counter easy hit

پاکستان کو چین سے انقلابی جنگی سسٹم مل گیا

حال ہی میں پاکستانی قوم نے یہ خوش خبری مسّرت و اطمینان سے سنی کہ چین نے نئے میزائلوں کی تیاری میں کام آنے والا ’’انتہائی جدید اور پھیلاؤ رکھنے والا بصری و پیمائشی نظام  پاکستان کو فروخت کردیا ہے۔

Pakistan got a revolutionary warfare system from Chinaپاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے چین میں تیار کردہ یہ جدید ترین نظام حاصل کیا۔ اس فروخت کی وجہ بھارت کا بڑھتا جنگی جنون ہے۔ بھارت نے جنوری 2018ء میں اپنے بین الابراعظمی بلاسٹک میزائل، اگنی پنجم کا پانچواں تجربہ کیا تھا۔ اس موقع پر بھارتی سائنس دانوں نے فخریہ اعلان کیا کہ یہ میزائل چین کے کسی بھی حصے کو نشانہ بناسکتا ہے۔

بھارتی ماہرین نے اپنے بیان میں چین کو اسی لیے نشانہ بنایا کہ وہ پاکستان کو جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی فراہم کررہا ہے۔ اسی ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہوسکا کہ کم وسائل رکھنے کے باوجود پاکستان اپنے طاقتور اور جارح مزاج پڑوسی کا مقابلہ کرسکے۔ اسی امر کے باعث بھارتی حکمران چین سے خار کھاتے ہیں۔

مزید براں اب امریکا کی سعی ہے کہ وہ چین اور بھارت کو آمنے سامنے لے آئے۔ گویا امریکی بھارت کو ایشیائی سپرپاور بنانا چاہتے ہیں۔ امریکیوں کو بدلتا دیکھ کر تو توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے بھارتی حکمران طبقے کی باچھیں کھل گئیں۔ یہی وجہ ہے،اب بھارت وسیع پیمانے پر اسلحہ خرید رہا ہے تاکہ عسکری طاقت بن کر مقامی سپرپاور بننے کا اپنا خواب پورا کرسکے۔

بھارت کی خواہش ہے کہ مقامی سپرپاور بن کر  پاکستان کو ہڑپ کرلے یا کم از کم اس کے ٹکرے کر ڈالے تاکہ وہ اس کے سامنے خطرہ نہ رہے۔ اسی باعث پاکستان کی سعی ہے کہ وہ عسکری طور پر اتنا طاقتور ضرور رہے کہ جنگی جنون میں مبتلا بھارتی حکمران حملہ کرنے سے قبل ہزار بار سوچیں۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے مگر وہ اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتا۔دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی خاطر پاکستان ایک خاص قسم کا بلاسٹک میزائل ’’ملٹی پل انڈیپینڈنٹ ٹارگٹ ایبل ری انٹری وہیل‘‘ تیار کررہا ہے جو عرف عام میں مرو کہلاتا ہے۔

درج بالا میزائل کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں پانچ سے پندرہ کے درمیان ایٹم بم رکھے جاسکتے ہیں۔ جب یہ میزائل چھوڑا جائے، تو وقفے وقفے سے ایٹم بم گرتے چلے جاتے ہیں۔ ان ایٹم بموں کو تباہ کرنے کی خاطر بھی کثیر تعداد میں میزائل درکار ہیں۔ تب بھی سبھی ایٹم بموں کو نشانہ بنانا بڑا کٹھن کام ہے۔ اگر چار پانچ بھی ملٹی پل انڈیپینڈنٹ ٹارگٹ ایبل ری انٹری وہیل بلاسٹک میزائیل چھوڑے جائیں تو کوئی نہ کوئی ایٹم بم ٹارگٹ پر گر کر خوفناک تباہی مچا دیتا ہے۔لہذا یہ امکان ایک طاقتور ملک کو نسبتاً کمزور پڑوسی پر دھاوا بولنے سے باز رکھ سکتا ہے۔

پچھلے دو عشروں میں بھارت نے نت نئے میزائل شکن میزائیل بنا اور بیرون ممالک سے خرید کر اپنا دفاع مضبوط کرلیا ہے۔ اب ممکن نہیں رہا کہ عام میزائیل اور لڑاکا طیارے بھارتی میزائل ڈیفنس سے باآسانی بچ کر نکل سکیں۔ پاکستان اسی مضبوط بھارتی میزائیل ڈیفنس کو ناکارہ بنانے کی خاطر درج بالا بلاسٹک میزائیل تیار کررہا ہے۔ اس ضمن میں اسے چینی ماہرین کی بھی مدد حاصل ہے۔

