counter easy hit

مودی کی دوبارہ اقتدار میں آنے کیلئے حکمتِ عملی طے

Modi plans the strategy to re-ruleاسلام آباد: ہندو بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں جیت کر دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں دفتر خارجہ اور دیگر متعلقہ حکام نے ممکنہ صورتحال سے نمنٹنے کے لئے حکمت عملی طے کرنا شروع کردی ہے۔ بھارت میں ہونےوالی پیش رفت کا ہمیشہ سے خطے میں پاکستان کے کام پر اثر پڑتا ہے۔ مودی کی بی جے پی نے اپنی حالیہ انتخابی مہم کے دوران منشور میں مزید جارحانہ ایجنڈا دیا تھا۔

یاد رہے کہ انڈیا کے پارلیمانی انتخابات میں 19 مئی کو ساتویں اور آخری مرحلے کی ووٹنگ ختم ہوتے ہیں ملکی ذرائع ابلاغ نے اپنے اپنے ایگزٹ پولز جاری کر دیے ہیں۔ اگر یہ ایگزٹ پول حقیقت میں تبدیل ہوتے ہیں تو پھر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت میں اتحاد یعنی این ڈی اے دوبارہ اقتدار میں واپس آ سکتا ہے۔ ان ایگزٹ پولز کے مطابق این ڈی اے 300 نشستیں حاصل کر سکتا ہے جبکہ انڈیا میں حکومت سازی کے لیے 273 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ایگزٹ پولز کے رجحان سے قطع نظر اگر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی اپنے بل بوتے پر ہی 300 سے زائد نشستیں حاصل کرنے کا دعوی کر رہی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں اسے 74 سے زیادہ نشستیں ملیں گی۔ خیال رہے کہ سنہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اتحاد کو 73 نشستیں ملی تھیں۔ تاہم اب تک ایسا کوئی ایگزٹ پول نہیں آیا جو اترپردیش میں بی جے پی کو 74 اور پورے ملک میں 300 سے زائد نشستیں دے رہا ہو۔ ایگزٹ پولز میں بی جے پی کو زیادہ نشستیں دی جا رہی ہیں حالانکہ اس بار دوسری جماعتوں کے حالات گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔

بظاہر انڈیا میں این ڈی اے کی حکومت بنتی نظر آ رہی ہے لیکن بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ کہیں کانگریس کے اتحاد میں علاقائی پارٹیوں کا پلڑا بھاری نہ پر جائے۔ ایسے میں بی جے پی اور کانگریس دونوں اس جوڑ توڑ میں ہوں گے کہ کس طرح ان غیر اتحادیوں کو اپنے اتحاد میں شامل کیا جائے۔ کانگریس کے صدر راہل گاندھی کا دعوی کہ نریندر مودی کی حکومت اقتدار میں واپس نہیں آئے گی غلط ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بیشتر ایگزٹ پولز میں تو بی جے پی ہی فتح یاب نظر آ رہی ہے البتہ بعض ایگزٹ پول یہ بتاتے ہیں کہ کانگریس اور علاقائی جماعتیں نریندر مودی کی راہیں مشکل بنا سکتی ہیں۔اگر این ڈی کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی تو وہ تلنگانہ کی ٹی آر ایس اور جگن موہن ریڈی کی طرف ہاتھ بڑھا سکتی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ آئيے، ہم آپ کا احترام کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ انتخابات کے آخری مرحلے پر وزیراعظم کی موجودگی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں بی جے پی کے پارٹی صدر امت شاہ نے کہا تھا کہ ہم ان کا خیر مقدم کریں گے جو ہماری نظریاتی سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں۔ بظاہر بی جے پی اب اپنے تمام دروازے اور کھڑکیاں کھولتی نظر آتی ہے۔ اب اس حکمت عملی پر کام شروع ہوگا کہ کس طرح کانگریس کے اتحادیوں کو توڑ کر بی جے پی میں شامل کیا جائے۔ کوئی بھی ایگزٹ پول کانگریس کو تنہا 100 نشستیں نہیں دے رہا ہے۔ بہرحال 2014 میں 44 نشستوںتک محدود رہنے والی کانگریس اس بار نسبتاً بہتر حالت میں ہے۔