counter easy hit

منیبہ مزاری ہو یا بُشریٰ مانیکا- ہم سب ایک ہیں

کافی عرصے کی غیرحاضری کے بعد لکھنے کا موقع ملا۔ گھر سے باہر نوکری کرنے والی خاتون کی زندگی کس قدر مصروف اور مشکل ہوتی ہے اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو اس میدانِ جنگ اور اس کی پیچیدگیوں سے واقف ہو۔ میں کبھی کبھی خود حیران ہو جاتی ہوں جب میں خود کو اور اپنے جیسی ہزاروں عورتوں کو دیکھتی ہوں جو پورا دن گھر سے باہر کام کرتی ہیں اور جیسے ہی گھر میں داخل ہوتی ہیں تو گھر کے کام اسے آن گھیرتے ہیں۔

میں اپنا محاسبہ اور موازنہ کرتی ہوں تو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہوں کہ عورت ہے کیا؟ لامتناہی جوابات میرے شعور کو جھنجھوڑتے ہیں اور لاشعور میں نجانے کتنے احساسات محسوس ہوتے ہیں۔

بیٹی، بہن، بیوی، ماں، یہ عورت نامہ ہے۔ ایک ایسی تحریر جِسے سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مرد نے دو تھپڑ رسید کر کے موٹی سی گالی دی عورت نے اپنی گود میں بیٹھے بچے کو دیکھا اور خاموش ہو گئی۔ یہ ایک عکس ہے۔ ایک رُخ ہے اس تصویر کا جو آج بھی ہم سے چیخ چیخ کے یہ کہتی ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جو ایک کامیاب عورت کا وجود برداشت نہیں کر سکتے۔ کامیاب تو درکنار جہالت اور ذلت کی پستیوں میں غرق ایک مجبور عورت کو مزید روندنے میں یہ معاشرہ فخر کرتا ہے کیونکہ مرد حاکم ہے اور عورت محکوم ہے۔ اپنی سماعتوں کو بہرا، آنکھوں کو اندھا اور فکر و آگہی کی سبھی بتیاں گُل کر کے یہ اگلی چند سطور پڑھئے

مبارک ہو آپ کا بیٹا کامیاب ہوا۔ جی بہت شکریہ، آخر خون کس کا ہے

ایسی اولاد سے خُدا بچائے بوڑھے باپ کو کُتے کے ٹھیکرے میں پانی پِلا دیا۔ بس جی کیا کہیں “ماں” نے تربیت ہی ایسی کی ہے

ارے آپ کی بہو تو چندے آفتاب چندے ماہتاب ہے۔ جی بالکل آخر میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ کوئی مذاق ہے کیا۔

دیکھو تو نواب زادی کتنا سالن کھاتی ہے۔ “ماں” نے سسرال کے طور طریقے سکھائے ہوں تو پتہ ہو

اور نجانے ایسی کتنی باتیں ہیں جو اگر رقم کروں تو اصل موضوع تشنہ رہ جائے۔ ہمارا معاشرہ عورت کو کسی حال میں نہیں بخشتا۔۔

گھریلُو ناچاقی سے لے کر طلاق تک اور شوہر کی تھوڑی کمائی سے لے کر تیسری بار پھر بیٹی کو جنم دینے تک قصوروار عورت ہی ہے۔ عورت کے کرم اور اُس کا نصیب یہ دونوں چیزیں کب اس کا جرم بن جاتی ہیں پتا ہی نہیں چلتا۔ دنیا جہان کی بدترین گالیاں بھی تب ہی تکمیل کی منزل پہ پہنچتی ہیں جب اُن میں ماں اور بہن جیسے معتبر رشتوں کی آمیزش کی جائے۔ سبز قدم قرار دیئے جانے سے لے کر منحوس ہونے تک اور بدصورت ہونے سے لے کر جنم جلی کہلانے تک سارے خطبات، القابات، استعارات اور تشبیہات عورت ہی کے لئے ہیں۔

