counter easy hit

اوباما اور پاک امریکا تعلقات

on controversy said the Monkey to Michelle Obama, mayor resigns

on controversy said the Monkey to Michelle Obama, mayor resigns

صدر اوباما نے گزشتہ بدھ 18 جنوری کو امریکی ایوان صدر وہائٹ ہاؤس میں بحیثیت صدر اپنی آخری پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس کے دوران انھوں نے اپنے بعض متنازعہ فیصلوں کا دفاع کیا جن پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہائٹ ہاؤس کے آگے آخری بار کھڑے ہوئے اوباما نے کیوبا کے ساتھ اپنی انتظامیہ کے ’’ویزا فری‘‘ سہولت کے خاتمے سے متعلق فیصلے کا بھی دفاع کیا۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے اپنے بعد عہدۂ صدارت سنبھالنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خبردار بھی کیا کہ وہ ان کے بعض اہم فیصلوں کو منسوخ کرنے کی غلطی سے اجتناب کریں۔ اس موقع پر انھوں نے سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے اپنی امیگریشن پالیسی کا خاص طور سے ذکر کیا اور کہاکہ اگر صدر ٹرمپ نے امریکا میں غیر قانونی طور آنے والے بچوں کو ملک بدر کرنے کی کوشش کی تو وہ اس پر خاموش ہوکر نہیں بیٹھیں گے۔

آٹھ سال پہلے جب اوباما نے امریکا کے صدر کی حیثیت سے وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھا تھا تو اس وقت انھیں یہ فوقیت حاصل تھی کہ ان کے پیش رو کے دور کا ریکارڈ خاصا خراب تھا۔ اوباما کے مسند صدارت سنبھالنے کے وقت وال اسٹریٹ کے حالات بھی اچھے نہیں تھے مگر ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد رفتہ رفتہ ان میں بہتری آنا شروع ہوگئی۔ اس کے علاوہ ان کی ہیلتھ کیئر اصلاحات نے بھی امریکی معاشرے کو بڑا فائدہ پہنچایا جن سے 25 ملین سے بھی زیادہ امریکی شہریوں کو بڑا فیض حاصل ہوا جو اس سے قبل ان سہولتوں سے قطعی محروم تھے۔

افسوس کہ وہ ان سہولتوں کا دائرہ تمام امریکیوں تک وسیع نہ کرسکے جس کا وعدہ انھوں نے ابتدا میں صدارتی امیدوار کے طور پر کیا تھا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے اس وقت بارک اوباما کو ان کے کام اور کردار کے بجائے ان کی چمڑی کے رنگ کے پیمانے سے ناپا تھا، اس سوچ سے بلاشبہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے متعصبانہ رویے کی بو صاف طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔

تاہم ان کی صدارتی فتح ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس نے یہ ثابت کردیا کہ سیاہ فام ہونا کوئی جرم یا گناہ نہیں ہے۔ اوباما کے دونوں صدارتی ادوار کے دوران ان کا ذاتی کردار بھی ہر لحاظ سے بے داغ رہا۔ ان کی فیملی بھی کسی بھی قسم کے اسکینڈل سے پاک اور مبرا ہے جس کا اعتراف ان کے مخالفین کو بھی کرنا پڑے گا۔ ان کے بعض پیش روؤں کے حوالے سے یہ بات خاص اہمیت کی حامل ہے۔

2008 میں جب اوباما اپنی انتخابی مہم چلارہے تھے تو ان کے مخالفین نے ان پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ قانوناً امریکی شہریت نہیں رکھتے اور یہ کہ ان کا برتھ سرٹیفکیٹ جعلی تھا۔ امریکا کے نئے صدر ٹرمپ اس الزام تراشی میں انتہائی سرگرم تھے اور انھوں نے اس بات کو کئی برس تک اچھالا تھا، ابھی پچھلے ہی سال انھوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ اوباما سچ مچ اور باقاعدہ امریکا کی شہریت کے حامل ہیں۔ اوباما نے اپنی آخری پریس کانفرنس کے دوران اپنے بعد آنے والے امریکی ہم منصب کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ اسرائیلی، فلسطینی تنازعہ کے حل کی تلاش میں دو ریاستی فارمولے کو ترک نہ کریں۔

اوباما کو دو جنگیں اپنے پیش رو سے ورثے میں ملی تھیں، ان میں سے ایک جنگ افغانستان کی تھی اور انھوں نے اپنی مدت صدارت سے قبل ختم کرنے کا عہد بھی کیا تھا، جس کی وہ تکمیل نہیں کرسکے۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ افغانستان کے بارے میں وہ کوئی واضح حکمت عملی وضع کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور ان کی انتظامیہ محض پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کرتے رہنے پر ہی اصرار کرتی رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان کا مسئلہ اب امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتقل ہوگیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں اور کیا حکمت عملی وضع کرتے ہیں۔

غالب اندیشہ یہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی مختلف پالیسی اپنانے کے بجائے شاید پاکستان پر ہی اپنا دباؤ بڑھا دیں، کیونکہ ان سے خیر کی توقع مشکل ہی سے کی جاسکتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والا اوباما پاکستان کے لیے اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ نہ رکھ سکا، ری پبلکن پارٹی والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کوئی نیک توقع بھلا کیونکر رکھی جاسکتی ہے۔ دوسروں کو بھلا کیا دوش دیا جائے جب کہ خود وطن عزیز کا حال یہ ہے کہ ہمارا دفتر خارجہ تو ہے مگر تاحال کوئی وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا گیا۔ بس مشیروں سے گزارا کیا جارہا ہے اور ہمارے وزیراعظم وزارت خارجہ کا اضافی قلمدان بھی خود ہی سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس میں کیا بعید یا مصلحت پوشیدہ ہے اس کا علم یا تو خود وزیراعظم کو ہے۔

بارک اوباما کے صدر بننے کے بعد پاکستان میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی جس کا بنیادی سبب یہ خوش فہمی تھی کہ ان کے اسم گرامی کے درمیان لفظ ’’حسین‘‘ بھی شامل تھا، غالب گمان یہی تھا کہ وہ امریکا کے دیگر صدور سے بہت بہتر اور پاکستان دوست ثابت ہوںگے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ انھوں نے عراق کی جنگ کی کھل کر مخالفت کی تھی، اس کے علاوہ وہ اپنی والدہ کی طرح ایک مرتبہ پاکستان بھی تشریف لاچکے تھے، وہ پاکستانیوں کے ساتھ بھی رہ چکے تھے، جنھیں انھوں نے اپنا قریبی دوست کہا تھا، وہ انھیں خوشی کے ساتھ ’’ کیا حال ہے سیٹھ‘‘ کہہ کر خوش آمدید بھی کہا کرتے تھے وہ نہ صرف لفظ ’’پاکستان‘‘ کا بالکل درست تلفظ کیا کرتے تھے بلکہ باآسانی دال اور قیمہ بھی پکا سکتے تھے۔

پاکستانی کلچر کے ساتھ ان کی شناسائی بھی خوب تھی اور پاکستانی شاعروں اور کھانوں کے ساتھ ان کی واقفیت بھی بہت خوب تھی۔ ان اوصاف کی وجہ سے پاکستانی عوام میں صدر بننے کے بعد ان کی مقبولیت میں بڑا زبردست اضافہ ہوا، ویسے بھی بہت جلد بہت زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہوجانا اور اسی طرح سے بصورت دیگر زود رنجی کا شکار ہوجانا ہم پاکستانیوں کی فطری کمزوری ہے، چنانچہ اوباما کے معاملے میں ایسا ہوجانا کوئی انوکھی بات نہیں۔ اس لیے 2012 میں جب وہ دوسری بار صدارتی الیکشن لڑنے کے لیے کھڑے ہوئے تو پاکستان میں ان کی غیر مقبولیت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ سال ہی ہوا تھا کہ وہ شدت پسند گروپوں کے خلاف امریکا اور پاکستان کی مشترکہ کاوشوں میں پیش رفت سے مایوس ہوگئے اور انھوں نے ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ کردیا۔ یہ ان کی پالیسی میں ایک ڈرامائی تبدیلی تھی۔

اوباما کے نزدیک اب پاکستان کی اہمیت محض امریکی مفادات کو لاحق ہونے والے خطرات تک محدود ہوکر رہ گئی تھی، امریکا کی کرسی صدارت سنبھالنے کے وقت ان کی خواہش افغان جنگ میں فتح حاصل کرنے کی تھی، جس کے لیے انھیں فوری نتائج درکار تھے، اس سلسلے میں جب تک انھیں پاکستان کا تعاون حاصل رہا اور انھیں پاکستان سے دلچسپی رہی اور جب انھیں اپنا مقصد حاصل ہوتا ہوا نظر نہ آیا انھوں نے اپنا رخ تبدیل کرلیا۔ امریکی صدور کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ انھوں نے پاکستان کو ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا ہے اور اس کے بعد اپنا منہ پھیرلیا۔

اگرچہ انھوں نے بات جمہوریت کی کی لیکن اپنا اُلو سیدھا کرنے کے لیے پشت پناہی آمرانہ حکومتوں کی ہی کی۔ 1971 میں امریکا پاکستان کو تسلیاں دیتا رہا کہ اس کا ساتواں بحری بیڑہ مشرقی پاکستان میں مدد کے لیے پہنچنے والا ہے مگر پاکستان دولخت ہوگیا اور یہ بیڑہ پھر بھی نہ پہنچا اس سے قبل 1962 میں بھی چین کے ساتھ بھارت کی جنگ کے موقع پر بھی امریکا نے پاکستان کو اپنے دباؤ میں رکھ کر ایک اچھا موقع ضایع کرادیا ورنہ تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا ہوتا۔

اوباما مسلسل دو بار امریکا کے صدارتی منصب پر فائز رہے لیکن انھیں ایک مرتبہ بھی پاکستان کا دورہ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی جس سے ان کی ذہنیت کی واضح طور پر عکاسی ہوتی ہے، البتہ پاکستان کے حریفوں سے ان کی ہمدردی صاف ظاہر ہے جس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ امریکا کے 44 ویں صدر کی حیثیت سے 18 جنوری بروز بدھ شام کے وقت وہائٹ ہاؤس چھوڑنے سے قبل انھوں نے بھارت اور افغانستان کے حکمرانوں کو ٹیلی فون پر الوداع کہا۔

انھوں نے جاتے جاتے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداﷲ عبداﷲ سے اقتدار میں شراکت داری کے اس بندوبست کو قائم رکھنے کی ہدایت کی جو ان کی انتظامیہ کے زیر سایہ طے پایا تھا۔ دوسری جانب بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ٹیلی فون پر اپنے الوداعی رابطے میں انھوں نے امریکا کے ایک کلیدی دفاعی شراکت دار کے طور پر  اس سلسلے کی پیش رفت کے بارے میں گفتگو کی جو ان کی انتظامیہ کے پرچم تلے شروع ہوا ہے اس موقع پر اوباما کو پاکستان کا خیال تک نہ آیا یہ ہے پاک امریکا تعلقات کا لب لباب۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website