counter easy hit

اور اب پاکستانی گدھے بھی۔۔۔

ACCUSED WITH SLAUGHTER DONKEY

ACCUSED WITH SLAUGHTER DONKEY

تحریر : عقیل احمد خان لودھی
ان دنوں وطن عزیز میں انسانوں کے بعد دوسری متاثر ترین مخلوق جو سامنے آئی ہے وہ گدھے ہیں ۔گدھوں کاصدیوں سے قابل رحم مخلوق میں شمار ہوتا چلا آرہا ہے ۔ پاکستان میں گدھوں کے قتل عام کے بعد عام انسان اور گدھے مظلومیت اور بے چارگی کے حوالہ سے ایک ہی صف میں آکھڑے ہوئے ہیں۔ گوکہ انسانوں کے قتل عام بارے قوانین بھی موجود ہیں مگر عام انسانوں کیلئے یہ قوانین اسی طرح بے اثر ہیں جس طرح کہ گدھوں کیلئے کسی قانون کا نہ ہونا ہے گدھے اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کا انصاف کے حصول کیلئے تھانہ کچہریوں میں وقت اور انرجی ضائع نہیں ہورہے مگر اب جبکہ ملک میں کراچی سے خیبر پختونخواہ تک ملک کا کوئی ایسا کونہ بچتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا کہ جہاں گدھوں کا قتل عام نہ ہورہا ہو، اس پر گدھوں کو خود سے اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا گدھے کوئی یونین بنا لیں یا الگ سے خطہ ارضی کا ہی مطالبہ کر دیں کہ جہاں صرف گدھے رہیں اور کسی انسان کا خاص طور پر اس خطہ سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہو،مگرشاید گدھوں کے کسی بھی مطالبہ یا اقدامات کوسنجیدگی سے نہ لیا جائے کیونکہ خطہ پاک وہند میںکسی کو ” یہ تو ہے ہی گدھا ”کہہ کر بے حیثیت کردیا جاتا ہے۔

یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے گدھوں کے قتل عام کے بعد ایسے افرادکو اس لقب سے جان کا خوف محسوس ہونے لگا ہے کہ کہیں گدھوں کے دھوکہ میں انہیں بھی حقیقی گدھوں جیسے سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے کوئی ان کی کھال یا گوشت فروخت کرنے کی غرض سے ان کی چیڑ پھاڑ نہ کرجائے ایسے افراد نے اپنے تئیں خود کو گدھا کہنے والوں کیخلاف قانونی چارہ جوئی بارے سوچنا شروع کر دیا ہے۔دنیا کے بااثر ترین ممالک میں گدھوںکو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور آج خود کو دنیا کا ٹھیکیدار سمجھنے والے امریکہ کی برسر اقتدار جماعت گدھا پارٹی ہے کہ ان کا انتخابی نشان ” گدھا ” تھا اور اوباما صدر امریکہ اپنے گدھا ہونے پر فخر بھی محسوس کرتے ہوں گے مگر ان میں گدھوں والی کوئی ایک بھی نشانی نہیں ہے کہ انہیں احمق یا نادان کہا جاسکے یا قابل رحم تصور کیا جائے۔

ہاں البتہ گدھے کے لبادہ میں بھیڑیئے یا لومڑی سے انہیں تشبیہہ ضرور دی جاسکتی ہے کہ اپنے اقتدار اور معاشی وسائل کی خاطر امریکی گدھے دنیا بھر بالخصوص مسلمان ممالک کی عوام اور معیشت کے بڑے دشمن ہیں اور شاید دنیا میں یہ واحد گدھے ہیں جنہوں نے معصوم اور بے ضرر ہونے کابہروپ دھار رکھا ہے۔ بہر کیف۔۔ آج کا موضوع پاکستانی گدھوں پر ہے اس لئے اپنی بات کو پاکستان تک سمیٹتے ہوئے چند دنوں کے قومی اخبارات میں آنے والی سرخیوں ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں سے گدھوں کے گوشت اور کھالوں کا کام کرنے والوں پر بحث کرتے ہیں ۔ایک زمانہ تھا زمینداروں اور غریب محنت کشوں کے گدھے آزادانہ فضائوں میں گھوما پھرا کرتے اور شام تک خود ہی چر کر واپس آجایا کرتے تھے اس دورانیہ میں کسی مجرم کو نمایاں کرنے اور اسے شرمندگی کا احساس دلانے کیلئے اس کا منہ کالا کیا جاتا تو یہ گدھے مجرم کی سواری کیلئے استعمال ہوا کرتے تھے ایسے افراد کا منہ کالا کرکے گائوں کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گھما دیا جاتا تو یہ واقعہ مجرمان کیلئے عبرتناک بن جایا کرتا۔

