counter easy hit

مریم جی کی واپسی!

جب میاں نواز شریف چھ ہفتے کی میڈیکل ضمانت کے بعد پھولوں کے ہار سجائے نعروں کی گونج میں منگل کو رات گئے جیل واپس پہنچے تو ن لیگ میں کئی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔

ریلی میں شہباز شریف کا بیانیہ کہیں نظر نہ آیا بلکہ شہباز شریف نے الٹا اپنے بیان کے ذریعے نواز بیانیے کو تقویت دینے کی کوشش کی اور ساتھ ہی اپنے لخت جگر حمزہ کو ڈرائیو کرنے پر مامور کیا کہ کوئی کسر نہ رہ جائے۔

یوں فی الحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیل جاتے جاتے جہاں نواز شریف مزاحمتی بیانیے کا جھنڈا پھر سے بلند کر گئے ہیں وہیں اپنے بیانیے کی واحد جانشین مریم کو بھی متحرک کر گئے ہیں۔

سنتے تو یہی آئے تھے کہ سیاست ایک فل ٹائم یا کل وقتی پیشہ ہے، مگر بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز چونکہ عرصہ دراز تک سیاست سے ہٹ کر صرف گھریلو خواتین رہیں اس لیے وہ دونوں سیاست میں آئیں تو اسے جزوقتی پیشہ بنا لیا۔

کلثوم بھی عام دنوں میں سیاست چھوڑ چھاڑ کر گھر تک محدود رہیں، مگر جونہی ’باؤ جی‘ کسی مشکل میں پھنستے تو کلثوم نواز متحرک ہو جاتیں۔ ایسا ہی جزوقتی انداز مریم نواز نے اپنا رکھا ہے۔

چھ ہفتے کی میڈیکل ضمانت میں وہ خاموش رہیں: نہ ٹوئٹر پر جارحانہ رنگ نظر آیا اور نہ ہی ان کی میڈیا ٹیم نے سیاسی بیانیہ اٹھایا۔

ایسا لگتا تھا کہ جیسے ن لیگ لسّی پی کر دوپہر کا قیلولہ کر رہی ہے۔ اب توقع یہی ہے کہ مریم جی والد صاحب کی خاطر مدارت اور عیادت سے فارغ ہو گئی ہیں اس لیے سیاست کے لیے وقت نکالا کریں گی۔

مریم جی اور نواز شریف کی خاموشی سے یہ تاثر ابھرا تھا کہ شاید شہباز شریف کا مصالحانہ بیانیہ کام دکھا گیا ہے اور نواز شریف کی ڈھیل اسی کا نتیجہ ہے مگر نواز شریف کی جیل واپسی کا مطلب یہ بھی ہے نہ خدا ہی ملا اور نہ وصال صنم ہوا۔

شہباز شریف پر بھی دھڑا دھڑ نئے مقدمے بن رہے ہیں ایسے میں مصالحانہ بیانیہ کیسے چل سکتا ہے اسی لیے تو نونی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ دونوں بھائی جان بوجھ کر اور طے کر کے ’گڈ کاپ، بیڈ کاپ‘ کھیلتے ہیں اور اپنی اس حکمت عملی سے وہ کئی بڑے بڑے بحرانوں سے نکلے ہیں۔ اس بار بھی وہ اپنی یہی حکمت عملی جاری رکھیں گے کبھی مصالحانہ اور کبھی جارحانہ سیاست جس داؤ کی انہیں ضرورت ہو گی وہ وہی کھیلیں گے۔

جاتی امرا سے کوٹ لکھپت جیل تک ن لیگ کی ریلی تنظیم کا ایک ٹرائل تھا۔ انتخابات کے بعد سے نون کی تنظیموں پر جو سکوت طاری ہے نواز شریف کی جیل واپسی اس کا امتحان تھا۔ اراکین اسمبلی اور پارٹی تنظیمیں دونوں متحرک ہوئیں سچ تو یہ ہے کہ یہ شو نہ تو بےنظیر کے دس اپریل 1986 جیسا تھااور نہ ہی عمران خان کے اکتوبر 2011 مینار پاکستان جیسا مگر بزنس مڈل کلاس کی نمائندہ ن لیگ کے حوالے سے یہ کافی متاثر کن تھا۔

کلف والے سفید اور ہلکے رنگ کے کپڑے پہننے والے 100 کلو گرام سے زائد کے بھاری بھر کم بزنس مڈل کلاسیے بیلٹ بکس تک تو بخوشی ووٹ ڈالنے چلے جاتے ہیں لیکن وہ سڑکوں پر نکلنے سے گھبراتے ہیں۔ یہ بزنس مڈل کلاس صرف تبھی گھروں اور دکانوںسے نکلتی ہے جب ان کے بزنس کو شدید خطرہ ہو یا ان کے مذہبی عقائد کو چیلنج ہو۔

