counter easy hit

نواسہ رسولؐ حضرت امام حسن علیہ السلام کے یوم شہادت پر راولپنڈی میں سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات،جنازہ امام حسن پر تیر بارانی بھی ہوئی اور دفن کے وقت ستر تیر آپ کے جسد مبارک سے نکالے گئے

نواسہ رسولؐ حضرت امام حسن علیہ السلام کے یوم شہادت پر راولپنڈی میں سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات،جنازہ امام حسن پر تیر بارانی بھی ہوئی اور دفن کے وقت ستر تیر آپ کے جسد مبارک سے نکالے گئے
تحریر و تحقیق :اصغر علی مبارک سے
ملک بھر کی طرح راولپنڈی میں بھی نواسہ رسولؐ حضرت امام حسن علیہ السلام کا یوم شہادت (28 صفر) آج عقیدت و احترام سے منایا گیا۔

راولپنڈی میں مرکزی ماتمی جلوس رات گے دربار سخی شاہ پیارا میں اختتام پذیر ھوا جس میںماتمی سنگتیںوں نے شرکت کی، جلوس سے قبل مجلس عزا منعقد ہو ئ نواسہ رسولؐ حضرت امام حسن علیہ السلام کا تابوت مبارک بھی برآمد ہوااس موقع پر عزاءداروں نے زنجیر زنی بھی کی، ماتمی جلوس کے موقع پر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دکانیں بند کر ا دی گئیں ماتمی جلوس میں ہزاروں عزاداروں نے شرکت کی اس موقع پر سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے اور جلوس روٹس پر آمدورفت کے سلسلے میں عام و خاص ٹریفک بھی معطل رہی جس کی وجہ سے شہریوں کو متبادل راستے اختیار کرنا پڑے ۔

راولپنڈی میں سی پی او احسن عباس اور سی ٹی او محمد بن اشرف کی ھدایات کی روشنی میں ٹریفک پلان کے تحت سات نومبر بروز بدھ کو پشاور روڈ پر ماتمی جلوس کے موقع پر پشاور روڈ، مصریال روڈ اورحالی روڈ صبح سے تا اختتام جلوس ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند رہیں بہترین ٹریفک انتظامات کے پیش نظر03 ڈی ایس پیز، 08 انسپکٹرز، 121وارڈن افسران اور 19ٹریفک اسسٹنٹس سپیشل ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں..

اس موقع پر متبادل راستوں قاسم مارکیٹ سے ٹریفک براستہ ٹرانزٹ کیمپ، بیکری چوک، ڈھوک حسو سے آئی جے پی روڈ رواں دواں رہی جبکہ چئیرنگ کراس سے جانب چوہڑ چوک کوئی ٹریفک نہیں جا سکی.. علاوہ ازیں آغاز فلائی اوور مہر آباد سے ٹریفک آئی جے پرنسپل روڈ، ڈھوک حسو روڈ، بیکری چوک اور ٹرانزٹ کیمپ سے جانب صدر کیلئے رواں دواں رھی ،امام حسن مجتبی (ع) کی حیات طیبہ
بچپن کا زمانہ:

امام حسن ابن علی ابن ابیطالب (ع) شیعہ امامیہ کے دوسرے امام ہیں۔ آپ 15 رمضان سن 3 ہجری کو پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

الارشاد (شيخ مفيد)، ص 346

رمضان در تاريخ (لطف اللہ صافی گلپايگانی)، ص 107

منتہي الآمال (شيخ عباس قمي)، ج1، ص 219

كشف الغمہ (علي بن عيسي اربلي)، ج2، ص 80

تاريخ الطبري، ج2، ص 213

البدايہ و النہايہ (ابن كثير)، ج8 ، ص 37

آپ رسول خدا (ص) کے نواسے اور پہلے امام امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب (ع) اور سیدۃ نساء العالمین فاطمہ زہرا (س) کے فرزند ہیں۔

امام حسن مجتبی (ع) ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے، جو وحی اور فرشتوں کے نازل ہونے کی جگہ تھی۔ وہی گھرانہ کہ جس کی پاکیزگی اور طہارت کے بارے میں قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے:

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہ لِيُذْھبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اھلَ الْبَيْتِ وَيُطَہرَكُمْ تَطْہيرًا،

بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جیسا کہ پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

سورہ احزاب، آیت 33

اس طرح خداوند سبحان نے قرآن کریم میں اس گھرانے کی بار بار تحسین اور تمجید کی ہے۔

امام حسن مجتبی (ع) ، امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب (ع) اور سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زہرا (س) کے پہلے فرزند تھے۔ اسی لیے ان کا تولد پیغمبر اکرم (ص)، انکے اہل بیت اور اس گھرانے کے تمام چاہنے والوں کی خوشیوں کا باعث بنا۔

