counter easy hit

باربار کہوں گا ، نواز شریف نے اس ملک کو پہلے بھی لوٹا ہے ، موقع ملا تو پھر بھی لوٹے گا ، مگر یہ بھاڑے کے ٹٹو ۔۔۔۔۔۔ ہارون الرشید نے تو حد ہی کر ڈالی ، شریف مافیا کا اصل مشن بے نقاب کر دیا

لاہور (ویب ڈیسک) ہر نام نہاد جمہوری لیڈر جذبات فروش ہوتا ہے اور خود پسند بھی ۔ آٹھ برس تک ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کو ڈیگال اور صلاح الدین ایوبی کہتے رہے ۔ کیسا ڈیگال اور کہاں کا صلاح الدین ایوبی ؟ بھٹو کے عہدِ اقتدار میں ایوب خان دنیا سے اٹھے تونامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

ریڈیو او رٹیلی ویژن کو خبر جاری کرنے سے روک دیا گیا ۔ اخبارات کو بمشکل دوسرے صفحے پر چھ سطری خبر چھاپنے کی اجازت دی گئی۔ عمر بھر جمہوریت کا گیت گانے والے قائدِ عوام 1977ء میں لاڑکانہ سے بلا مقابلہ منتخب ہوئے ۔ ان کے حریف مولانا جان محمد عباسی اغو اکر لیے گئے ۔ آٹھ انچ، تین کالم کی ایک تصویر اخبارات کے دفاتر میں موصول ہوئی ، جس کا کیپشن یہ تھا ’’فخرِ ایشیا، قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو جو لاڑکانہ کے حلقہ نمبر 163سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہو گئے ۔‘‘ یہ وہی حلقہ ہے ، جہاں جمعرات کے دن بھٹو کا نواسہ پانچ دن تک در در بھیک مانگتا رہا مگر دھتکار دیا گیا ۔ کل پھر وہ جیت سکتاہے ۔ اس لیے کہ دیہی سندھ جہالت کا ایک عظیم گڑھ ہے ۔ بھٹو اور بے نظیر کی قبروں پر دیہاتی دعائیں مانگتے ہیں ۔ صوفیا اور درویشوں کی طرح انہیں مقدس مانتے ہیں ۔ بلاول بھٹو کی گاڑی کے ساتھ ساتھ ہاری بھاگتے ہیں ۔ ایک بار اپنے ہاتھ سے چھو لینے کی بے تاب تمنا کے ساتھ ۔ بھٹو وہ تھے جنہوں نے جمعیت علمائِ اسلام کے مولانا شمس الدین ، جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر نذیر ، خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق اور احمد رضا قصوری کے باپ کو قتل کرایا ۔ بعض کو اپنی ذاتی فوج فیڈرل سکیورٹی فورس کے ذریعے ۔ سینکڑوں دوسرے لوگوں کو بھی ۔ 1977ء کی احتجاجی تحریک میں 329افراد قتل کیے گئے اور کم از کم چالیس ہزار جیلوں میں تھے ۔ اوّل تو حکومت کا حق تھا ہی نہیں ۔اس لیے کہ 1970ء کےالیکشن میں اکثریت شیخ مجیب الرحمٰن کو ملی تھی ۔

بھٹو کی حمایت صرف پنجاب اور سندھ میں تھی ، جہاں آسانی سے صوبائی حکومتیں وہ تشکیل دے سکتے تھے مگر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کی پشت پناہی سے وہ شیخ مجیب الرحمٰن کی راہ میں حائل ہو گئے ۔ اقتدار کے تین بھوکے ۔ انہی کی کشمکش نے ملک کو دولخت کر ڈالا ۔ یحییٰ خاں صدارتی نظام چاہتے اور صدر بننے کے آرزومند تھے ۔ ان دو صوبوں کے علاوہ ، پیپلز پارٹی کو جہاں اکثریت حاصل تھی ، بھٹو مرکز میں بھی شرکتِ اقتدار پہ مصر تھے ۔ ذرا سا صبر شیخ مجیب الرحمٰن میں ہوتا تو اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی گودمیں آگرتا مگر اقتدار کے بھوکوں میں انتظار کی تاب کہاں ۔ میاں محمد نواز شریف جنرل محمد ضیاء الحق کے لے پالک تھے ۔ بغاوت اٹھی تو پنجاب اسمبلی میں کھڑے ہو کر جنرل نے کہا کہ میری عمر اسے لگ جائے ۔ یہ دعا قبول ہوئی اور چار عشروں کے لیے شریف خاندان ملک پہ مسلّط ہو گیا ۔ تاریخ سے نا آشنا، سچائی کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہوئے خوش فہم یابھاڑے کے ٹٹو اب نواز شریف کو جمہوریت کا ہیوی ویٹ چیمپئن ثابت کرنے پر تلے ہیں ۔ وہ آدمی، جس نے جی بھر کے ملک کو لوٹا اور موقع ملا تو پھر لوٹے گا ۔ مقبول نواز شریف بہت ہیں ، بھٹو ان سے بھی زیادہ تھے، عمران خان بھی لیکن ترجیح ان سب کی اقتدار ہے ۔ من مانی کرنے والے خود پسند اور اقتدار کے بھوکے ۔ کپتان نے انتظار کیا ہوتا تو اقتدار کی شاخ خودبخود اس کے قدموں میں جھکتی لیکن بے تاب کر دینے والی بھوک میں صبر کہاں۔ پروردگار، اپنی قوم اور خود پر اعتماد کرنے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے انہوں نے مفاہمت کر لی اور یہی موصوف کے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ خلقِ خدا کی بہبود نہیں ، یہ صرف ذاتی نمود کے تمنا ئی ہیں اور سرکارؐ کا فرمان یہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتاہے ۔ہمارے لیڈر اقتدار کے بھوکے اور ہم سب فریب خوردہ ۔

Nawaz Sahreif, looted, country, and, will, be, in, future, also, says, haroon rasheed

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website