اسی سلسلے میں پاکستان نے پچھلے جنوری میں ’’ابابیل بلاسٹک میزائیل‘‘ کا تجربہ کیا تھا۔ پاکستانی ماہرین اس کو ملٹی پل انڈیپینڈنٹ ٹارگٹ ایبل ری انٹری وہیل بلاسٹک میزائیل کی صورت دینا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ’’ابابیل‘‘ کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں چین سے حاصل کردہ بصری و پیمائشی نظام خوب کام آئے گا۔

وجہ یہ کہ درج بالا بلاسٹک میزائیل پر تجربات کرتے ہوئے یہ نظام اسے خامیوں سے پاک کرنے میں انجینئروں کی بہت مدد کرتا ہے۔۔ یہ نظام انہیں اس قابل بنا دیتا ہے کہ میزائیل کی پرواز کے دوران ہائی ریزولیشن والی تصاویر حاصل کرسکیں۔ پرواز کے دوران میزائیل کی کسی بھی مرحلے پر یہ تصاویر لی جاسکتی ہیں۔ یوں خامیاں پہچان کر ڈیزائن کو بہتر بنانا آسان ہوجاتا ہے۔

بصری و پیمائشی نظام خصوصی دور بینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان دوربینوں میں ہائی سپیڈ کیمرا، انفراریڈ ڈی ٹیکٹر، لیزر رینج فائنڈر اور ٹریکنگ سسٹم نصب ہوتے ہیں۔ یہ آلات اپنے ٹارگٹ یا نشانے کی تصاویر اتارتے اور اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ ان کی مدد سے میزائل کی اڑان کے ہر مرحلے… لانچنگ، انجنوں کی علیحدگی، نیچے گرنے کا آغاز اور ایٹم بموں کے الگ ہونے کی نہایت واضح تصاویر حاصل ہوتی ہیں۔

چین نے پاکستان کو جو بصری و پیمائشی نظام دیا وہ اس لحاظ سے جدید ترین ہے کہ چار دور بینوں پر مشتمل ہے۔ ہر دور بین میزائیل کے مختلف حصے پر فٹ کی جاتی ہے تاکہ دوران پرواز ہر زاویے سے میزائل کی تفصیلی تصاویر حاصل ہوسکیں۔ یہ دوربینیں میزائیل سے علیحدہ ہونے پر ایٹم بم کو انفرادی طور پر ٹریک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

پروفیسر اونگ جیلی بیجنگ میں انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سکول آف ایروسپیس انجینئرنگ میں ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملٹی پل انڈیپینڈنٹ ٹارگٹ ایبل ری انٹری وہیل بلاسٹک میزائیل کی تیاری میں ہائی ریزویشن والی تصاویر انتہائی اہمیت رکھتی ہیں۔ وجہ یہ کہ ریڈار اور ٹریکنگ کے دیگر آلات طویل فاصلے کے ضمن میں تو قیمتی ڈیٹا جمع کرلیتے ہیں مگر بصری و پیمائشی سسٹم فوری اور براہ راست فیڈبیک دیتا ہے۔ پروفیسر اونگ کا کہنا ہے:

’’ڈیٹا کو کنگھالنا اور اپنی آنکھوں سے ایک چیز کو جنم لیتے دیکھنا دو بالکل علیحدہ باتیں ہیں۔ دیکھنے سے نہ صرف غلطیاں جلد پہچانی جاتی ہیں بلکہ انسان اپنی محنت کا پھل پاکر جوش و جذبہ بھی محسوس کرتا ہے۔‘‘

عسکری ماہرین بتاتے ہیں کہ چینی سائنس دانوں نے حال ہی میں چند ماہ پاکستان میں گزار کر پاکستانی ماہرین کو سکھایا بتایا کہ بصری و پیمائشی نظام کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔ اس نظام کی آمد سے پاکستانی ماہرین کو زیادہ عمدہ اور کارآمدملٹی پل انڈیپینڈنٹ ٹارگٹ ایبل ری انٹری وہیل بلاسٹک میزائیل ایجاد کرنے میں مدد ملے گی۔

پچھلے ایک عشرے میں چین پاکستان کو جدید اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ ایک زمانے میں چینی اسلحہ اپنے کم تر معیار کی وجہ سے مقبول نہیں تھا مگر اب صورتحال بدل رہی ہے۔ اب بہت سے چینی ہتھیار بھی معیار میں امریکا اور روس کے ہم پلہ ہوچکے ہے۔ماضی میں چینی ہتھیار اس لیے غیر معیاری تھے کہ وہ روس کے ہتھیاروں کی نقل میں بنائے جاتے۔ چینی حکومت نے طویل عرصہ نت نئے ہتھیار ایجاد کرنے کے سلسلے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر پیسا لگانے سے اجتناب برتا۔ وجہ یہ کہ اس کی تمام تر توجہ معاشی ترقی پر مرکوز تھی۔ لیکن اب چین دنیا کی معاشی سپرپاور بن چکا۔ لہٰذا بدلتے حالات میں چین نت نئے اور معیاری ہتھیار بنانے کی خاطر اربوں ڈالر ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر خرچ کررہا ہے تاکہ چینی افواج کو طاقتور اور مضبوط بنا سکے ورنہ دشمن تو اسے ترنوالہ سمجھ کر ہڑپ کر جائیں گے۔اب چینی روس یا امریکا کے نقلچی نہیں رہے بلکہ وہ اپنی ایجادات بھی سامنے لارہے ہیں۔