پیغمبر اکرم (ص) نے مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائيں کان میں اقامت کہی اور مولود کا نام حسن رکھا۔

بحار الانوار (علامہ مجلسی)، ج43، ص 238

كشف الغمہ، ج2، ص 82

زبان رسالت، دہن امامت میں:

علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن (ع) کی ولادت ہوئی اور آپ سرور کائنات کی خدمت میں لائے گئے تو رسول کریم بے انتہاء خوش ہوئے اور ان کے دہن مبارک میں اپنی زبان اقدس دیدی۔

بحار الانور میں ہے کہ آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسن اسے چوسنے لگے اس کے بعد آپ نے دعا کی:

خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ امام حسن کو لعاب دہن رسول کم اور امام حسین کو زیادہ چوسنے کا موقع دستیاب ہوا تھا، اسی لیے امامت نسل حسین میں مستقر ہو گئی۔

امام حسن (ع) کا عقیقہ:

آپ کی ولادت کے ساتویں دن سرکار کائنات نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی صدقے میں دی۔

اسد الغابة ج 3 ص 13

علامہ کمال الدین کا بیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیا گیا تھا۔

مطالب السؤل، ص 220

کافی کلینی میں ہے کہ سرور کائنات نے عقیقہ کے وقت جو دعا پڑھی تھی اس میں یہ عبارت بھی تھی:

اللھم عظمھا بعظمہ، لحمھا بلحمہ دمھا بدمہ وشعرھا بشعرہ اللھم اجعلھا وقاء لمحمد والہ،

خدایا اس کی ہڈی، مولود کی ہڈی کے عوض، اس کا گوشت، اس کے گوشت کے عوض، اس کاخون، اس کے خون کے عوض، اس کے بال، اس کے بال کے عوض قرار دے اور اسے محمد و آل محمد کے لیے ہر بلا سے نجات کا ذریعہ قرار دے۔

امام شافعی کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے امام حسن کا عقیقہ کر کے، اس کے سنت ہونے کی دائمی بنیاد ڈل دی۔

مطالب السؤل ص 220

امام حسن مجتبی (ع) کے بہت سے القاب ہیں از جملہ: سبط اكبر، سبط اول، طيب، قائم، حجت، تقی، زكی، مجتبی، وزير، اثير، امير، امين، زاہد و برّ مگر سب سے زیادہ مشہور لقب، مجتبی ہے اور شیعہ آنحضرت کو کریم اہل بیت کہتے ہیں۔

ان حضرت کی کنیت ، ابو محمد ہے۔

منتہي الآمال، ج1، ص 219

رمضان در تاريخ، ص 111

كشف الغمہ، ج2، ص 86

مطالب السؤل، ص 221

زیارت عاشورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا لقب ناصح اور امین بھی تھا۔

پیغبر اسلام (ص)، امام حسن مجتبی (ع) سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور بچپن سے ہی نانا رسول خدا (ص) اور والد امیر المؤمنین علی (ع) اور والدہ سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زہرا (س) کے ملکوتی آغوش میں پروان چڑھے اور ایک انسان کامل اور امام عادل کی صورت میں معاشرے کے سامنے آئے۔

پیغمبر اسلام (ص) نے ایک حدیث کے ذریعے اپنے نور چشم حسن مجتبی (ع) کی فضیلت یوں بیان فرمائی ہے کہ:

البتہ حسن میرا فرزند اور بیٹا ہے، وہ میرا نور چشم ہے، میرے دل کا سرور اور میرا ثمرہ ہے، وہ بہشت کے جوانوں کا سردار ہے اور امت پر خدا کی حجت ہے۔ اس کا حکم میرا حکم ہے، اسکی بات میری بات ہے، جس نے اسکی پیروی کی، اس نے میری پیروی کی ہے، جس نے اس کی مخالفت کی، اس نے میری مخالفت کی ہے۔

منتہي الآمال، ج1، ص 220

كشف الغمہ، ج2، ص 87

البدايہ و النہايہ، ج8، ص 37

ایک دوسری حدیث ہے کہ:

میں جب اس کی طرف دیکھتا ہوں تو، میرے بعد اسے کیسے کمزور کریں گے، اس یاد میں کھو جاتا ہوں، جبکہ یہ اسی حالت میں اپنی ذمہ داری نبھاتا رہے گا، جب تک کہ اسے ستم و دشمنی سے زہر دے کر شہید کیا جاۓ گا۔ اس وقت آسمان کے ملائکہ اس پر عزاداری کریں گے۔ اسی طرح زمین کی ہر چیز از جملہ آسمان کے پرندے، دریاؤں اور سمندروں کی مچھلیاں بھی اس پر عزادری کریں گی۔

