counter easy hit

مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہیں

کسی نے مظلوم کا اصل مفہوم سمجھنا ہو تو جا کر برما کے روہنگیا مسلمانوں کی حالت ِزار دیکھ لے۔ بلاشبہ اس وقت روئے زمین پر مظلوم ترین انسان وہی ہیں جن کے نہ کوئی حقوق ہیں نہ شہریت۔ ہم نے قانون کی کتابوں میں اور انسانی حقوق کے چارٹرز میں پڑھ رکھا تھا کہ حقوق کے لیے انسان ہونا کافی ہے مگر چونکہ وہ رحمت للعالمین حضرت محمدﷺکے پیروکار ہیں اس لیے اُن پر حقوق کے تمام دروازے بند کر کے صرف موت کا دروازہ کھول دیا گیا ہے۔

انسانی معاشروں نے تہذیب و تمدن کے کتنے ہی سنگ ِ میل طے کیے اور انسانی حقوق کے کتنے ہی چارٹر تحریر کیے ہیں مگر آج اکیسویں صدی میں بھی وہ حیوانیت اور درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے، دو ہفتے پہلے برما میں آرمی ہیلی کاپٹروں سے پٹرول بم پھینک کر روہنگیا مسلمانوں کے پچیس اور آج آٹھ دیہات جلادیے گئے ،پناہ لینے والی عورتوں کی مسجدوں میں گھُس کر آبرو ریزی کی گئی، بچوں کو جلایا جا رہا ہے، انسانیت شرم کے مارے منہ چھپا رہی ہے۔

برما کی فوج ایک سول ملیشیا کو اسلحہ اور ٹریننگ دیکر تیار کر رہی ہے تاکہ وہ مسلمانوں کو بربریت کا نشانہ بنا کر ختم کردے ۔چار لاکھ بے سہارا لوگ پہاڑوں اور جنگلوں میں چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یو این او کو خوراک اور پانی مہیا کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ دنیا کے ِان مظلوم ترین انسانوں کی خوف سے لبریز آنکھیں منتظر ہیں کہ کوئی آئے اور ان کی جانیں بچا لے اور انھیں زندہ رہنے کا حق دلا دے۔

بہت کم پاکستانیوں کو معلوم ہو گا کہ بر صغیر کی تقسیم کے وقت برمی مسلمان پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور پھر انھیں کبھی چین سے جینے نہ دیا گیا۔ برما پر قابض فوجی ٹولے نے ان بے سہارا مسلمانوں پر ہمیشہ مظالم کے پہاڑ توڑے، جس کے باعث وہ ساٹھ کی دہائی میں جانیں بچانے کے لیے سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش چلے گئے تھے، پھر اَسّی کی دہائی میں واپس آئے مگر انھیں ہر قسم کے حقوق حتٰی کہ شہریت سے بھی محروم کر دیا گیا۔

1982 ء کے سٹیزن شپ ایکٹ کے تحت برما میں مسلمانوں کو حقوق تو کیا وہاں کا شہری بھی تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ یعنی ایک ملک میں رہنے والے باشندوں کو وہاں کی شہریّت سے محروم کر دیا گیا ہے ۔وہ اپنے ملک میں ایک خاص حد سے آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ، ان کی پارلیمنٹ میں کوئی نمائیندگی نہیں کیونکہ وہ بے وطن اور بے شناخت ہیں۔ انھیں اپنے ہی ملک میں غیر ملکی یا  سب ہیومنز تصوّر کیا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم پاکستانی اور دیگر مسلمان ملکوں کے باشندے اپنے عیش و آرام کی زندگی میں مَست ہیں ، اس لیے برما کے مظلوم اور بے سہارا مسلمانوں کا صیحح درد محسوس نہیں کر رہے اور اپنی بے حسی اور بے عملی کو ایسے فقروں کے پیچھے چھپانا چاہتے ہیں کہ’’ ہمارے اردگرد تھوڑی زیادتیاں ہو رہی ہیں، ہم اُن سے تو نمٹ لیں برما تو پھر دور ہے ۔‘‘ اِن زیادتیوں کے ازالے کے لیے بھی آپ اپنا کردار ضرور ادا کریں مگر اُن مظلوموں کا بھی آپ پر حق ہے، ان کی جانیں بچانے اور ان کی مدد کرنے کے بھی آپ پابند ہیں ۔