میں یہ سب کیوں لکھ رہی ہوں اور اپنا خون کیوں جلا رہی ہوں اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ میں ایک عورت ہوں ایک بیٹی، بیوی اور ماں ہوں شاید یہ ایک وجہ ہے۔ لیکن ٹھہریئے اصل وجہ وہ ویڈیو ہے جو ابھی فیس بُک پر نظروں کے سامنے سے گُزری۔ ویڈیو میں ایک شخص ہے جو اپنی مطلقہ بیوی کی پاکدامنی کی حمایت میں دلائل دے رہا ہے۔ ساتھ ہی لگے ہاتھوں جس سیاسی لیڈر سے اس کی سابقہ اہلیہ منسوب کی جا رہی ہے اس مَرد کی بھلائی اور پاکیزگی کے قصے بھی سُنا رہا ہے۔ متعلقہ ویڈیو کے نیچے فیس بُک کے مجاہدین، علامے اور مولانے اور لبرلز اور فہرست خاصی طویل ہے ان کے کمنٹس بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور کیوں نہ پڑھیں بھئی بےغیرت ہم ویسے ہی ہو چکے ہیں۔ دل ہمارے مردہ اور سخت ہو چکے ہیں۔ آزادئِ اظہار کے بے دریغ اور لا محدود استعمال میں ہماری قوم اتنی ماہر ہو چکی ہے کہ ماہرانہ آراء کا ایک تانتا اور سیلِ تند رو ہے جو تھمنے میں نہیں آتی۔ گمان گزرتا ہے کہ واہ کیا دانشوروں پہ مبنی قوم ہے جو نہ اخلاقیات کی پرواہ کرتی ہے اور نہ ہی ذاتیات پہ اُترنے سے گریز۔ ایک پاگلوں کا ٹولہ ہے جو بیٹھ کے روٹیوں کو توڑنے کے ساتھ ساتھ کی بورڈ پہ اپنی انگلیاں توڑنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

مجھے اس تحریر میں نہ ہی عمران خان سے کچھ کہنا ہے اور نہ ہی بشریٰ مانیکا سے مجھے کوئی سروکار ہے۔ میرا دُکھ صرف یہ ہے کہ ہماری تماشبین قوم اور انتہا کی حدوں کو چھوتا غیر ذمہ دار میڈیا جن کی رگوں میں غیرت اور شرافت کی بجائے بےغیرتی اور بھونڈا پن دوڑ رہا ہےصرف اپنی نیوز فیڈز، والز، پوسٹس اور نام نہاد ریٹنگ کی خاطر بریکنگ نیوز کا تڑکہ لگا کر چار بچوں کی ماں کی عزت کو نیلام کر رہے ہیں۔ رہ گئے سیاسی لیڈر تو سیاست پاکستان میں صاف تھی ہی کب؟ سیاسی طہارت تو اقبال اور قائد کے جانے کے ساتھ ہی رُخصت ہو گئی۔ یہاں جو سیاست میں ہے اُس کا وطیرہ یہ ہے کہ جو کہنا ہے کرنا نہیں ہے اور جو کرنا ہے کہنا نہیں ہے۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ جب سے اس تیسری شادی کا واویلا مچا ہے تب سے لے کر اب تک ایک بیٹے کو اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اپنی ماں کے دفاع کے لئے ٹی وی پر آنا پڑا اور ایک شوہر کو اپنی سابقہ اہلیہ کی عفت کے حق میں دلائل دینے پڑے۔ کیا یہی وہ معاشرہ ہے جس کا سید و سردار شاہِ لولاک ماں کے قدموں تلے جنت اور بیٹی کو رحمت بتاتا ہے؟

المیہ یہ ہے کہ پاکستان اور اس معاشرے میں ایک عورت کی عزت اور اس کے وقار کی نہج کیا ہے اس کا ادراک کوئی نہیں کر سکا۔ ہمیں معذرت کے ساتھ کوئی کامیاب عورت کہیں بھی ہو کیسی بھی ہو برداشت نہیں ہوتی۔ ہمیں زبیدہ طارق کے خاموشی سے گزر جانے پہ افسوس تو بہت ہوتا ہے لیکن ان کی زندگی میں ہم  ان کی عزت کر سکتے۔ ہمیں پڑھے لکھے بغیر دانشور بننے کا بہت شوق ہے اس لئے ہم ملالہ یوسفزئی کو غدار اور ایجنٹ اور نجانے کیا کیا کہنے سے نہیں چُوکتے۔ ہمیں منیبہ مزاری کی کامیابیاں ہضم نہیں ہوتیں اس لئے ہم ایک ذاتی مسئلے کی بنیاد پر اسے ہیرو سے زیرو بنا دیتے ہیں۔

