counter easy hit

پناما کیس کا فیصلہ عوام کی توقعات اور قائدین

ملک میں سب سے بڑی عدالت کا سب سے بڑا فیصلہ پناما کیس کا فیصلہ بلآخر آ ہی گیا اس فیصلہ کو سننے کے لئے جہاں دنا بھر کے لو منتظر تھے وہاں پاکستان کے 20کروڑ عوام بھی بڑی بے چینی سے اس فیصلہ کے منتظر تھییہ فیصلہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کے مستقبل کا بھی فیصلہ تھا اب لوگ کیا چاہتے تھے یہ بعد کی بات ہے 20اپریل کو جو صورتحال دیکھنے کو آ رہی تھی بڑی دلچسپ اور سنسنی خیز تھی یو لگتا تھا ہے یہ فیصلہ عوام کی تقدیر کا فیصلہ ہے کئی صحافی بھائیوں کے تکے بھی درست نکلے یوں فیصلہ منظر عام پر آ گیا عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو کلیم چٹ تو نہ دی بلکہ انہیں نااہلی کی لٹکتی ہوئی تلوار سے بھی بچا دیا جسے مسلم لیگ ن کے کارکن اپنی فتح تصور کر رہے ہیں۔

جبکہ تحریک انصاف کے کارکن ان دو جج صاحبان کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے جنہوں نے نواز شریف کی نااہلی کا نوٹ لکھاان کے مطابق باقی تین جج صاحبان نے بھی اس نوٹ کی مخالفت نہیں کی اس لئے نواز شریف اب صادق و امین نہیں رہے انہیں استعفیٰ دینا چاہیے فیصلہ سے قبل تمام پارٹیاں سپریم کورٹ پر اعتماد کر رہی تھیں اور ان کا ہر فیصلہ تسلیم کرنے کو تیار تھیں فیصلہ آنے کے بعد جہاں تحریک انصاف نے ان دو جج صاحبان کا فیصلہ تو تسلیم کر لیا جنہوں نے نواز شریف کی نااہلی کا نوٹ لکھا پاقی فیصلہ جو ان کے حق میں نہیں گیا ماننے کو تیار نہیں شیخ رشید اور تحریک انصاف کے بڑے قائدین جب کے ہوتے ہوئے عمران خان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں انہیں دیوار سے لگانیکی کوئی کوشش اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے رہیاب تو جو جلے کسی سکرپٹ کا حصہ ہیں وہ انہیں توہین عدالت کا مرتکب نہ بنا دیں اور خان صاحب کو حوالات یا جیل تک لے جائے جو ان کی برداشت سے باہر ہو گا جیل جانا ان کے بس کی بات نہیں مجھے یاد ہے شیخ رشید نے بھی جیل کو اپنا سسرال قرار دیا۔

جب وہ جیل گئے تو ان کی توبہ بھی دیکھنے کے قابل تھی کہیں شیخ جی انہیں اسی سسرال میں دیکھنا تو نہیں چاہتے بحرحال انہیں خود ہی سوچنا ہو گا یہ رائے نہ صرف میری ذاتی ہے بلکہ عوام کی بھی ہے فیصلہ کے بعد کی صورتحال بھی جوں کی توں ہی ہے لیڈران سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی احتجاجی سیاست پر قائم ہیں کوئی نواز شریف سے مستعفی ہونے کا اعلان کر رہا ہے اور کوئی سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے کو تیار ہی نہیں وہ اسی صورت میں فیصلہ قبول کرتے جب عدالت عظمی نوز شریف کو نا اہل قرار دیتی چاہے اس کا کوئی جرم ہوتا یا نہ ہوتا کہونکہ یہ ان لیڈران کی ضد تھی اور وہ اس ضد کو ہر صورت میں منوانا چاہتے تھے آصف علی زرداریکے خیال کے مطابق پیپلز پارٹی کو سپریم کورٹ سے کبھی انصاف نہیں ملا انصاف ان کے نزدیک کس چیز کا نام ہے سمجھا جا سکتا ہے شائد ان کا خیال ہو کہ وہ کریپشن کریں تو شور مچ جاتا ہے اور نواز شریف کریپشن نہ بھی کرئے تو اسے سزا نہیں ملتی جماعت اسلامی تو بغیر کسی وجہ کے ہی استعفیٰ مانگنے پر مجبور ہے اب عوام کو لیجیے جن کو عدالت عظمیٰ سے جاری ہونے والا فیصلہ سمجھ ہی نہیں آ رہا ملک بھر میں بڑے بڑے لوگ چکرا گئے ہیں۔

فیصلہ نے جہاں دیگر پارٹیوں کی امیداوں پر پانی پھیر دیا ہے وہاں متوالوں کی خوشی کی انتہا نہیں ہے وہ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں جو تحریک انصاف نے بھی کئیں جب ان کو سمجھ آیا کہ فیصلہ تو ان کے خلاف ہے انہوں نے مٹھائیاں بانٹنے والوں اور کھانے والوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور رات بھر سوچتے رہے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے یا نواز شریف کے اب جو کچھ ہو چکا ہے مخالفین اور حکومت کو شیک ہینڈ کرنا چاہیے اور اگر وہ مخلص ہیں تو مل کر ایک قانون بنا دیں کہ جو کریپشن کرئے گا اس کی سزا موت ہو گی اس سے کم از کم کریپشن کے خاتمے میں کوئی پیش رفت ہو گی۔

میرا خیال نہیں کہ میرے اس مشورہ سے ہمارے لیڈران متفق ہوں کیونکہ میرے خیال میں کھایا اسی نے نہیں جس کو ملا نہیں ورنہ پالستان میں چپڑاسی سے لیکر بڑے عہدوں پر فائز لوگ بھی اس گنگا میں اگر نہائے نہیں تو ہاتھ منہ ضرور دھویا ہو گا اب پاکستان کو دہشت گھردی جیسے مسائل کا سامنا ہے دشمن ہماری اس بے تکی لڑائی سے مستفید ہونے کو بے چین بیٹھا ہے اور حکومت کو بھی ایک سال باقی ہے لیڈران مل کر ملک دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کی ترقی کے لئے کام کریں اور عوام کو بھی باور کرائیں کہ وہ پاکستان کے حامی ہیں اصل صورتحال میں آج بھی نواز شریف مقبول ہے اور اگر انہوں نے باونگیاں بند نہ کیں تو اگلا الیکشن بھی نواز شریف ہی جیتے گا اور انہیں صرف احتجاج ہی ملے گا انہیں جہاں کہیں بھی موقع ملا ہے عوام کی خدمت کریں ملک کو مسائل سے نکالنے کی کوششیں کریں تو میرا خیال ہے کہ عوام کا اعتماد تم پر بحال ہو جائے گا ورنہ عوام نئے پاکستان کا سنگ بنیاد ایسے ہی رکھیں گے جیسے چکوال کے باسیوں نے رکھ کر مسلم لیگ ن پر اعتماد اور دیگر پارٹیوں کو مسترد کیا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website