counter easy hit

پاکستانی نیوز چینل …بے شرمی کا مسکن

Pakistani News Channels

Pakistani News Channels

تحریر: گل عرش شاہد
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کو عالمی ادارے صحافت کے لئے خطرناک ترین ملک تصور کرتے ہیں،اسی ملک میں ڈینئل پرل نامی امریکی صحافی کا قتل ہوا،ولی خان بابر کا قتل بھی قابل ذکر ہے،ویسے تو پاکستان کے موجودہ حالات اس درجہ خراب ہوگئے ہیں کہ گھر سے نکلنے والا کوئی بھی شخص اس سوچ کے ساتھ گھر سے نکلتا ہے کہ معلوم نہیں واپس آنا بھی ہو پائے گا کہ نہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ اسلامی سوچ رکھنے والے انتہا پسندوں کا کام ہے جو معصوم پاکستانیوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیل کر تشدد بھرا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں،کچھ کا خیال یہ ہے کہ اس قسم کی واردات پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیاں کرواتی ہیں تاکہ کسی خاص مسئلے سے عوام الناس کی توجی ہٹائی جاسکے۔لوگوں کا ایک گروہ اسے دشمن ملک بھارت کی سازش قرار دیتا ہے،کچھ ان میں امریکی سی آئی اے کو بھی مجرم قرار دیتے ہیں اور ایک گروہ کہتا ہے کہ اس قسم کی کاروائیاں یہ لوگ یا ادارے خود ہی کرواتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں دنیا بھر میں سستی شہرت بہت آسانی سے مل جاتی ہے۔بہرحال ہم تو اتنا ہی کہیں گے کہ جتنے منہ اتنی باتیں،کیونکہ کبھی بھی ہم نے غیر جانبدار ہوکر یہ نہیں سوچا کہ آخر یہ سب صرف پاکستان ہی میں کیوں ہوتا ہے ،دنیا میں قریباًدو سو ملک ہیں مگر ایک واحد پاکستان ہی ایسا کیوں ہے کہ یہاں انسانی خون اتنا سستا ہوگیا ہے۔

کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا ؟ نہیں …کبھی بھی نہیں کیونکہ ہم نے ہمیشہ ہی اس بات پر آنکھ بندھ کرکے یقین کرلیا جو ہم سے ہمارے میڈیا یا سیاستدانوں نے کی۔اور نتیجہ اس کا آج سامنے ہی ہے کہ اپنے ہی پرآج دشمن بن گئے ہیں۔پاکستان میں ویسے تو بے شمار نیوز چینل ہیں ،ہر کسی نے اپنی ایک الگ دکان کھول رکھی ہے ، اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی تگ ودو میں سچ اور جھوٹ،حلال و حرام کی تمیز کھو دی ہے اور ہر جائز یا ناجائز طریقے سے لوگوں میں مرچ مصالحہ لگا کر خبریں پھیلائی جاتی ہیں،اتنا بھی نہیں سوچا جاتا کہ صحافت ایک ایسا مقدس فریضہ ہے جسکے متعلق قرآن مجید میں بھی آیا ہے کہ اے نبی پاکۖ !اگر کوئی فاسق بھی آپ کے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اسکی تحقیق کرلیجیئے۔مگر پیسہ کمانے اور دوسرے ادارے سے آگ بلکہ سب سے آگے رہنے کی حوص نے مسلمان صحافیوں سے انکا دین ہی چھین لیا ہے۔پاکستان میں اگر کہیں کسی موٹر سائیکل کا ٹائر بھی پھٹ جائے تو بناء تحقیق کیے خبر نشر ہوجاتی ہے کہ فلاں علاقے میں بم دھماکہ سنا گیا ہے ،پھر خود ہی کچھ دیر بعد سچائی سامنے لے آتے ہیں ،حد تو یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے شرم تو دور بلکہ مزاق میں بات گھمادی جاتی ہے۔کیا یہی ہماری اقدار ہیں؟کیا یہی ہے آج کا مسلمان؟کیا اسی دن کے لئے قائد اعظم نے لاکھوں قربانیوں کے عوض پاکستان حاصل کیا تھا ؟افسوس ہوتا ہے کہ جبملت محمدیہ کی ایک بیٹی کفری سامراجوں کے حوالے کی جاتی ہے اور ہمارا میڈیا اسے دہشتگرد قرار دیتا ہے،افغانستان اور کشمیر میں مجاہدین اﷲ کی راہ میں مسلمانوں کے مستقبل کو شریعت کے عین مطابق بنا دینے کے لئے جہاد و قتال کرتے ہوئے شہادت کی موت پاتے ہیں مگر پاکستانی میڈیا ان عظیم مسلمانوں کو انتہا پسند قرار دیکر ہلاک کردیے گئے کے الفاظ سے نوازتے ہیں۔

پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے ،اصولاًیہاں اسلامی ماحول ہونا چائیے تھا ،جو لوگ میڈیا کہ اندر موجود ہیں جنکا کام نیوز اینکرنگ کا ہے ،بالخصوص انکے لئے اسلامی لباس ہونا چائیے تھا ،اگر لباس میں پردہ کرنا اتنا ہی ناگوار ہے تو کم از کم عورتوں کے لئے سروں پر دوپٹہ لازمی ہونا چائیے تھا مگر آج کی پاکستانی فیمیل نیوز اینکر جب تک اچھی طرح خود کی نمائش نہ کرلے وہ ایک اچھی اینکر بن ہی نہیں سکتی،اسلام میں عورت کو آزادی دی گئی ہے مگر خود کو نمائش کے لئے رکھ دینا کونسی شرافت ہے ؟میں ان نیوز اینکرز کا نام لیکر انکی عزت نفس مجروح نہیں کرنا چاہتا مگر اتنا کہنا چاہونگا کہ اﷲ کے لئے اپنی عاقبت نہ بگاڑو۔آج کل کے مورننگ شوز میں فحاشی اور عریانی کا بازار گرم ہے،کچھ لوگ اس مقدس فریضئہ صحافت کو اپنی خواہشات نفسانی کو پورا کرنے کی خاطر ناپاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔پاکستان میں میڈیا کی ایکٹیویٹیزپر چیک اور بیلینس رکھنے کے لئے حکومت پاکستان کے سایہ تلے ایک ادارہ موجود ہے جسے ہر خاص و عام پیمرا کے نام سے جانتا ہے،اس ادارے کا کام پاکستانی میڈیا میں پائی جانے والی ہر بات پر نظر رکھنا ہے،پاکستان کے مسلمانوں کی اساس دین اسلام ہے،اور موجودہ دور میں ہم اپنی اسلام اقدار کھوتے جارہے ہیں کیونکہ ہم نے مغربی اقوام کے نقش قدم پر چلنا شروع کردیا ہے،مغربی ممالک میں پردہ تو کچھ ہے ہی نہیں،انکا بس چلے تو وہ تو میڈیا پر برہنہ بھی آسکتے ہیں کیونکہ ہر وہ بات جو گناہ کے ضمرے میں آتی تھی اسکو مغرب نے تحفظ دینے کے لئے قانونی شکل دیدی ہے۔انکے معاشرے میں برہنہ رہنا بھی ایک فیشن ہے تو کیا ہم بھی اسی فیشن کی طرف تو نہیں جارہے ؟آج اگر ہم غور کریں تو ہمارے ملک کی خواتین اینکرز اتنے چست کپڑے پہنتی ہیں کہ انکے جسم صاف ہوجاتا ہے۔معزرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کی پاکستانی خواتین نیوز اینکر خود کو ایک ڈیکوریشن پیس سمجھ بیٹھی ہے کہ ٹی وی پر لوگ اسے دیکھ کر کہیں کہ واہ کیا لڑکی ہے، اسکی ڈریسنگ تو دیکھو ،ارے واہ اسکا میک اپ دیکھو کتنی سمارٹ ہے ،جبکہ قرآن میں اﷲ خود فرماتا ہے کہ بیشک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر بنایا ہے (سورئہ طین)،تو کیا ضرورت ہے مصنوعی چیزیں استعمال کی جائیں ،کیا آپ کو اﷲ سے زیادہ سمجھ ہے ؟یہ سب شیطانوں کے کام ہیں ہمارا دین عورت کو محفوظ بناتا ہے ناکہ ایک شو پیس۔کیا مسلمان عورت آج اتنی زیادہ موڈرن ہوگئی ہے کہ اسے اپنی عاقبت ہی یاد نہیں رہی؟بناء دوپٹے کے انتہائی چست کپڑے پہن کر انہیں ایسا کیا زہنی سکون مل جاتا ہے۔

