counter easy hit

پاکستان کا ہائیڈ پارک

71سال سے پاکستان میں آزادی صحافت اور اظہارِ رائے کے حصول کی جدوجہد جاری ہے۔ اخبارات پر مکمل پابندی سے لے کر چینلوں کی بندش تک، صحافیوں پر کوڑے برسانے سے اُن کے قتل تک ہر دور میں کوئی نہ کوئی حربہ ضرور استعمال ہوا آواز دبانے کا۔ اب تو معاشی قتل نے میڈیا کے کارکنوں کی اپنے حقوق کی لڑائی کی سکت بھی کمزور کردی ہے۔ ایسے میں جبکہ ایک ’صحافت‘ مخالف بیانیہ، تشکیل دیا جارہا ہے، آج بھی ایک جگہ ایسی ہے جہاں گھٹن کے ماحول میں سانس لی جا سکتی ہے۔ ایک ایسا ادارہ، جس کے بارے میں جناب فیض احمد فیض نے ایک دفعہ کہا، ’’جو کام اِس ملک میں پریس کو کرنا تھا وہ کراچی پریس کلب نے کیا‘‘۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ اُس کو پاکستان کا ہائیڈ پارک کہتے ہیں۔

اُس کا قیام 1958 کراچی یونین آف جرنلٹس (کے یو جے) کی ایک قرارداد کے ذریعے عمل میں آیا، جس کا پہلا ڈرافت پی ایف یو جے سکے پہلے صدر جناب ایم اے شکور نے تیار کیا اور پھر جناب اقبال برنی مرحوم کی سربراہی میں قائم ایڈہاک کمیٹی نے پہلے الیکشن کروائے۔ پچھلے 61 سالوں میں 60 الیکشن اُس کے جمہوری ہونے کا ثبوت ہے۔ روشن خیالی، برداشت، بھائی چارہ اور جمہوری اقتدار یعنی وہ چیز جو ہمارے معاشرے میں ناپید ہوتی جارہی ہے، آپ کو یہاں ملے گی چاہے آپ کا تعلق کسی بھی نظریے سے ہو۔ اُس کی روایتوں میں آزادی صحافت اور سیاسی آزادیوں کی تحریکیں شامل ہیں۔ اخباری کارکنوں اور مزدوروں کے معاشی حقوق کے حصول کے لئے بھی اُس کا کردار تاریخی رہا ہے۔ 1970 کی صحافیوں کی دس روزہ ہڑتال جب پورے ملک میں کوئی اخبار نہیں چھپایا، 1978 کی اخبارات پر بندش اور سنسر شپ کیخلاف جدوجہد کراچی پریس کلب گڑھ رہا۔ جب جنرل مشرف کے دور میں 3 نومبر 2007 کو نیوز چینل بند کردیئے گئے تو اِس تحریک میں دو سو صحافیوں نے گرفتاری دی۔

پی ایف یو جے کی قیادت میں تحریکیں پورے ملک میں چلیں مگر محور کلب ہی رہا یہی نہیں ملک میں بیشتر سیاسی تحریکیوں کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔ سخت پابندیوں میں ایک یہی جگہ تھی جہاں لوگ آزادی کے ساتھ اپنی بات کر سکتے تھے اور آج بھی کر سکتے ہیں۔ ایوب آمریت سے لے کر ضیاء آمریت تک جنرل مشرف سے لے کر آج تک، جس نے اظہار رائے پر پابندی لگائی کلب نے اپنا پلیٹ فارم رائے دینے کے لئے مہیا کیا۔ قومی اتحاد کی تحریک سے ایم آر ڈی کی تحریک تک اس کے دروازے جمہوریت پسندوں کے لئےہمیشہ کھلے رہے۔ جو کچھ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں ہوا۔ اُس کی مثالیں مشکل سے ملیں۔ اِس دوران کراچی پریس کلب کا کردار نمایاں اور بے مثال رہا۔ ان 11 برسوں میں صحافت پر ہی نہیں، شاعروں، ادیبوں پر بھی پابندی رہی۔ کچھ دانشوروں کو ایم آر ڈی کی تحریک کی حمایت اور سندھ میں ریاستی طاقت کے استعمال پر بیان دینے پر نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ایسے میں کلب سے اعلان بغاوت بلند ہوا۔

اچانک ایک دن پتا چلا کہ حکومت نے شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی پر ان کے ریڈیو پاکستان کو دیئے گئے ایک انٹرویو کو بہانا بناکر پابندی عائد کردی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ یہ ان کی زندگی میں نشر نہیں ہوگا، کلب نے اس اقدام کی سخت مذمت کی اور اعلان کیا کہ جوش صاحب کو تاحیات ممبر شپ دی جائے گی۔ اِس سلسلے میں ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی جس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر کرار حسین مرحوم نے کہا ’’جوش پر پابندی ادب پر پابندی ہے‘‘۔ تصور کریں اِس ملک میں کیا کیا ہوتا رہا ہے۔