چین نے حال ہی میں اپنی فضائیہ میں اسٹیلتھ طیارہ، جے۔20 شامل کیا ہے۔ یوں وہ امریکا اور روس کے بعد فضائی فوج میں اسٹیلتھ طیارہ رکھنے والا دنیا کا تیسرا ملک بن گیا۔ یہ پانچویں نسل یا ففتھ جنریشن کا طیارہ ہے۔ اسی طرح چین جدید ترین ڈرون۔طیارہ بردار جہاز اور آبدوزیں وغیرہ بھی بنارہا ہے۔ خاص طور پر چینی سائنس داں ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کے شعبے میں بہت سرگرم ہیں۔ وہ مستقبل کی ایسی بری، فضائی اور بحری فوج تیار کرنا چاہتے ہیں جو انسانوں نہیں روبوٹوں پر مشتمل ہو۔ یوں جنگ کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔

پاکستانی اور چینی ماہرین نے حال ہی میں جے ایف تھنڈر 17 کے تیسرے نمونے یا بلاک تھری کا حتمی ڈیزائن تیار کرلیا ہے۔ اس ڈیزائن پر اگلے سال سے جے ایف 17 بلاک تھری کی تیاری شروع ہوگی۔ یہ طیارہ امریکیوں کے ایف 16 سے زیادہ بہتر اور ایف 18 کے ہم پلہ ہوگا۔ اس بلاک تھری طیارے کی اہم ترین خاصیت یہ ہے کہ اس میں چینی کمپنی،نانجنگ ریسرچ انٹی ٹیوٹ آف الیکٹرونک انڈسٹری کا تیار کردہ کے ایل جے- سیون اے نامی جدید’’ایکٹو الیکٹرونکلی اسکینڈ ایرے‘‘ ریڈار نصب کیا جائے گا۔یہ عرف عام میں ’’ایسا‘‘ کہلاتا ہے۔

اس ایسا ریڈار کی مدد سے جے ایف تھنڈر 17 زیادہ دور موجود دشمن کو بھی شناخت کر سکے گا۔دوران جنگ اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ آپ پہلے دشمن کو شناخت کر لیں۔وجہ یہ کہ پھر آپ کو پہلے فائر کر کے اسے ڈھیر کرنے کا سنہرا موقع مل جاتا ہے۔

ایسا ریڈار جے ایف تھنڈر 17 کو اس قابل بھی بنائے گا کہ دشمن کے درجن سے زائد طیاروں کو بیک وقت نشانہ بنا سکے۔ریڈار کی مدد سے وہ ایک ہی وقت میں سب کے ساتھ مقابلہ بھی کر سکے گا۔مزید براں یہ ریڈار آسانی سے جام نہیں ہوتا۔اس میں ایسے خصوصی آلات نصب ہیں جن کے باعث دشمن اسے آسانی سے جام نہیں کر سکتا۔

بلاک تھری جے ایف تھنڈر 17 میں ’’ایسا‘‘ کے علاوہ دیگر جدید جنگی نظام بھی فٹ کیے جائیں گے۔ان میں اینٹی گریٹیڈ الیکٹرونک واروئیر سسٹم،تھری ایکسیز فلائی بائی وائر ڈیجیٹل فلائٹ کنٹرول سسٹم اور ہیلمٹ ماؤنٹیڈ ڈسپلے اینڈ سایٹ سسٹم شامل ہیں۔اس طیارے کا وزن اور رفتار بھی پچھلے نمونوں کے مقابلے میں زیادہ ہو گی۔

کم ہی پاکستانیوں کو علم ہے کہ چین کا جدید ترین ٹینک، وی ٹی 4 پاکستان پہنچ چکا۔ پاک فوج اس ٹینک کو تجربات سے گزار رہی ہے۔ دراصل بھارتی فوج نے 2012ء میں ارجن ایم کے 2 حاصل کرلیا تھا۔ یہ ایڈوانسڈ تھرڈ جنریشن کا مین بیٹل ٹینک ہے۔ لہٰذا پاک فوج بھی اس کے توڑ میں ایڈوانسڈ تھرڈ جنریشن کا مین بیٹل ٹینک حاصل کرنا چاہتی ہے۔