یا یوں کہیں کہ کہیں خود کو شو پیس بنا کر اپنے جسم کی نمائش کرنے پر ہی انہیں تنخواہیں ملتی ہونگی،جو جتنا اوپن ہوگا اسکی تنخواہ اتنی ہی۔اگر ایسا ہے تو انتہائی معزرت کے ساتھ اﷲ کی لعنت ہو اسیے پیسوں پر جو ایک مسلمان عورت کو برہنہ کردے۔یہ کھلے عام اﷲ اور اسکے رسول ۖ کی دی ہوئی تعلیمات کی نفی ہے،اور کھلا اعلان جنگ ہے اﷲ سے۔اب تھوڑی بات ہمارے میڈیا کے میل اینکرز کی ہوجائے تو اﷲ رحم فرمائے ان پر نہ جانے عورت بننے کا اتنا شوق ہوگیا ہے کہ جو میک اپ عورتیں اپنے لئے خوبصورتی کی علامت سمجھتی تھیں آج وہی سب یہ مرد حضرات بھی فخریہ استعمال کرتے ہیں،نام مسلمانوں والے ضرور ہیں مگر ہر روز چکنے گڑھے بن کر شیئو کرکے جاتے ہیں تاکہ بد صورت نہ ہوجائیں،جبکہ مسلمان مرد کی خوبصورتی کو اﷲ کے نبی ۖ نے داڑھی رکھنے میں فرمایا ہے۔لباس اگر دیکھا جائے تو وہ بھی ماشاء اﷲ ہر لحاظ سے مغرب کے نقشے قدم پر نظر آتا ہے۔اﷲ ہی انہیں ہدایت دے ورنہ نبی پاک ۖ کی حدیث مبارکہ ہے کہ جو شخص جس قوم کہ مشابہت کرے گاقیامت کے دن اسکا انجام اسی کے ساتھ ہوگا۔(صحیح بخاری)ناچ گانے اور فحش سین کے بنا بھی ہم ایک ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں اور ویسے بھی کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنی بنیاد سے نہ یٹے۔آج امریکہ اور دیگر ممالک نے بھی جو ترقی کی ہے اگر ہم دیکھیں تو وہ بھی اسلامی معلومات جو مسلمان سائنسدانوں نے جمع کی تھیں اس پر عمل کرکے ہی ترقی کی ہے،آج بھی یورپی ممالک میں ڈاکڑ بننے کے لئے مسلم سائنسدان البیرونی کی دو کتابوں کے علم پر عبور حاصل کرنا لازمی ہے تبھی وہ ڈاکڑیٹ کی ڈگری حاصل کر سکتا ہے۔ہمیں بھی یہی کرنا ہوگا،پاکستان کلمئہ طیبہ کے نام پربنا ہے ،ہمیں اپنی بنیادوں کو مضبوط کرکے اسی دائرے میں رہتے ہوئے ترقی کی راہوں پر چلنا ہوگا۔