اس لیے کہ آپ جس خالق و مالک کومانتے ہیںاُس کا حکم ہے کہ کسی بھی جگہ مسلمان تکلیف میں ہوں تو دوسرے مسلمان ان کی مدد کریں، تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس کا درد محسوس کرتاہے۔ ویسے تو اب مسلمان احکامِ خداوندی کی بھی اپنی مرضی اور پسند کی تشریح کرتے ہیں۔ چند احکامات پر عمل کر کے باقیوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ اگر قرآنی احکامات کو ہم دل و جان سے تسلیم کرتے تو اسی دُنیا کے ایک حصے میں رسول اللہﷺ کے پیروکاروں پر ظلم کے پہاڑٹوٹنے پر کبھی خاموش نہ رہتے۔ ب

اون مسلمان ملکوں میں ارتعاش برپاء ہو چکا ہوتا،کہیں او آئی سی کی میٹنگ ہو رہی ہوتی اور مسلم ممالک کے سربراہان بیانگ ِ دھل اس ظلم پر احتجاج کر رہے ہوتے، احتجاج اتنا مؤثر ہو تا کہ یو این او کے تمام ادارے متحّرک ہو چکے ہوتے اور سیکیورٹی کونسل ظالموں کا ہاتھ روک دیتی ۔ بدقسمتی سے مذہب اور مذہب کی بنا ء پر تعلق کے معاملے میں ترکی اور ایران کے سوا تمام ممالک مغرب کے سامنے معذرت خواہانہ روّیہ اختیار کر چکے ہیں۔

تو قّع کے بر عکس تین لبرل خواتین کا مؤقف بڑا واضح اور قابل ِ تحسین رہا ہے ، ایک ٹی وی پروگرام میں سینیٹر شیری رحمان اور محترمہ عاصمہ جہانگیر نے برمی مسلمانوں پر مظالم کی مذمّت کی اور برما کی رہنما آنگ سان سوچی اور حسینہ واجد کے روئیے کو  کالس قرار دیا۔ ملالہ یوسف زئی نے برطانیہ سے ایک بیان میں کہا ہے کہ’’ عالمی برادری میانمار کے مسلمانوں کو بچانے کے لیے مداخلت کرے ، ملالہ نے درست کہا کہ بے گھر ہونے والے مسلمانوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے اور ہمیں جاگنا ہوگا۔‘‘ ایک چھوٹا ساملک دو ارب مسلمانوں کا کوئی وزن محسوس نہیں کر رہا۔ دانائے راز نے دل گرفتہ ہو کر سو سال پہلے مسلمانوں کی بے حسی پر کہا تھا کہ

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں خاک کا ڈھیر ہے

یو این او کے بعد او آئی سی سب سے بڑا عالمی فورم ہے۔ او آئی سی کے اہم ترین ممالک اپنے بکھیڑوں میں الجھے ہوئے ہیں، سعودی عرب جو پوری عرب دنیا کا غیر متنازعہ لیڈر مانا جا تا تھا اور اس خّطِے میں ہی نہیں پورے عالمِ اسلام میں مختلف ملکوںکی باہمی آویزشوں میں مصالحانہ کردار ادا کیا کرتا تھا، آج خود بلا وجہ اور غیر ضروری قسم کے قِضیوں میں الجھ گیا ہے۔ زیادہ تر مسلمان حکمران ،نسل کو نظرئیے پر فوقیت دیتے ہیں، اسلام کے شاعرِ اعظم اقبال ؒنے بہت پہلے واننگ دی تھی کہ