چین کے علاوہ ترکی کا ’’التائی‘‘ ور روس میں بنا’’ ٹی۔14 ارمتا‘‘ ٹینک بھی پاک فوج کے زیر غور ہے۔ چونکہ التائی بہت مہنگا ہے لہٰذا پاکستان کو وی ٹی 4 اور ٹی۔14 ارمتا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ چین وی ٹی 5 کے نام سے ایک اور مین بیٹل ٹینک تیار کرچکا ہے۔ یہ بھی پاک فوج کے سامنے زیر غور ہے۔

وی ٹی 4چین میں ایم بی ٹی 3000 کہلاتا ہے۔اسے پچھلے سال ہی چینی فوج کا حصہ بنایا گیا ہے۔گویا یہ ایک جدید ٹینک ہے۔یہ 52 ٹن وزن رکھتا ہے۔جبکہ ارجن ایم کے 2کا وزن 68 ٹن ہے۔کم وزنی ہونا پاکستان کے لیے مفید ہے۔وجہ یہ کہ وی ٹی 4 پاکستانی سرحدی علاقوں کے لیے موزوں ہے جو صحرائی یا میدانی علاقے ہیں۔وہاں وہ ارجن کی نسبت زیادہ تیزی سے سفر کرسکے گا۔ اس میں 1300ہارس پاور کا انجن نصب ہے جس کی بدولت وی ٹی 4 ایک گھنٹے میں 68 کلومیٹر فاصلہ طے کر سکتا ہے۔

چین کی مشہور اسلحہ ساز کمپنی،نورینکو نے وی ٹی 4 تیار کیا ہے۔اس ٹینک کی نالی 125ملی میٹر کا دہانہ رکھتی ہے۔اس کی چادر مضبوط دھاتوں سے بنائی گئی ہے تاکہ دشمن کے فائر کو سہہ سکے۔اس میں میزائیل بھی نصب کیے جا سکتے ہیں۔نیز ایک مشین گن بھی لگی ہے۔

خاص بات یہ کہ چین ٹرانسفر آف ٹکنالوجی کے تحت وی ٹی 4 بنانے کی تکنیک پاکستان کو دینے کے لیے تیار ہے۔اگر پاک فوج کی توقعات پر یہ ٹینک پورا اترا اور پاکستانی میکنائزڈ دستے کا حصہ بنا تو اس کا نام میسور کے ممتاز سپہ سالار،حیدرعلی کے نام پہ ’’الحیدر‘‘رکھا جائے گا۔

یاد رہے،نورینکو کا ہی تیار کردہ ایم بی ٹی 2000 ٹینک پاک فوج میں ’’الخالد‘‘کے نام سے شامل ہے۔ یہ ٹینک چینی اور پاکستانی سائنس دانوں اور انجینروں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔الخالد ٹینکوں کی تیسری نسل یا تھرڈ جنریشن سے تعلق رکھتا ہے۔

یہ واضح رہے کہ پچھلے سال پاکستان نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس نے چین کی کمپنی،چائنا ایروسپیس سائنس اینڈ ٹکنالوجی کور کا تیار کردہ ائر ڈیفنس میزائیل سسٹم ایچ کیو ۔16 اے حاصل کر لیا ہے۔یوں پاکستان کا فضائی دفاع پہلے سے زیادہ موثر ہو گیا۔میزائیلوں اور طیاروں کو مار گرانے والا یہ چینی میزائیل سسٹم وائی۔80 بھی کہلاتا ہے۔ایچ کیو ۔16 اے ڈیرھ سو کلومیٹر کی حد مار رکھتا ہے۔نیز دس ہزار میٹر (تقریباً تیتیس ہزار فٹ) کی بلندی پر اڑتے ہوائی جہاز یا میزائیل کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ آج چین اور پاکستان کا عسکری تعاون پہلے کی نسبت زیادہ اہم اور تزویراتی (سٹرٹیجک) نوعیت اختیار کر چکا۔ اب امریکا اور یورپی ممالک مختلف وجوہ کی بنا پر پاکستان کو جدید ترین ہتھیار دینے سے گریزاں ہیں۔اس بدلتی صورتحال میں چین ہی وہ ملک ہے جو پاک افواج کو دفاع مستحکم تر بنانے کے لیے جدید اسلحہ فراہم کر سکتا ہے۔اور خوش آئند امر یہ کہ چینی اسلحے کا معیار بتدریج بہتر ہو رہا ہے۔

یہ بات باعث اطمینان ہے کہ بر محل اور بر وقت طور پہ ہمیں اپنے جارحیت پہ اترتے خطرناک اور طاقتور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عمدہ ساتھی میسر آ گیا۔اس کے شانہ بشانہ رہتے ہوئے دشمن کی جارحیت روکنا آسان ہو گا۔یہ ایک امید افزا بات ہے اور اچھے مستقبل کی علامت بھی۔