1977 کی تحریک میں کامیاب ہڑتالیں اسی بزنس مڈل کلاس نے کی تھیں اب بھی اس کلاس کی اکثریت نون لیگ کے ساتھ ہے مگر وہ ابھی ہڑتالوں پر آمادہ نہیں۔ تحریک انصاف کی پالیسیوں پر البتہ اس کلاس نے اپنی ذاتی دولت کی گردش اور سرمایہ کاری بند کر دی ہے یا وہ بجٹ میں ٹیکس لگنے پر احتجاج کناں ہوں گے وگرنہ خاموشی سے گھر بیٹھے اچھے وقت کاانتظار کرتے رہیں گے۔

مسلم لیگ ن کی حکمت عملی یہی ہے کہ خود تحریک چلانے کی بجائے اس وقت کا انتظار کیا جائے جب لوگ ٹیکسوں اور مہنگائی سے تنگ آ کر خود باہر نکلیں۔ ایسا مرحلہ آنے پر نون لیگ متحرک ہو کر قائدانہ کردار ادا کرے گی۔

مستقبل کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست میں دو بڑے نام ہی نمایاں ہیں یعنی بلاول بھٹو اور مریم نواز۔ بلاول بھٹو کل وقتی سیاست کر رہے ہیں جبکہ مریم نواز جزوقتی۔ یہ درست ہے کہ وہ خاتون ہیں، بیٹی ہیں اور مشرقی بیٹی ہونے کے سبب وہ اپنے والد کی بہت ہی وفادار ہیں۔ والد کو ضرورت ہو تو وہ سب سے آگے آ جاتی ہیں وگرنہ والد کی خاطر خدمت میں لگی رہتی ہیں۔

مگراس انداز سیاست کو ہمیشہ چلانا ممکن نہیں اب انھیں کل وقتی سیاستدان بننا ہو گا۔ صرف والد بچاؤ مہم میں ان کی سرگرمی پر مخالف پہلے بھی تنقید کرتے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ سیاست ہمہ وقت کام ہے جو کسی بھی مصلحت اور رو رعایت کے بغیر جاری رکھنا پڑتا ہے۔ یہ نہیں کہ والد بیمار ہیں تو آپ متحرک ہیں والد گھر آ گئے تو آپ نے سیاست سے وقفہ لے لیا اور پھر والد پر کوئی مشکل آئی تو پھر باہر نکل آئیں۔

سیاست میں مریم کا مستقبل تبھی بنے گا جب ان کا مستقل کردار ہو گا۔ سیاست کے طالب علم جانتے ہیں کہ ایوب خان دور میں بھٹو جیل سے باہر نکلے تو کہا نصرت بھٹو اور اصغر خان دونوں گھر بیٹھو میں باہر آ گیا ہوں جس کا مطلب یہ تھا کہ کل وقتی سیاستدان بھٹو جیل سے آ گیا ہے اب جزوقتی نصرت بھٹو اور اصغر خان گھر جا کر بیٹھ جائیں۔ مریم بھی جزوقتی رہیں تو ان سے کل حمزہ یہی مطالبہ کر دے گا۔ اگر وہ واقعی سیاست کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو غائب ہونے والے وقفے بند کر دیں اور کل وقتی سیاست کریں۔

باقی رہ گیا حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز کا تقابل تو صاف بات ہے کہ بیانیے کی جنگ میں مریم کا جارحانہ رویہ انھیں فائدہ دے سکتا ہے جبکہ حمزہ سالہا سال سے گورننس اور عملی سیاست کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں۔ اس لیے ان کا تجربہ کافی ہو گیا ہے تاریخ کیا کروٹ لے گی اس کا قیافہ لگانا مشکل ہے لیکن ن لیگ کو مسقبل قریب میں اسٹیبلشمنٹ کی قربت ملنا مشکل ہے البتہ ایک بڑے مخالف کے طور پر ضرور ان سے معاملہ ہو سکتا ہے۔

مریم کی سیاست میں کامیابی ان کے جارحانہ بیانیے میں مضمر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ مستقبل کے لیے کتنی تیاری کر رہی ہیں۔ کیا وہ بھی وقت آنے پر تحریک انصاف کی طرف نوآموز ثابت ہوں گی۔ کیا وہ پہلے سے اپنی ٹیم بنائیں گی، معاشی اور سماجی تبدیلیوں کا ایجنڈا تیار کریں گی یا پھر صرف خالی نعروں سے ہی تبدیلی لانے کی کوشش کریں گی۔

جولائی تا دسمبر 2019 کا عرصہ ن لیگ کے لیے کافی اہم ہے۔ اسے ہر صورت شہروں میں احتجاج برپا کرنا پڑے گا وگرنہ ان کا ووٹ بینک مایوس ہو کر اِدھر ادھر بکھر سکتا ہے۔ احتجاج شروع ہوئے تو نون لیگ کا ووٹ بینک پھر سے مستحکم ہو جائے گا۔