پاکستان میں اﷲ اﷲ کرکے امن کی جانب ایک عمل شروع ہوا ہے ، حکومت طالبان مذاکرت،ہماری کوشش ہونی چائیے تھی کہ ہم ان مذاکرات کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے مگر سوشل میڈیا پر لوگوں نے اسکا بھی مذاق بنادیا کہ اول تو مذاکرات کامیاب ہو ہی نہیں سکتے اور اگر ہو بھی گئے تو اس صورت میں پاکستانی میڈیا کے اینکرز سروں پر ٹوپی اور نقاب میں نیوز کاسٹ کریں گے۔مطلب کہ ہمیں ملک کی پروہ سرے سے ہے ہی نہیں بس اپنی شوخیاں پوری ہوجائیں۔
پاکستان میں آج کل زنا کی بے شمار وداتیں ہو رہی ہیں،ان میں زیادہ تر زنا بالجبر کے کیسس سامنے آرہے ہیں ،پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کا تو یہ کام ہونا چائیے کہ ایسے مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آنے والے لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور میڈیا کو بھی اس میں ایک ایسا کردار ادا کرنا چائیے کہ لوگوں میں آگاہی پیدا ہو سکے اور پاکستان کو اس لعنت سے بچایا جاسکے مگر یہاں بھی میڈیا اور ہمارے پیٹی بند بھائیوں کی کارستانیاں ایسی ہیں کہ ایسے واہیات سوالات اس وکٹم سے پوچھے جاتے ہیں کہ جسے بار بار زنا کیا جا رہا ہو،ویسے ہی وہ بیچاری اپنی عزت کھو چکی ہوتی ہے اور ایسے میں ہمارا میڈیا اور پولیس اہلکار رہی سہی کسر بھی پوری کردیتے ہیں۔ اسکے علاوہ جیسے جیسے زمانہ ترقی کررہا ہے پاکستان میں فحاشی پھیلانے کا سسٹم بھی خرافاتی ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہے،میڈیا میں فحاشی کے اس بھوت کو لوگ advertisementکہتے ہیں جو کوئی خاص گروپ اپنے آنے والے نئے پروڈکٹ کی نمائش کے لئے کرتا ہے ،مگر اس میں آج کل کچھ ایسا مواد شامل ہوگیا ہے اور کچھ ایسے لوگ شامل ہوگئے ہیں جو اسلامی ملک پاکستان کو ایک گندہ اور غلیظ کفریہ ملک بنانے پر تلے ہوئے ہیں ،زیادہ پیسہ کمانے کی حوص نے انہیں غلاظت کا ڈھیر بنادیا ہے۔ایک شریف آدمی اپنے گھر میں فیملی کے ساتھ آج کے دور میں نیوز چینل بھی دیکھنے سے کتراتا ہے کہ کہیں اس میں بھی کوئی ایسا سین نہ آجائے جو مناسب نہ ہو۔
کیا ان سب کو رکنے والا کوئی نہیں رہا؟ یا پھر ہمارا دین ہمارے دلوں سے ختم ہوگیا ہے ؟کیوں ہمیں اپنی موت یاد نہیں رہی؟کیا اﷲ کے ہاں شرمندگی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو کیا حق ہے ہمیں کہ ہم خود کو مسلمان کہیں ؟مسلمان تو وہ تھا جس کو دیکھ کر کفر کے ایوانوں میں ماتم شروع ہوجایا کرتے تھے۔

