counter easy hit

یا سرداری گئی یا سیاست

سردار ادریس صاحب کی گزشتہ روز خود پر لگنے والے ہارس ٹریڈنگ کے الزام کی وضاحتی پریس کانفرنس سنی۔ اس کانفرنس میں انہوں نے بھی دیگر ساتھی ممبران کی طرح قرآن مجید پر حلف دیتے ہوئے سینٹ الیکشن میں ووٹ بیچنے کے عمل کی مکمل طور پر نفی کی۔ اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن سے اپیل کی کہ سینٹ میں پول ہونے والے ووٹوں کی تصدیق کی جائے۔

Or is it politics or politics?“جو کوڈ نمبر مجھے دیا گیا تھا اگر اس کے مطابق میں نے ووٹ نہیں دیا تو میں سخت ترین سزا کے لئے خود کو پیش کرتا ہوں۔ اور اپنے قبیلے کے سامنے خود کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرا جرم ثابت ہو گیا تو مجھے میرا قبیلہ سنگسار کر دے۔”

یہاں پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ سردار صاحب آپ فرما رہے ہیں کہ میں پی۔ ٹی۔ آئی میں ہی ہوں مگر آپ کے لیڈر نے بغیر تحقیق کیے، بغیر آپ سے وضاحت مانگے آپ کے خلاف پبلک میں ووٹ بیچنے کا الزام لگا دیا، آپ کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا تو آپ اس کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ سردار ادریس صاحب کی مجبوریوں کا ہمیں علم نہیں مگر ان کا جواب بڑا معصومانہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ خان صاحب کے گرد سازشیوں کا پہرہ ہے۔ وہ سازش کا شکار ہو گئے۔ اس لئے اس میں خان صاحب کا قصور نہیں۔

معصومانہ سا جواب تھا۔ اس لیے میں اس پہ صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ قائد اور وہ لیڈر جو ملک پاکستان کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کر رہا ہے، جو ملک میں تبدیلی لانا چاہ رہا ہے، وہ قائد اتنا بے خبر ہے کہ سازشی اس کے ساتھ بیٹھ کر اسے اس کی اپنی ہی پارٹی کے خلاف بغیر تحقیق، بغیر ثبوت، عزت داروں (اگر کوئی عزت دار ہے تو) کی عزتیں اچھالنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ سازشی اس قائد سے ملکی سلامتی اور عوامی مفادات کے خلاف بھی تو بہت کچھ کروا سکتے ہیں۔

یاد رہے سردار فیملی ضلع ایبٹ آباد کی ایک بڑی فیملی ہے، جس کا ایک فرد سردار ادریس بھی ہے۔ سردار ادریس کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے اور وہ تحریک انصاف کی صوبائی اسمبلی کے ممبر بھی ہیں۔ جس علاقے سے ان کا تعلق ہے وہاں کی رسم ہے کہ جب کسی خاندان کے کسی باعزت شخص پر اس طرح کا کوئی الزام لگے جس سے قوم قبیلے کی عزت پہ حرف آتا ہو تو پوری قوم اس الزام کی تحقیق کرتی ہے۔ جرم ثابت ہو جانے پر اس شخص کا محاسبہ کیا جاتا ہے۔ بصورت دیگر الزام لگانے والے کی گرفت کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں پہلی بار ایک قومی لیڈر نے ایک مقامی نمائندے پہ ایک ایسا الزام لگا دیا ہے جو سردار فیملی کے لئے بھی ایک امتحان ہے۔ اب اگر یہ الزام جھوٹا ثابت ہوتا ہے تو پھر سردار فیملی کی طرف سے عمران خان کے خلاف کیا ردعمل آتا ہے؟ کیا سردار فیملی مشترکہ طور پر تحریک انصاف کا ہر سطح پر بائیکاٹ کرنے کے لئے پوری سردار برادری کو متحد کر پائے گی؟ میں یہ سمجھنے سے بلکل قاصر ہوں کہ سردار ادریس ایک طرف قرآن پر حلف دے رہے ہیں کہ میں بے گناہ ہوں اور دوسری جانب وہ عمران خان کو بھی مجبور ثابت کر رہے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقعہ ہے کہ ایک پارٹی لیڈر اپنی ہی جماعت کے متعدد راہنمائوں پر ضمیر فروشی، ایمان فروشی کا دھبہ لگا رہا ہے۔ ان ضمیر فروش یا ایمان فروشوں میں سے ایک شخص پریس کانفرنس کر کے قرآن ہاتھ میں اٹھا کر قسم بھی کھا رہا ہے کہ میں نے یہ جرم نہیں کیا اور ساتھ ہی ساتھ الزام لگانے والے کو بھی سازشیوں میں گرا ہوا کہہ کر اس کا دفاع بھی کر رہا ہے۔

یہ مفاد پرستی کی عجیب داستان ہے جس میں عزت، غیرت، انا، اور قوم قبیلے کی صدیوں کی روایات اور عزت و احترام کی دھجیاں اڑا کر یہ موقف اپنایا جا رہا ہے کہ میرے لیڈر کو سازشیوں نے گھیر رکھا ہے۔

یہ کیسا لیڈر ہے جو سازشیوں کی سازشوں میں آ کر اپنے مخلص ترین احباب کو ایمان فروش اور غدار کا ٹائٹل دے رہا ہے اور سازشیوں کو اپنی بغل میں پناہ بھی دے رہا ہے۔ وہ کیا مجبوری ہے جو ایک قبیلے کے سردار کو، پورے قبیلے کی بدنامی پر بھی ایک ایسے شخص کو لیڈر ماننے پر مجبور کر رہی ہے جسے اپنے پرائے، وفادار اور غدار کی پہچان ہی نہیں۔