counter easy hit

مہر سلیم یا حال ہی میں پی ٹی آئی جوائن کرنے والے سردار آصف؟

قصور: پی ٹی آئی کے حقیقی کارکن جو کہ ایک دہائی سے زائد عرصہ سے پارٹی کے ساتھ منسلک ہیں یہ امید کر رہے ہیں کہ پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کرتے ہوئے حقیقی کارکنوں کو ترجیح دے گی اور دوسری پارٹی سے آئے ہوئے فصلی بٹیروں کی حوصلہ شکنی کرے گی۔

Mehar Saleem or Sardar Asif who recently join PTI?سجاگ کے ایک سروے کے مطابق زمینی حقائق پارٹی کارکنان کی توقعات کے بر عکس نظر آ رہے ہیں کیونکہ ضلع قصور میں بڑا مقابلہ پی ٹی آئی اور ن لیگ میں ہوگا اس لئے سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کارکنوں کی خواہشات کو قربان کر کے دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے امیدواروں میں ٹکٹ تقسیم کر دے گی۔یاد رکھا جائے کہ 2013 کے عام انتخابات میں ن لیگ نے قومی اسمبلی کی 100 فی صد اور صوبائی اسمبلی کی 80 فی صد سیٹیں جیت لی تھی۔ 20فی صد سیٹیں جیتنے والے ق لیگ کے امیدواران وقاص موکل اور سردار آصف نکئی نے بھی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی ہے یہ دونوں مضبوط سیاسی شخصیات ہیں۔ضلع قصور میں نئی حلقہ بندیوں کے تحت قومی اسمبلی کے چار اور صوبائی اسمبلی کے نو حلقے ہیں مقامی سیاسی مبصرین کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی کے پاس قومی اسمبلی کی ٹکٹ کے لئے سات خواہش مند حضرات ہیں جن میں سے صرف ایک پی ٹی آئی کا حقیقی کارکن جبکہ باقی کے چھ دوسری سیاسی پارٹیوں کے چبوتروں سے اٗڑ کر آئے ہیں۔اسی طرح صوبائی اسمبلی کی نو نشستوں کے لئے 22امیدوار موجود ہیں جن میں سے صرف چھ حقیقی کارکن ہیں جبکہ باقی 16دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ عہد وفا توڑ کر پی ٹی آئی کے ہاتھ پر بیت کر چکے ہیں۔این اے 137میں پی ٹی آئی کے پاس دو امیدوار ہیں جن میں داور حیات اور راشد طفیل شامل ہیں داور حیات ن لیگ کے سابق ایم این اے راؤ مظہر حیات کے بیٹے ہیں جو 2012 میں جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار ہوئے تھے اسی طرح راشد طفیل ق لیگ کے سابق ایم این اے سردار طفیل کے بیٹے ہیں۔این اے 138 میں پی ٹی آئی کے پاس دو مضبوط امیدوار ہیں جن میں سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی اور ڈسٹرکٹ بار قصور کے سابقہ صدر مہر محمد سلیم شامل ہیں۔ سردار آصف کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور مہر سلیم ایک دہائی سے پی ٹی آئی سے منسلک ہیں مہر سلیم کے مقابلے میں سردار آصف ایک قد آور شخصیت ہیں۔این اے 139 میں پی ٹی آئی کے پاس دو مضبوط امیدوار ہیں جن میں ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی اور آصف نکئی شامل ہیں دونوں کا تعلق ماضی میں ق لیگ کے ساتھ رہا ہے۔این اے 140 میں پی ٹی آئی کے پاس طالب نکئی کے علاوہ اور کوئی قد آور امیدوار نہ ہے طالب نکئی کی سابقہ وفاداریاں ق لیگ سے رہی ہیں۔اسی طرح صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں پی پی 174 میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے یہاں پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے خوہشمند لوگوں میں ق لیگ کی روبینہ انصاری پیپلز پارٹی کے اشفاق کمبوہ ن لیگ کے مبشر نواز جبکہ پی ٹی آئی کے نئے کارکن عطاء الرحمان انصاری اور مہر سلیم شامل ہیں۔اسی طرح پی پی 175 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے لئے حسن علی خاں ،بیگم مسعو دبھٹی اور سردار فاخر ایڈووکیٹ خواہش مند امیدوار ہیں حسن علی خان کا سابقہ تعلق ن لیگ سے ہے جبکہ بیگم مسعودبھٹی اور سردار فاخرپی ٹی آئی کے پرانے کارکن ہیں۔پی پی 176 میں پی ٹی آئی کے امیدوار محمد حسین ڈوگر اور بیرسٹرشاھد مسعود ہیں محمد حسین ڈوگر پیپلز پارٹی کے سابقہ ضلعی صدر اور ایم پی اے رہے ہیں جبکہ شاھد مسعود کی پی ٹی آئی میں نئی نئی آمد ہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کی نظر میں محمد حسین ڈوگر ایک مضبوط امیدوار ہیں اور پی ٹی آئی کی ٹکٹ حاصل کر سکتے ہیں۔پی پی 177 میں ریٹائرڈ کرنل ہاشم علی ڈوگر، وقاص حسن موکل اور شبیر حسین پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے امیدوار ہیں وقاص حسن موکل ق لیگ کے سابقہ ایم پی اے ہے ان کے والد حسن اختر موکل ن لیگ کے دور میں ڈپٹی سپیکر اور صوبائی وزیر رہ چکے ہیں آپ ق لیگ کے سابقہ ایم پی اے بھی رہے ہیں۔شبیر حسین کو 2008 کے عام انتخابات میں ق لیگ کی حمایت حاصل رہی ہے اسی طرح ہاشم ڈوگر کا گھرانہ بھی پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے پہلے ق لیگ کے ساتھ وفادار رہا ہے۔پی پی 178 میں پی ٹی آئی کے پاس ٹکٹ کے چناؤ کے لئے راؤ شاھد قیوم، رانا عقیل اسلم اور رانا عباد خاں ہیں۔راؤ شاھد ماضی میں ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے ہیں جبکہ عقیل اسلم کا تعلق ن لیگ اور ق لیگ سے رہا ہے سابقہ تحصیل ناظم رانا عباد خاں کا تعلق ق لیگ سے رہا ہے۔پی پی 179 میں پی ٹی آئی کے کارکن رانا طارق کا موازنہ ق لیگ کے سابقہ ایم پی اے پیر مختار احمد سے کیا جائے گا سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پیر مختار احمد ایک مضبوط امیدوار ہوگا۔پی پی 180 میں پی ٹی آئی کے پاس واحد انتخاب سردار آصف نکئی ہیں جو ماضی میں ق لیگ کے ایم پی اے رہ کر حکومت کے مزے لے چکا ہے۔اسی طرح پی پی 181 میں رانا محمد اسلم ٹکٹ کے لئے واحد خواہش مندامیدوار ہیں ان کا تعلق ق لیگ سے رہا ہے۔ جبکہ پی پی 182 میں امجد علی اور بیگم مسعود بھٹی ٹکٹ کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ملک کے دیگر حلقوں کی طرح ضلع قصور میں بھی پی ٹی آئی کے لئے ٹکٹوں کی تقسیم ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے خیال میں ضلع قصور میں ٹکٹوں کی ایک بڑی تعداد ایسے امیدواروں کو دی جائیں گی جو دوسری پارٹیوں کو دھکا دے کر آئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کئی امیدوار ناراض ہو کر اپنی ہی پارٹی کے امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