ایسی ہی ایک یادگار تقریب شاعر عوام حبیب جالب کے اعزاز میں کی گئی اس موقع پر ایک دلچسپ واقعہ آج تک مجھے یاد ہے۔ کلب کا بیک یارڈ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کئی سیاسی رہنما، شاعر اور ادیب بھی موجود تھے۔ اتنے میں اُس وقت کے پی ٹی وی کے مشہور پروگرام نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز صاحب تشریف لائے۔ ان کی جالب سے پرانی شناسائی تھی، جب وہ پی پی پی میں ہوا کرتے تھے۔ وہ اسٹیج پر آکر اپنے دوست کی شان میں کچھ کہنا چاہتے تھے مگر وہاں موجود بہت سے لوگوں نے نعرے لگانا شروع کردیئے۔ جالب صاحب نے سمجھانے کی کوشش کی کہ اسے بول لینے دو مگر غصہ یہ تھا کہ اُنہوں نے کچھ دن پہلے جنرل ضیاء کا انٹرویو کیا تھا۔ احتجاج کرنے والوں نے کہا کہ آمر کی مداح سرائی کرنے والے کو ہم اپنا اسٹیج نہیں دیں گے۔ مجبوراً اُنہیں وہاں سے جانا پڑا۔ جالب نے کہا ’’طارق یہ عوام ہیں، اِن کے سامنے میری بھی نہیں چلتی‘‘۔ غرض یہ کہ جب جب سرکار نے کسی ریاستی پالیسی کے تحت سوچ پر پہرے لگائے اور سرکاری میڈیا پر ایسی آوازیں بند کروائیں ان سب کے لئے کلب کا دروازہ کھول دیا گیا۔ فیض صاحب کا تعلق اس کلب سے اتنا ہی پرانا تھا ’’جتنا پرانا یہ کلب لیکن جب ان پر ضیاء دور میں پابندی لگی تو کلب نے ان کی 70ویں سالگرہ منانے کا فیصلہ کیا اور اس موقع پر ان کو اعزازی ممبر بنایا۔ اسی تقریر میں انہوں نے وہ تاریخی جملہ کہا جو میں کالم کے شروع میں بیان کر چکا ہوں۔ کلب کے تاحیات ممبران کی فہرست میں بڑے بڑے نام موجود ہیں، جن کا تعلق مختلف شعبہ زندگی سے ہے۔ اِن میں ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر ادیب رضوی، مولانا عبدالستار ایدھی، پاکستان کے نامور کرکٹرز عمران خان (جواب وزیراعظم ہیں) جاوید میاں داد، وسیم اکرم ، کپل دیو، سنیل گواسکر، سری کانت شامل ہیں۔

کلب کے سینئر ہمیشہ اس کا فخر رہے ہیں۔ ہاں کچھ باتوں میں ہم کچھ بے ادب ہو گئے ہیں۔ پہلے کوئی جونیئر ممبر کسی سینئر کو دیکھتا تھا تو اگر ہاتھ میں سگریٹ ہوتی تو ہاتھ پیچھے کر لیتا تھا۔ ممبران تو اپنی جگہ یہاں کے ویٹر بھی فیملی سمجھے جاتے ہیں۔ پرانے لوگوں میں قیوم اور ستار اب بھی زندہ ہیں۔ جس واقعہ پر یہ کالم ختم کرنا چاہتا ہوں وہ ہمارے مرحوم ساتھی گرداس ودوانی کا ہے۔ ان کو ہم گرو کہتے تھے۔ 1971 کی جنگ میں ان کو گرفتار کرلیا گیا کچھ دن بعد رہا ہوکر آئے تو ممبران نے دریافت کیا، گرو کیا ہوا تھا، مسکرا کرکہنے لگے ’’یار لوگوں کو شبہ تھا کہ میں جاسوسی کررہا ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ بھائی یہ میرا وطن ہے، گھر ہے، کبھی کوئی اپنے گھر کی بھی جاسوسی کرتا ہے‘‘۔

بھارت کے نامور صحافی جناب کلدیپ نائر نے ایک بار یہاں کے دورہ کے موقع پر کہا ’’اگر ہمارے یہاں ایسی کوئی جگہ ہوتی تو اندرا گاندھی کو اخبارات پر پابندی کی جرات نہ ہوتی‘‘۔

اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا

کام اب رہ گیا اپنا ہی بغاوت لکھنا