نسل گر مسلم کی مذہب پر مقدّم ہو گئی
مٹ گیا دنیا سے وہ مانندِ خاک ِ رہ گذر

پاکستان میں امن اور معیشت کے حالات بہتر ہوئے تھے، ملک ترقی کی ڈگر پر چلتا ہوا نظر آنے لگا تو عالمی منصوبہ ساز متحرک ہو گئے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں شروع ہو گئیں۔ عالمی امور پر نگاہ رکھنے والوں کے بقول پاکستان بھی سازشوں میں گھر گیا ہے۔ صرف ترکی ہے جو تمام تر مسائل کے باوجود مسلمانوں کا مقدّمہ پوری جرات سے لڑتا ہے اور مسلمانوں پر کہیں بھی افتاد آپڑے تو پوری فراخدلی سے مدد کر تا ہے۔ اب بھی ترکی کے مرد ِ آہن اور عالم اسلام کے سب سے قد آور رہنما طیب اردوان مظلوم برمی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں اور ان کی اہلیہ اور بیٹا بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے لُٹے پٹے روہنگیا مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ان کے کیمپوں میں پہنچ چکے ہیں۔

افسوس ہے کہ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ سے او آئی سی کی مظلوم مسلمانوں کے لیے جو آواز بلند ہوئی ہے اُس میں نہ جذبہ نہ جلال۔ پاکستان، ترکی، ملایشیا اور انڈونیشیا اکھٹے ہوکر کچھ اور ممالک کو ساتھ ملا کر یو این او کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو متحرک کریںاور سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کی کوششیں کریں۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ چین سے کہیں کہ وہ مظلوم مسلمانوں کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ اس وقت برما کے چین اور امریکا دونوں کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ امریکا نہ سہی ہمیں چین کے ساتھ بڑے مؤثر انداز میں بات کرنی چاہیے، اگر چین وارننگ دے تو برمی فوج ظلم ڈھانے سے باز آجائیگی۔

اس کے علاوہ برما کے دروازے کھلوانے کی کوشش کی جائے تاکہ اقوام ِ متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیمیں،او آئی سی کے نمایندے اور میڈیاخود جاکر اس انسانی المیے کا مشاہدہ کر سکیں۔ وزارت خارجہ کو چاہیے کہ احمر بلال صوفی  جیسے بین الاقوامی قوانین کے ماہرین کی خدمات حاصل کرے اور تمام متعّلقہ عالمی اداروں میں بڑے مؤثر انداز میں انسانی نسل کشی کے اس بد ترین سانحے کا مقدمہ پیش کیا جائے۔

برمی سفیر کو بلانا ہی کا فی نہیں، پاکستان کو کھل کر غم و غصّے کا اظہار کر نے کے لیے برمی سفیر کو کچھ عرصے کے لیے ملک سے نکال دینا چاہیے۔ مظلومین تک یہ پیغام پہنچنا چاہیے کہ دنیا بھر کے مسلمان بھائی نہ صرف ان کا درد محسوس کر رہے ہیں بلکہ ان کے ساتھ ہیں اور ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی ادارے اس لیے خاموش ہیں کہ مظلومین مسلمان ہیں۔ اگر اس طرح کے واقعات کا سواں حصہ بھی دنیا کے کسی حصے میں عیسائیوں کے ساتھ ہوتا تو ابھی تک امریکا اور یورپ کی طرف سے سخت ترین ایکشن کی دھمکیاں آچکی ہوتیں اور یو این اومتحرک ہو چکی ہوتی۔ حکومت ِ پاکستان کو چاہیے کہ فوری طور پر امدادی سامان اور میڈیکل ٹیمیں بنگلہ دیش اور برما بھیجے، نیز برما کے کچھ مظلومین کو پاکستان لا کر آباد کیا جائے۔ بڑا حصہ پنجاب میں آباد کیا جانا چاہیے ، ان کے نوجوانوں اور خواتین کوہمارا ادارہ  نیوٹیک چھ ماہ کی ٹریننگ دیکر اتنا اچھا ہنر سکھا دیگا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے اور کسی پر بوجھ نہیں بنیں گے۔