counter easy hit

پاکستان میں افسر شاہانہ اور پروٹوکول کلچر

Police

Police

تحریر : ایم پی خان
میرے ایک دوست جوکافی عرصہ بعدبیرون ملک سے پاکستان آیا۔اس نے زندگی کازیادہ عرصہ ایسے ملک میں گزاراتھا، جہاں ہرطرف خوشحالی ہے۔ریاست کی ترقی اوراسکے استحکام کایہ عالم ہے کہ ایک عام آدمی سے لیکر وزیراعظم تک کی زندگی کامعیارایک جیسا ہے۔ میرادوست کہتاہے کہ اس نے کئی دفعہ وزیراعظم کو مارکیٹ میں شاپنگ کرتے ہوئے دیکھااورمزید دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ بھی بغیرکسی پروٹوکول کے ، نہ سیکورٹی گارڈزتھے، نہ لوگوں کاتانتالگارہتاہے اورنہ کسی خاص مارکیٹ سے ،خاص معیارکی چیزیں خریدنے آتے ہیں بلکہ مارکیٹ میں جوچیزیں عام آدمی کے استعمال کے لئے ہوتی ہیں ، وہی چیزیں وزیراعظم بھی استعمال کرتے ہیں۔اس نے مزیدکہاکہ جب وہ پاکستانی ہوائی اڈے پراترے، توسماں ہی کچھ اورتھا۔ سارے لوگ بیمار، پریشان اوراداس دکھائی دیتے تھے۔ دوسری طرف یہاں کی وی آئی پیز کاجوپروٹوکول دیکھاتودنگ رہ گیاکہ اس قدرغریب ملک میں ، گنتی کے چندلوگ اس قدرشاہانہ زندگی کیسے گزارتے ہیں۔

صدر ،وزیراعظم ،وفاقی اورصوبائی وزرائ،اراکین قومی اورصوبائی اسمبلی،صوبائی اوروفاقی سیکرٹریز، بیوروکریٹس، پولیس اورفوج کے بڑے بڑے افسران،جرنیل، ججز ، بڑے بڑے وکلائ، اہم سیاست دان اورانکے کارندے ، سیاسی مولوی، مختلف محکموں میں تعینات آفیسر ، تاجر ، بڑے بڑے نواب، جاگیردار، چودھری، خان، وڈیرے اورنہ جانے اس تسلسل میں اورکتنے لوگ ہیں، جو شاہانہ طرززندگی گزارتے ہیں اورانکی اولاد شہزادوں کی طرح دولت کے ساتھ کھیلتے ہوئے عالم رنگ وبومیں مدہوش رہتے ہیں۔ریاست کی پوری مشینری انکی خدمت گزاری میں لگی رہتی ہے۔میراوہ دوست بہت حساس طبیعت کے مالک ہے ، زندگی کی اس تفاوت کے بارے میں انکے تاثرات میرے دل ودماغ پر نقش ہیں۔اگلی صبح جب میں آفس جارہاتھا، توایک معمولی آدمی کے گھرکے باہر،ایک پولیس اہلکار اسکی موٹرکار کی صفائی کررہاتھا۔

دراصل وہ پولیس اہلکاراس آدمی کا سیکورٹی گارڈ تھا، جو اپنی ذاتی اثررسوخ کی بنیاد پر اس نے محکمہ پولیس کے کسی بڑے آفسر کی سفارش سے حاصل کیاتھا۔اس طرح بے شمارسیاسی اورسماجی شخصیات کے ڈیروں پر پولیس اہلکارمعمولی معمولی کام سرانجام دیتے ہیں، جوسکیورٹی کے نام پر انہیں الاٹ کئے جاتے ہیں۔ کیایہ پولیس فورس کی توہین نہیں ہے۔ دنیاکے ہرملک میں پولیس فورس کو عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔ ان کاایک خاص اورمنفردمقام ہوتاہے۔ جبکہ پاکستان میں پولیس فورس کے ساتھ یہ شرمناک رویہ سیاسی اثررسوخ اورافسران بالا کے ساتھ ذاتی گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں اپنایاجاتاہے۔ یہ توایک عام اورمعمولی اثررسوخ والے شخص کاحال ہے اور یہ پروٹوکول کلچرکی ادنیٰ سیڑھی ہے۔یہاں سے عوام اورخواص کے درمیان اس تفاوت کاآغازہوتاہے اورپھربتدریج اسکی شدت میں اضافہ ہوتاہے ، یہاں تک کہ وزیراعظم تک پہنچتے پہنچتے یہ پروٹوکول کلچربھاری بھرکم صورت اختیارکرلیتی ہے۔پچاس پچاس گاڑیوں کاقافلہ، دودوہیلی کاپٹر، سینکڑوں پولیس اہلکار ایک ہی وقت میں وزیراعظم کے پروٹوکول میں شامل ہوتے ہیں۔