ان دنوں ملک میں انسانوں کے روپ میں گدھوں کی چیڑ پھاڑ کرنے والے درندے دندناتے پھر رہے ہیں جو محنت کشوںاورزمینداروں کے گدھوں کے جانی دشمن ہیں۔ہر دوسرامحنت کش اور زمیندار اپنے گدھے کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے اگر کسی کا گدھا گم نہیں ہوا تو اس کے گدھے کو کوئی پراسرار بیماری آلیتی ہے اور پھر گم شدہ گدھوں کی باقیات قریب کی فصلوں سے مل جاتی ہیں اسی طرح مرے ہوئے گدھے کو قریبی کھالے یا کھیت میں پھینکنے پر اگلے ہی روز اس گدھے کی کھال اور گوشت غائب ہوتا ہے فقط ڈھانچہ باقی رہ جاتا ہے جو جانوروں اور چیلوں کووں کی طرف سے صفائی کے اگلے دنوں میں غائب ہوجاتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں گدھوں کی اس طرح پراسرار ہلاکت پر شہری سخت ترین خوف کا شکار ہونے لگے پھر چند ایک گروہوں کے پکڑے جانے پر ان کی خوب دھنائی کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کرنے پر معلوم ہوا کہ گدھوں کی کھالوں کا ان دنوں کاروبار کیا جارہا ہے گدھے چوری کرنے کے علاوہ شہریوں کے گدھوں کو زہریلی اشیاء کھلادی جاتی ہیں یا ادھر ادھر چرتے ہوئے انہیں زہر کے ٹیکے لگادیئے جاتے ہیں اور گدھا مرنے تک قریبی علاقوں میں ریکی کی جاتی ہے۔

یہ خبریں بھی آئیں کہ چائینہ جیسے ملک میں گدھوں کی کھالیں سپلائی کر کے فی کھال 10 ہزار روپے تک وصول کیا جارہا ہے اور گدھوں کا گوشت قریبی ہوٹلوں اور قصابوں کو فروخت کردیا جاتا ہے قصاب حضرات بکروں اور بچھڑوں کے گوشت کی بوٹیوں میں ملا کر دو من گوشت کیساتھ ایک من گدھے کا گوشت بھی فروخت کر کے کمائی کرلیتے ہیں اس طرح حلال خریدنے /کھانے کی غرض سے آنے والے شہر یوں کو زبردستی حرام خور بنایا جا رہا ہے بیچارے گدھے ذبح ہوتے وقت کیا سوچتے ہوں گے ؟اس بے زبان مخلوق کو مسلم ریاست میں ایسی موت سے استثنیٰ حاصل تھا کہ گوشت کھانے کیلئے اور ذبیحوںکا چمڑا ستعمال کرنے کیلئے حلال جانوروافر مقدار میں موجود ہیںمگر ہوس اور دولت کے پجاریوں، درندوں سے بدتر، غلیظ لوگوں نے اپنے لالچ کی خاطر گدھوں کو ذبح کرنے کا مکروہ دھندہ شروع کررکھا ہے۔ لعنت ہے ایسے عاقبت نااندیشوں پر، انہیں انسان کہتے ہوئے بھی گھن آتی ہے ۔ پکڑے جانے والے بے ضمیر اور بے غیرت افراد کی شکلوں پرصاف بے حسی چھائی ہوتی ہے ، ایسے افراد کی شکلیں دیکھ کر عجیب سی کیفیت طاری ہوتی ہے یقین مانیں کسی بھی طرح ان سیاستدانوں سے کم نہیں لگتے جو انسانوں کا بیوپار کرتے، قسمتوں سے کھیلتے،جھوٹ اور دھاندلی سے اقتدار میں آکر دیانتداری کا جبہ اوپر چڑھا لیتے ہیں۔ گدھوں کے اس طرح مارے جانے کے بعد غریب محنت کشوں کو سخت ترین مشکلات کا سامنا ہے ریڑھی بان پریشان ہیں کہ وہ کس طرح ہر وقت اپنے گدھوں کی حفاظت کریں۔

دولتمند حضرات اور بڑی بڑی گاڑیوں کے مالکان تو اپنی گاڑیوں کی حفاظت کیلئے ٹریکر سسٹم وغیرہ لگوا لیتے ہیں مگر بے چارے غریب محنت کش کیا کریں کہ گدھوں کیلئے ایسی کوئی سستی ٹیکنالوجی سامنے نہیں آئی جن سے ان کی حفاظت کو ممکن بنایا جاسکے۔اﷲ تعالیٰ نے ان جانوروں گھوڑوں، گدھوں، خچروں کو باربرداری اور سواری کیلئے مخصوصکردیا ہے جبکہ یہاں ان کو بے غیرت بے ضمیر درندوں نے معمولی لالچ کی خاطر قتل کرنا شروع کررکھا ہے عام آدمی کا تو پہلے ہی یہاں کوئی مستقبل نہیں تھا اب گدھوں کا مستقبل بھی مخدوش ہوا جاتا ہے ۔صورتحال سے بچنے اور گدھوں کو معدومیت سے بچانے کیلئے گدھے چوری کرنے والوں، ان کا گوشت بنانے والوں اور کھالوں کا دھندہ کرنے والوں دہشت گردوں کے ہم پلہ افراد کیخلاف سخت ترین قوانین فوری بنائے جائیں کہ اس بے زبان مخلوق کو بے رحمی کا شکار بنانے والوں کیساتھ بے رحمی کیساتھ پیش آیا جائے اور ان کیساتھ کسی بھی قسم کی رو رعایت نہ برتی جائے۔

Aqeel Ahmed Khan

Aqeel Ahmed Khan

تحریر : عقیل احمد خان لودھی
0334-4499404