یہ ہمارا قومی فریضہ ہے کہ ہم جس چیز کے بارے میں کچھ نہیں جانتے جس حقیقت سے ہم لاعلم ہیں اور اس کے متعلق کوئی مستند معلومات نہیں رکھتے ہم اس کو اپنی قیاس آرائیوں اور اپنی سوچ کی عینک لگا کے خود پرکھیں اور اس کے خلاف لکھیں۔ ہمارے اپنے گھروں میں کیا ہو رہا ہے وہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ ہم سب کچھ چھوڑ کے یہ فیصلہ ضرور کریں گے کہ وہ اچھی بیوی تھی یا نہیں۔ قارئین سے معذرت کے ساتھ یہ وہ آئینہ ہے جسے ہم دیکھنے سے شرماتے نہیں بلکہ کتراتے ہیں۔ بات فقط بشریٰ یا منیبہ کی نہیں بات ایک عورت کی ہے۔ بات اس عورت کی عزت کی ہے۔ بات یہ نہیں ہے کہ ایک طلاق یافتہ عورت کو رشتہ بھیجا گیا یا نہیں بات اس عورت اور اس کے گھر والوں کے مجروح شدہ احساسات اور عزت کی پامالی کی ہے۔ بات یہ نہیں ہے کہ ایک مَرد اپنی سابقہ بیوی کو ہتک عزت کا دعویٰ کر کے اسے ہرجانے کے نوٹس بھیجے اور عدالتوں میں گھسیٹے وہ بھی پانچ پانچ دفعہ۔ بات اس عورت کے وقار کی ہے۔

افسوس کے ساتھ ہم وہ معاشرہ ہیں جو بیمار بکریوں کے یکطرفہ ریوڑ کی طرح آزادئِ اظہار حق کے نام پر لوگوں کی عزت اور غیرت پہ رائے قائم کر کے پلتا ہے۔ جب تک ہم کسی انسان کی کردار کشی نہ کرلیں ہمیں سکون نہیں ملتا۔ یہاں آج بھی حوّا کی بیٹی اپنے جائز حقوق کے لئے تڑپتی ہے۔ یہاں آج بھی بیٹے کو بوٹی اور بیٹی کو شوربہ ملتا ہے۔ اس معاشرے میں لڑکی کو یہ کہہ کر بیاہا جاتا ہے کہ بیٹی تیرا جنازہ ہی اب اس گھر سے نکلنا چاہئے۔ یہاں ایک عورت کی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ اس کا شوہر باہر جو چاہے کرتا رہے اس سکھایا جاتا ہے کہ اعتراض نہ کرو لوٹ کر وہ تمہارے ہی پاس آئے گا۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں ہم کیسی بیٹیاں اور بیٹے اس معاشرے کو دے رہے ہیں۔ ماڈرنزم کی لہر میں بہہ کر یا تو ہم انتہائی مغرب زدہ ہو جاتے ہیں یا پھر اسلام کے نام پر خطرناک حد تک مشرق زدہ۔ ہمارے یہاں اعتدال کا راستہ وجود ہی نہیں رکھتا اور اگر ہے تو انتہائی پُرخار ہے۔ مرد ہو یا عورت وہ کچھ اچھا کرے تو ہم سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور اگر کوئی ذرا سی بات اس کے خلاف آ جائے تو ہم اسے اتنا لتاڑیں گے، دلائل کی وہ مار ماریں گے اس کے کردار کو اس حد تک پرکھیں گے کہ اس کو اپنی زندگی موت سے بدتر لگنے لگے۔

بخدا یاد رکھئیے عورت معاشرے کی معمار ہوتی ہے۔ عورت ماں ہو یا ویشیا سب سے پہلے عورت ہوتی ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ منٹو نے کیوں لکھا تھا کہ “ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں عورت کوٹھا تو چلا سکتی ہے تانگہ نہیں۔” پھر ایک جگہ کہتا ہے کہ “ہم کوٹھے پہ بیٹھنے والی عورت کو تو نام دے سکتے ہیں لیکن کوٹھے پہ آنے والے مردوں کو نہیں۔” مجھے اس قوم کا اس سے بھیانک اور منافقت سے بھرا ہوا چہرہ نظر نہیں آتا۔ ہم عورت کو رشتوں کے نام سے پرکھنے کی بجائے اسے صرف عورت سمجھ کر کب سوچنا شروع کریں گے۔ چھوڑ دیجئے کہ وہ کسی کی ماں، بہن، بیوی یا بیٹی ہے بس یہ سوچئے کہ وہ ایک عورت ہے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہماری نیوز فیڈز اور لائکس کا کیا ہو گا اور ریٹنگ کیسے آئے گی؟ اشتہارات کیسے چلیں گے؟ بل بورڈز کون دیکھے گا؟ اور اگر آپ پُل کے دوسری طرف کھڑے ہیں تو یہ شعر آپ کی نذر ہے

میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں

میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں