counter easy hit

پاگلوں کی ماں : پنجاب کے مشہور شہر کھاریاں کی ایک عورت کی دکھ بھری کہانی اس خبر میں ملاحظہ کریں

Mother of Madness: See the sad story of a woman in Punjab's famous city Khats in this newsلاہور (ویب ڈیسک) پنجاب کی تحصیل کھاریاں کی سعدیہ اورنگزیب (فرضی نام) نہیں چاہتیں کہ ان کے اصل نام کے ساتھ ان کی زندگی کی اُن مشکلات کا ذکر کیا جائے جن کا سامنا تقریباً ہر اس بچے کی ماں کو کرنا پڑتا ہے جو کسی بھی قسم کی معذوری کا شکار ہو اور اس کی وجہ ان کے مطابق ان کی ’کئی برسوں سے طلاق کے دہانے پر کھڑی شادی‘ ہے۔سعدیہ کے چار بچے ہیں اور بڑے بیٹے کی عمر سترہ برس ہے۔ ان کے تینوں بیٹے ذہنی امراض میں مبتلا ہیں اور وہ ان سترہ برس سے کیسے اپنے بچوں کو تنہا پال رہی ہیں، سنیے ان کی کہانی ،انہی کی زبانی۔وہ اس قدر مشکل وقت تھا کہ شاید میں بیان نہ کر سکوں۔ میرے ارد گرد موجود لوگ مجھے ایسی نظروں سے دیکھتے جیسے میں نے کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ میں دوسرے حمل کے دوران رات بھر جاگتی اور دعا کرتی کہ میرا دوسرا بچہ تندرست ہو، لیکن خدا کو یہ منظور نہیں تھا اور پھر یہی تیسرے بیٹے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ایک بیٹا، دوسرا بیٹا اور پھر تیسرا بیٹا، تینوں ہی ذہنی طور پر معذور تھے۔ کیا کسی بچے کی پیدائشی بیماری کی ذمہ دار ماں ہوتی ہے؟ بیماری تو خدا کی طرف سے تھی، لیکن معاشرے کی سوچ کو جو بیماری ہے، اس کا میں کیا کرتی؟ سترہ سال سے میں نے تنہا اپنے بچوں کو پالا ہے۔میرے بچوں کو دیکھ کر لوگ مجھ سے افسوس کرنے آتے، میری ساس مجھ سے خفا رہتی تھیں، یہی حال میرے شوہر کا تھا، آپ کو پاگلوں کی ماں کہا جائے، یہ تکلیف صرف وہ ماں ہی سمجھ سکتی ہے جو اس کرب اور اذیت سے گزر رہی ہے۔میرے شوہر مجھ سے خفا رہنے لگے کہ میں نے ایسے بچے کیوں پیدا کیے ہیں۔ جب ان کا موڈ ہوتا تو ہم سے ملتے، بات کرتے، ورنہ کئی کئی دن ہم سے بات نہیں کرتے تھے۔ کوئی شخص کیسے اپنے ہی بچوں کو یوں چھوڑ سکتا ہے؟ایک دن میں برتن دھو رہی تھی میری ساس آئیں اور سارے برتن توڑ دیے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے ‘اپنے پاگل بچوں کے برتن مِکس کرکے باقی گھر والوں کے برتنوں میں جراثیم شامل کر دیے ہیں۔‘ میں وہ لمحہ بیان نہیں کر سکتی، میرے سامنے میرے معصوم بچے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ میرے بچے پاگل نہیں یہ لوگ پاگل ہیں۔ وہ میری زندگی کا فیصلہ کن دن تھا۔ اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا۔میں نے فیصلہ کیا کہ یہ تینوں بچے خدا کی امانت ہیں، اب میں ان کی حفاظت کروں گی۔ میں نے اس دن سجدہ شکر ادا کیا کہ خدا نے مجھے اولاد کی نعمت دی ہے۔ وہ دن اور آج کا دن ہے میری سب سے بڑی خوشی میرے یہ بچے ہیں۔معذور افراد کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ میرے شوہر یا دیگر اہلخانہ کہیں بھی جاتے میرے بچے ان کے ہمراہ نہیں جا سکتے تھے، انھیں شرم آتی تھی کہ یہ تو پاگل ہیں، لوگوں کو کیا منھ دکھائیں گے؟ ارے، میں سمجھتی ہوں کہ یہ سب خدا کو کیا منہ دکھائیں گے؟شکایت تو ہو جاتی تھی۔ یہ سب فیس کرنا آسان تو نہیں تھا، جب تھک جاتی تو شکایت ہوتی تھی۔ لوگوں سے نہیں کرتی خدا سے پوچھتی کہ اے خدا اتنی بڑی آزمائش؟ میری ماں نے کہاکہ جب دل بوجھل ہوتو نماز پڑھا کرو۔ یوں میں مذہب سے بھی قریب ہوگئی۔ دل بہلانے کو اردو ناول پڑھتی رہتی تو وہ مجھے ایک الگ دنیا میں لے جاتے جہاں آغاز جیسا بھی ہو، انجام اچھا ہوتا تھا۔بچوں کے ساتھ ویڈیو گیمز کھیلتی ہوں۔ کبھی رونا بھی آتا ہے تو رو لیتی ہوں۔ یہ زندگی مشکل تھی۔ ابھی اور بھی مشکل ہو گی۔ ابھی تو صرف سترہ سال کا سفر تنہا کیا ہے۔ کوئی آسرا نہیں۔ اب بھی اپنے والد کے گھر رہتی ہوں۔ وہ خرچہ دیتے ہیں، خود پڑھی لکھی بھی نہیں تھی کہ کوئی نوکری کرتی اور نوکری کرتی بھی کیسے، مجھے تو چوبیس گھنٹے اپنے بچوں کے پاس ہونا تھا۔سپیشل بچوں کی تعلیم کا ہمارے ہاں کہاں سوچا جاتا ہے۔ یہاں تو عام بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ میں کبھی اپنے بچوں کو خصوصی بچوں کے کسی سکول بھیجنے کی بات کرتی تو کہا جاتا ’آج کل نارمل لوگوں کو نوکری نہیں ملتی، تیرے پاگل بچے پڑھ کر کیا کریں گے۔’تب مجھے بھی نہیں پتا تھا اس لیے چپ کر جاتی۔ دو سال پہلے مجھے پتا چلا کہ کھاریاں میں المدثر ٹرسٹ نامی کوئی ادارہ ہیں جو ہر قسم کے خصوصی بچوں کے لیے قائم ہے۔میں اپنے بچوں کو یہاں لاتی ہوں۔ یہاں کوئی فیس نہیں دینی پڑتی، بچے روز سکول آتے ہیں، یہاں ان کی تربیت کی جاتی ہے، اور اب یہ بدل گئے ہیں۔ یہاں انہیں کوئی پاگل نہیں کہتا۔ سب ان کی عزت کرتے ہیں، سب میری عزت کرتے ہیں۔ اور میرے یہ بچے اب میرا خیال رکھتے ہیں۔ یہ اب خود نہاتے ہیں، خود کپڑے بدلتے ہیں، خود کھانا کھاتے ہیں، پھر اپنے برتن دھوتے ہیں۔ مہمان آ جائیں تو ان سے مل کر اپنے کمرے میں چلے جائیں گے یا کچن میں میری مدد کرائیں گے۔ یہ مجھ سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتے۔ مجھے بتائیں کیا میرے بچے پاگل ہیں؟ میرے بچے تو نارمل بچوں سے بھی زیادہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔میں جانتی ہوں میرے بعد انھیں دنیا دھتکارے گی، ان کا کوئی نہیں ہے، ان کے باپ نے انہیں چھوڑ دیا، ان کے خاندان نے انہیں چھوڑ دیا تو کسی اور سے میں کیا امید رکھوں؟ ان کے پاس میں ہوں اور میرے پاس یہ ہیں، خدا نے پیدا کیا ہے تو ہو سکتا ہے ان کی زندگی میرے بعد کچھ آسان ہو جائے، دنیا سے تو مجھے کوئی امید نہیں۔میں نہیں جانتی سیاست کیا بلا ہے، مجھے کبھی اپنی زندگی سے ہوش نہیں رہا۔ ہاں اتنا ضرور سوچتی ہوں کہ اس ملک میں جہاں معاشرہ ان خصوصی بچوں، خاص طور پر ذہنی معذوری کا شکار بچوں کو قبول نہیں کرتا، کم از کم حکومت تو انہیں قبول کرے، ان کی ماؤں کے گزر جانے کے بعد ان کے لیے دو وقت کی روٹی اور رہائش کا انتظام کرے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ ماں جس نے پوری عمر تکلیف میں گزار دی، وہ آخری سانس تو سکون سے لے سکے

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website