اسی طرح وزیراعلیٰ اوردیگروزراء کے پروٹوکول اورسکیورٹی کاحال دیکھ کر یوں لگتاہے کہ پاکستان میں پولیس فورس کے قیام کابنیادی مقصدافسرشاہانہ کی خدمت گزاری ہے۔ ملک کے تمام وسائل اس محدودطبقہ کے شاہانہ طرززندگی، بہترین سے بہترین رہائش ، انکی سکیورٹی، انکے دوروں، انکے بچوں کی تعلیم ، انکے بیرون ملک علاج معالجوں ، انکی عزیزواقرباکے تواضع اورتاحیات مراعات دینے پر صرف ہوتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ایک بہت بڑاطبقہ مفلسی اورکس مپرسی کی زندگی گزاررہاہے۔ انکی زندگی غیرمحفوظ، انکے بچے تعلیم سے محروم، صحت ، روزگاراوانصاف کے دروازے انکے لئے بند ہوتے ہیں۔یہی حالات ریاست میں عدم استحکام کوجنم دیتے ہیں اورآئے دن ملک میں دہشت گردی کے نئے نئے واقعات رونماہوتے ہیں، جس کاشکاریہی مفلوک الحال طبقہ بنتاہے۔

پاکستان کو کامیاب ریاست بنانے کے لئے ضروری ہے کہ تبدیلی کاآغاز اس مراعات یافتہ طبقہ سے کیاجائے۔جتنے بھی لوگ بڑے بڑے عہدوں پرذمہ داریاں نبھارہے ہیں ، اگروہ سچے پاکستانی ہیں اورانکے اندر ذرا برابربھی حب الوطنی موجودہے ، تو وہ بغیرپروٹوکول کے اپنے ملک کی خدمت کرے۔کیونکہ ان کااس ملک پر اوراس ملک کے عوام پراحسان ہے کہ وہ احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں اورملک کی ترقی کے لئے دن رات کوشش کرتے ہیں۔

فرض کریں کسی وزیر، گورنر، سینٹر، بیوروکریٹ، سیکرٹری یاکسی اوربڑے آفسرکواپنے ملک میں اپنی زندگی غیرمحفوظ معلوم ہوتی ہے اوراسکو ذاتی تحفظ کے لئے پولیس فورس کی ضرور ت ہے ، ، تووہ بے شک پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیربادکہہ دے ، کیونکہ جس میں ملک میں اورجس عہدہ میں وہ اپنے آپکو غیرمحفوظ دیکھ رہے ہیں ، وہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو کیوں بربادکررہے ہیں۔بے شک وہ کسی ایسے ملک میں چلے جائے۔

جہاں وہ اورملک کاوزیراعظم ایک ہی قطارمیں کھڑے ہوکر اورایک ہی مارکیٹ میں شاپنگ کرسکے۔ورنہ یہ عہد کرلے ، کہ ہم نے پاکستان کو بھی ایساملک بنائیں گے ، جہاں پولیس فورس کی کوئی اورذمہ داری ہے ، نہ کہ افسرشاہانہ کی سیکورٹی اورپروٹوکول ۔ آپ بھی عام لوگوں کی طرح نکل آئیں ، مارکیٹ میں آئیں، بازاروں میں آئیں ، پروگراموں میں جائیں، کھیل تماشے بھی دیکھیں، میلوں ٹھیلوں کی سیربھی کریں، اپنے ملک کی خوبصورتی سے محظوظ بھی ہوجائیں ، اپنے بچوں کے سکولوں میں بھی جائیں سرکاری ہسپتالوں میں اپنے اوراپنے بچوں کاعلاج بھی کروائیں ، کسی بینک یادیگرکسی ادارے کے سامنے اپنے کام کے سلسلے میں قطارمیں بھی کھڑے ہوجائیں۔

کبھی کبھی کسی ہوٹل میں کھانابھی کھائیں اورکبھی کسی چمن ، باغ یاپارک میں ٹہلتے ہوئے بھی نظرآئیں ۔۔۔تاکہ عام لوگ آپ کو دیکھ لے اورآپ پرفخرکرلے۔ ہاں یہ بات یاد رکھیں، آپکی زندگی بہت قیمتی ہے ، بالکل جسطرح ایک عام پاکستانی کی زندگی ہے۔

اس بات پر دل سے یقین رکھیں کہ آپکی زندگی کاتحفظ اللہ کرے گا۔ اگرآپ دیانت داری اورایمانداری سے اپنی قوم کی خدمت کررہے ہیں ، توآپ کو کچھ نہیں ہوگا۔پروٹوکول کلچرکے خلاف آپکی یہی طرززندگی پاکستان کو کامیاب ریاست بنانے کی ضمانت ہے۔

MP Khan

MP Khan

تحریر : ایم پی خان