counter easy hit

صرف جمال خاشقجی کو ہی نہیں بلکہ 34 صحافیوں کوقتل کیا گیا۔۔

لاہور(ویب ڈیسک) سال 2018 میں جنگ اور تنازعات کا خطرہ تو کم ہوگیا لیکن صحافیوں کو ان کے کام کی بنا پر حملوں کا نشانہ بنائے جانے کا خطرہ بڑھ گیا،، میڈیا واچ ڈاگ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال قتل ہونے والے 53 میں سے 34 صحافیوں کو باضابطہ طور پر ہدف بنا کر قتل کیا گیا نیو یارک سے تعلق رکھنے والے میڈیا واچ ڈاگ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ صحافیوں کو رواں سال ان کے کام کی بنا پر قتل کے لیے نشانہ بنائے جانے والے واقعات کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریبا دگنی رہی، جس کی بنا پر فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک ہونے والے صحافیوں کی مجموعی تعداد بھی زیادہ ہے۔ رپورٹ میں پیرس سے تعلق رکھنے والے میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز وِد آٹ بارڈرز کی اسی طرح کی رپورٹ پر خدشات کی گونج بھی سنائی دی، جس نے بلاگرز، شہریصحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ملا کر رواں سال قتل کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد 80 بتائی تھی۔دونوں رپورٹس میں کہا گیا کہ رپورٹرز کو انتقام کے لیے نشانہ بنانے کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، ساتھ ہی واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کو ڈھٹائی قرار دیا گیا۔ سی پی جے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ صحافیوں کو کام کے دوران قتل کیے جانے کے واقعات کی تعداد گزشتہ تین سالوں کے دوران سب سے زیادہ ہے، لیکن تنازع کے دوران ہلاک صحافیوں کی تعداد 2011 کے بعد کم ترین سطح پر رہی۔ رپورٹ کے مطابق 2017 میں 47 صحافی قتل ہوئے تھے جن میں سے 18 کو باضابطہ طور پر نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔ رواں سال صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک ملک افغانستان رہا جہاں شدت پسندوں کی جانب سے صحافیوں پر منصوبہ بندی کے تحت حملوں میں اضافہ ہوا۔ سی پی جے نے صحافیوںکے حقوق اور ان کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی قیادت کے فقدان کو افسوسناک قرار دیا، جس کی وجہ سے صحافیوں کے لیے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی ایلانا بیسر کا کہنا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق جس ریاست کے سربراہ نے سب سے زیادہ بات کی وہ ترک صدر رجب طیب اردوان تھے، جن کی حکومت نے موثر طور پر آزاد میڈیا کی آواز بند کی اور جہاں مسلسل تیسرے سال دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ صحافیوں کو جیل ہوئی۔واچ ڈاگ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ وہ 2018 میں دیگر 23 صحافیوں کے قتل کی تحقیقات بھی کر رہا ہے، تاہم اس بات کی تصدیق نہیں کی جاسکتی کہ ان کی ہلاکت فرائض کی انجام دہی کے دوران ہوئی یا نہیں ، اس رپورٹ پر بہت سے سوال کھڑے ہو گئے ہیں،،