counter easy hit

نواز شریف اپنا سیاسی نقصان کررہے ہیں

Nawaz Sharif is losing his political careerاسلام آباد: تجزیہ کار مظہر عباس نے کہاہے کہ نواز شریف بار بار عدالتوں میں بیل کی درخواستیں دیکر اپنا سیاسی نقصان کررہے ہیں۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ نواز شریف بار بار عدالتوں میں بیل کی درخواستیں دیکر اپنا سیاسی نقصان کررہے ہیں

تفصیلات کے مطابق تجزیہ کار مظہر عباس نے کہاہے کہ نواز شریف بار بار عدالتوں میں بیل کی درخواستیں دیکر اپنا سیاسی نقصان کررہے ہیں۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ نواز شریف بار بار عدالتوں میں بیل کی درخواستیں دیکر اپنا سیاسی نقصان کررہے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ ان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے بیل ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر نواز شریف کی اپیل مسترد ہوجاتی ہے تو پھر نواز شریف کو سیاست کیلئے ایک فیصلہ کرنا پڑے گا کیونکہ عملی طور پر تو وہ اپیل مسترد ہونے سے غیر متعلقہ ہوجائیں گے۔

دوسری طرف مظہر عباس کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات کشیدہ ہیں اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے۔ حالات کوخراب کرنےکیلئےدونوں ہی لڑائی کی موڈ میں لگتےہیں۔ یقیناًیہ ملک کیلئے اچھا نہیں ہے بالخصوص جب کچھ رہنما تیسری پارٹی کی مداخلت کےبارےمیں باتیں کررہےہیں۔ لہٰذا ہم کہاں جارہےہیں اور حالات کو بہترکرنے کاکیا طریقہ ہے تاکہ الزامات کی جنگ لڑنےکی بجائےبڑھتے ہوئےمعاشی اور سیاسی چیلنجزکےجوابات تلاش کیےجاسکیں۔ اپوزیشن مڈٹرم انتخابات کامطالبہ کرسکتی ہے جیسا کہ کچھ رہنمائوں کی جانب سے کہاجارہاہےجبکہ کچھ حکومت کےساتھ سنجیدہ مذاکرات کی تجویزدےرہےہیں اس کیلئےاگر حکومت شروعات کرگی توہی ایساہوگا۔ جمہوریت میں یہ وزیراعظم ہی ہوتا ہے جو مشکل حالات میں رہنمائی کرتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان دوسری طرح سوچتے ہیں اور موجودہ حالات میں کم از کم وہ اہم معاملات پر اپوزیشن سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔آج اس پسِ منظرمیں پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی رہائش گاہ پر ’’گرینڈ سیاسی افطاری کی بہت زیادہ اہمیت ہے لیکن یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ یہ کسی ’گرینڈ اپوزیشن الائنس یا عید کے بعد حکومت مخالف کسی تحریک کاباعث بنےگی کیونکہ انھیں بھی ایک صفحے پر آنے کی ضرورت ہے۔اس وقت بڑی جماعتیں اپنی ہی صفحات پر کام کررہی ہیں۔ سیاسی عدم اعتماد کے پہلونےانھیں دور کیا ہوا ہے۔ پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کی 2007سے اور اب حال ہی میں ایک دوسرے پر سیاسی عدم اعتمادکی تاریخ ہے۔

دونوں نے 2018 کے انتخابات کےبعدایک اور موقع گنوا دیا جس کے باعث پی ٹی آئی کیلئےسینٹ اور وزیراعظم کے انتخابات میں سفرمزیدآسان ہوگیا۔ لہذا کافی زیادہ بسیں اور مواقع گنوانے کےبعدان کی لیڈرشپ کافی مشکل میں ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف بطور مجرم جیل میں ہیں جبکہ سابق صدر آصف زرداری بھی مشکل میں ہیں اور گرفتارکیےجاسکتے ہیں۔ ان کےخاندان کوبھی کرپشن کی تحقیقات کاسامانا ہے۔انھیں ’ایک صفحے‘ پر لانے کیلئےیہ ہی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔آج کی تقریب یقیناً میڈیا کی توجہ کا باعث بنے گی بالخصوص پی ایم ایل(ن)کی رہنما مریم نواز، جےیوآئی(ف)کے مولانا فضل الرحمٰن، اے این پی کے اسفند یار ولی، جماعتِ اسلامی کے اعلیٰ سطحی وفود اور حتٰی کے بلوچستان سے حکومت کے اتحادی اخترمینگل نے بھی دعوت قبول کی تھی۔اپوزیشن کے اتحادیوں نے اسے جی ڈے اے کی جانب ایک اہم قدم قراردیاہے اور افطار اور ڈنرکےبعد اپوزیشن نے مشترکہ حکمت عملی پر بات کی ہوگی تاکہ حکومت کو مشکل وقت دیاجائے۔