلاع کے باوجود غفلت

Police Line Attack

Police Line Attack

تحریر: ممتاز اعوان
سانحہ پشاور کے بعد فوج، حکومت، اپوزیشن سب دہشت گردی کے خلاف متحد ہوئے اور نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی جس کے تحت دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے حکومتی دعوے روزانہ اخبارات کی زینت بنتے ہیں لیکن افسوس کہ پشاور میں سکول پر حملے کے بعد پشاور میں ہی امام بار گاہ اور پھر شکار پور سندھ اور اسکے بعد دہشت گردوں کا ہدف پولیس لائن لاہور ٹھہرا۔حکومت جہاں دہشت گردوں کے خلاف کامیابی کے بلند وبالا دعوے کر رہی ہے تو دوسری طرف دہشت گرد بھی اپنے مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مصروف اور حکومت کے لئے ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔سانحہ پشاورکے بعد دہشت گردوں کی تین صوبوں میں سخت ترین سیکورٹی کے باوجود کاروائیاں حکومتی کار کردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایمپرس روڈ پر قلعہ گجر سنگھ پولیس لائنز کے باہر خودکش حملے میں سب انسپکٹر اور کانسٹیبل سمیت 5افراد شہید اور خاتون ،2 بچوں، پولیس اہلکاروں سمیت 29افراد شدید زخمی ہو گئے ، 10گاڑیاں اور 20سے زائد موٹر سائیکلیں تباہ ہو گئیں ، دھماکا اس قدر خوفناک تھا کہ 15سے زائد دکا نوں ، دفاتر کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔2015کا لاہور میں یہ پہلا خودکش دھماکہ ہے ،اس سے 4ماہ قبل واہگہ بارڈر پر بھی ایک خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں 60 افراد شہید ہوئے تھے۔ انٹیلی جنس اداروں نے لاہور اور پنجاب پو لیس کو پو لیس لائنز اور بی بی پاک دامن کے مزار پردہشت گردی کے خطرات کے حوالے سے آگاہ کر دیا تھا لیکن اسکے باوجودپو لیس لائنز کے قر یب ہی خود کش دھماکہ ہوا اور پولیس لائنز کی سیکورٹی کے لئے لگائے گئے اکثر کیمرے خراب تھے۔

دہشت گردی کی ان کاروائیوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ایک ہفتہ قبل پاک فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل عاصم باجوہ نے پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ بلوچستان،فاٹا و دیگر علاقوں میں ہونے والی کاروائیوں میں بھارت کا ہاتھ ہے ۔وزیراعظم نواز شریف بھی لاہور میں سی پی این ای کے اعزاز میں ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے یہ فرما رہے تھے کہ دہشت گردی میں”بیرونی ہاتھ” ہے لیکن وہ اس ہاتھ کا نام لیتے ہوئے شاید گھبرا رہے تھے ۔ماضی میں بھی اس بات کو کھل کر بیان کیا گیا ،ان کیمرہ اجلاسوں میں اس بات کے ثبوت دیئے گئے کہ انڈیا ایک طرف لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کر کے پاکستا ن کو الجھا رہا ہے تو دوسری طرف وطن عزیز کے اندر ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں کے پیچھے بھی انڈیا کا ہاتھ ہے۔دشمن قوتیں ایک سازش کے تحت پاکستان کے حالات خراب کررہی ہیں۔ملک میںجاری حالیہ دہشت گردی کی فضاء میں بیرونی ہاتھ کوخارج از امکان قرار نہیں دیاجاسکتا۔تمام پہلوئوںکے حوالے سے تحقیقات ہونی چاہئیں۔ حکومت آگ وخون کے اس سنگین کھیل میں ملوث افراد کوجلداز جلد گرفتار کرکے منطقی انجام تک پہنچائے۔نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی جنگ پاکستان کے گلی ،محلوں اور کوچوں تک پہنچ چکی ہے۔50ہزار سے زائد بے گناہ قیمتی جانوں کے ضیاع اور100ارب ڈالر کے معاشی نقصان کے باوجود پاکستان کوشک کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔دشمن ممالک پاکستان کے اندر انتشاراور انارکی کوپھیلانے کے لئے سرگرم ہوچکے ہیں۔”ڈی جی آئی ایس پی آر”کی جانب سے پاکستان میںہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں اور طالبان کے پیچھے بھارت کی نشاندہی کرناتشویش ناک ہے۔

ایک طرف ہندوستان سی آئی اے اور موساد کے ساتھ مل کر پاکستان کی سلامتی کے خلاف کام کررہا ہے تو دوسری جانب پاکستانی حکمران مودی کے ساتھ دوستی اور تجارت کی خاطرقومی مفادات کوبھی نظر اندازکرچکے ہیں۔ ملک میں16دسمبرکے بعد سیاسی جماعتوںنے ایک مثالی اتحاد کامظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان سے دہشت گردی ختم کرنے کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا اور نیشنل ایکشن پلان بھی منظور کیا لیکن تمام تر اقدامات، اعلانات اور دعوئوں کے باوجود پشاور میں دوماہ سے کم عرصے میں ایک بڑاواقعہ رونما ہوناحکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔پوری قوم شدید اضطراب، اذیت، صدمے، دکھ اور پریشانی کاشکار ہے۔فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب تیز کرنے سے دہشت گردوں نے معصوم عوام کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ،شکار پور اور پشاور سانحہ کے بعد اب لاہور میں دہشت گردی کی واردات کی جس میں عوام اور پولیس ملازمین ان کا نشانہ بنے۔پاکستان میںدہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہور ہی ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے ان دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے تاکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے بند دروازے دوبارہ کھل سکے۔ پاکستان میں دہشت گردی ملک دشمن قوتوں کی ایک سوچی سمجھتی سازش ہے ۔لاہور میں دہشت گردی کا واقعہ اس وقت رونما ہوا جب ترکی کے وزیراعظم پاکستان میں ہیں اور پاک ترک تجارتی اور سرمایہ کاری کے معاہدے ہو رہے ہیں۔دہشت گرد پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان معاشی طور پر تباہ ہو جائے اور معاشی ترقی کے تمام راستے بند ہو جائیں لیکن حکومت اور پاک فوج کے اکٹھے ایک پلیٹ فارم پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں سے ملک دشمن طاقتیں بوکھلا گئی ہیں، اس لئے اب وہ پولیس اور فوج کے علاوہ معصوم عوام کو بھی اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

سکیورٹی فورسز کے جوان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں مگر اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کوبھی اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ دہشت گردوں کی جانب سے اپنے مطلوبہ اہداف کو باآسانی نشانہ بنالینا بہت تشویشناک ہے ۔ دہشت گردی پاکستان کو غیر مستحکم اور عالمی برادری کی نظر میں غیر محفوظ ملک کا تاثر ابھارنے کی گھنائونی سازش ہے جسے سختی سے ناکام بنانا ہوگا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے باہمی مشاورت سے ایک نئی قا بل عمل پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے ۔پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر بننے والا ملک ہے اس کے خلاف ہونے والی تمام سازشیں د م توڑ جائیں گی اگر حکمران مخلص رہیں اور ہر اس ہاتھ کو توڑ ڈالنے کا عزم کریں جو پاکستان کی طرف بڑھے۔ایک ایسی مضبوط پالیسی ہو جس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔

جب حساس اداروں کی طرف سے دھماکے کی پیشگی رپورٹ آ جاتی ہے تو حکومت کاروائی کیوں نہیں کرتی۔واہگہ دھماکے میں بھی پہلے اطلاع مل چکی تھی اس کے باوجود دہشت گردوں نے اپنا ہدف نہیں بدلا اور اب پولیس لائن دہشت گردی کی پیشگی اطلاع کے باوجود حکومتی سستی،غفلت یا بے حسی عیاں نظر آتی ہے۔اگر حکومتی بے حسی کا یہی سلسلہ چلتا رہا تو پھر نیشنل ایکشن پلان ایک نہیں دس بنا لئے جائیں کچھ نہیں ہو گا۔دہشت گردوں کے خلاف ایکشن کے لئے جب پوری قوم متحد ہے اور عوام امن چاہتی ہے تو ایوانوں میں سخت ترین سیکورٹی میں بیٹھنے والے حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ ملک کی عوام کا سوچیں ۔اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو آئندہ کے لئے عوام انہیں محفوظ ترین ایوانوں میں نہیں پہنچائے گی۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472