مسلمان تو وہ تھے جو مدینے میں ایک مسلمان صحابیہ کے یہودی کے ہاتھوں سر سے دوپٹہ ہٹادینے پر اس کو قتل کردیا کرتے تھے مگر آج ہم مسلمان نہیں رہے ،بلکہ اسلام کے لبادے میں حیوانیات کے درجوں پر کھڑے بزدل لوگ ہیں جو مغرب کی چاک و چوبند دنیا کو دیکھ کر انکے نقش قدم پر چل رہے ہیں،اگر آج کسی مسلمان ماں یا بہن سے کہو کہ محترمہ پردہ کرنا سنت ہے تو جواب ملتا ہے کہ تو اپنی نظر نیچے رکھ پردہ اپنے آپ ہوجائے گا۔لواطت ایک ایسا گناہ عظیم تھا جس کی وجہ سے اﷲ نے حضرت لوط کی قوم پر عذاب نازل کیا تھا مگر آج ہمارے معاشرے میں یہ بیماری پھر سے جنم لے چکی ہے،کیا ہم اس وقت کا انتظار کررہے ہیں جب اﷲ ہم پر بھی وہی عذاب بھیجے جو قوم لوط پر بھیجا تھا ؟ہم اپنی اصلاح کب کریں گے ؟دین میں داڑھی اور پردے کو پتھر کے زمانے کی باتیں کہنے والی ملالہ یوسفزئی کو تو ہم نے پاکستان کی ہیروئن بنادیا مگر ہم اس عورت کو کیسے بھول گئے جس نے اﷲکا قرآن حفظ کرکے اور اس پر عمل کرکے دین کی مجاہدہ ہونے کا حق ادا کردیا۔کل کو ہم اپنے رب کے پاس کیا منہ لیکر جائیں گے؟ہم مسلمان ہیں مگر سنت نبوی پر عمل کرنا ہمیں پتھرکا زمانہ لگتا ہے کہیں ہم نے اپنے لئے مغربی کلچر کی آڑ میں خود کے لئے انہی کا مذہب تو اختیار نہیں کرلیا؟کیا ہمارے ملک کے حکمراں طبقہ مسلمان نہیں ؟کیا ہمارے ملک کے لوگ مسلمان نہیں جو یہ سب دیکھ بھی چپ ہیں ،وزیراعظم صاحب دیکھیئے! اپنی آنکھوں سے مغربی چشمہ اتار کر مسلمان ہوکر دیکھیئے آپ کی حکومت ہے ،سوال آپ سے کیا جارہا ہے کہ آپ چپ کیوں ہیں ؟کیا آپ انتظار کرہے ہیں کسی خونی انقلاب کا جو پاکستان میں آجائے اور سب کچھ تہس نہس کردے ؟کیا آپ کو اﷲ کے سامنے جانے سے امریکی کلچر روک پائے گا؟اﷲ کے سامنے ہمیں اور آپ کو جواب دینا ہوگا ،گناہ کے کام کو روکنا،غلط کام ہوتا دیکھ اسے شدت سے روکنا ہی ایک مسلمان حکمران کام ہے۔اﷲ سے دعا کرتا ہوں کہ معاشرے میں موجود فحاشی اور عریانی کے ان مسکنوں کے خلاف کاروائی کرنے کی اﷲپاک ہمارے وزیراعظم صاحب کو ہمت عطا فرمائے۔آمین

آخر میں میں اپنے میڈیا کے بھائیوں اور بہنوں سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ مضمون میں نے کسی فرد کے خلاف یا کسی ادارے کے خلاف نہیں لکھا،بلکہ اصل مقصد ان اداروں میں موجود فحش موادو عناصر کی نشاندہی کرنا تھا تاکہ پاکستان کی اصل اساس پوری دنیا میں اجاگر ہوسکے۔اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے ،آج ہماری باری ہے کہ ہم اس ملک کی تعمیر کریں اور اسے دنیا میں تمام ملکوں کے لئے مشعل راہ بنائیں۔ تمام ان قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی اپنی رائے سے راقم کو آگاہ فرمائیں تاکہ ہم ملکر اس ملک پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنا سکیں ۔آپ کے جواب کا منتظر… اﷲ اس ملک کو قیامت تک کے لئے سلامت رکھے۔

Gularsh Shahid

Gularsh Shahid

تحریر: گل عرش شاہد
gularsh1986@hotmail.com