بحار الانوار، ج44، ص 148

پیغمبر اکرم (ص) نے بار ہا فرمایا تھا کہ: حسن و حسین (ع) میرے بیٹے ہیں، اسی وجہ سے حضرت علی (ع) اپنے تمام بیٹوں سے فرمایا کرتے تھے: تم میرے بیٹے ہو اور حسن و حسین رسول خدا (ص) کے بیٹے ہیں۔

مناقب ابن شہر آشوب، ج 1 ص 21

ذخائر العقبیٰ، ص 67 ، 121

امام حسن (ع) انسانی کمالات میں اپنے والد گرامی کا کامل نمونہ اور اپنے نانا بزرگوار کی نشانی تھے۔ جب تک پیغمبر اکرم (ص) زندہ رہے آپ اور آپ کے بھائی (امام حسین) ہمیشہ آنحضرت کے پاس رہتے تھے۔ آنحضرت کبھی کبھی ان کو اپنے کندہوں پر سوار کیا کرتے تھے۔

پیغمبر اکرم (ص) سے عام و خاص نے بہت زیادہ احادیث بیان کی ہیں کہ آپ نے امام حسن اور امام حسین کے بارے میں فرمایا :

یہ دونوں میرے بیٹے امام ہیں، خواہ وہ اٹھیں یا بیٹھیں۔ (کنایہ ہے ظاہری خلافت پر فائز ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ہے)۔

ارشاد، مفید

رسول خدا (ص) فرماتے تھے: پروردگارا ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس کو دوست رکھ ۔ اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔

ایک دن امام حسن (ع) اپنے نانا کی پشت پر سوار تھے کہ ایک شخص نے کہا: واہ کیا خوب سواری ہے!

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: بلکہ کیا خوب سوار ہے!

اسد الغابة، ج 3 ص 15 بحوالہ کتاب سنن ترمذی

امام حسن مجتبیٰ (ع) باوقار اور متین شخصیت کے حامل تھے۔ آپ غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ راتوں کو ان کے درمیان کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ ان کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے تھے۔ اسی لیے سارے لوگ بھی آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار اپنی ساری دولت و ثروت غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کر دی تھی۔ تین بار اپنی جائیداد کو وقف کیا تھا جس میں سے آدھی اپنے لیے اور آدھی راہ خدا میں بخش دی تھی۔

امام حسن مجتبیٰ (ع) نہایت شجاع اور بہادر بھی تھے۔ اپنے بابا امام علی (ع) کے ساتھ جب آپ جنگ کرنے جاتے تھے تو، فوج میں آگے ہی آگے رہتے تھے۔ جنگ جمل اور صفین میں آپ نے بہت خطرناک جنگیں لڑی تھیں۔ حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد آپ نے صرف 6 مہینے حکومت کی تھی۔

مولا علی (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) کے پہلے بیٹے 15 رمضان المبارک سن 3 ہجری کو شہر مدینہ میں پیدا ہوئے۔

ارشاد مفید ص 187

تاریخ الخلفاء سیوطی ص 188

رسول خدا (ص) مبارک باد کے لیے جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لائے اور خداوند کی طرف سے نواسے کا نام ‘ حسن ‘ رکھا۔

بحار الانوار ج 43 ص 238

امام حسن مجتبی (ع) سات سال تک پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ رہے۔

دلائل الامامہ طبری ص 60

رسول اکرم (ص) اپنے نواسے سے بہت پیار کرتے تھے۔ کبھی اس کو اپنے کاندھے پر سوار کرتے اور فرماتے:

خدایا میں اس سے محبت کرتا ہوں، آپ بھی اس سے محبت فرما۔

تاریخ الخلفاء، ص 188

تذکرة الخواص، ص 177

اور پھر فرماتے:

من احبّ الحسن و الحسین (ع) فقد احبّنی و من ابغضھما فقد ابغضنی ،

جس نے حسن (ع) و حسین (ع) سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی۔

بحار الانوار، ج 43 ص 264

کشف الغمہ، ج 1 ص 550

سنن ترمذی ج 5 ص 7

امام حسن (ع) کی عظمت اور بزرگی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کم سنی کے با وجود پیغمبر اکرم (ص) نے بہت سے عہد ناموں میں آپ کو گواہ بنایا تھا۔

واقدی نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے قبیلہ ثقیف کے ساتھ ذمّہ والا معاہدہ کیا، خالد ابن سعید نے عہد نامہ لکھا اور امام حسن و امام حسین (ع) اس کے گواہ قرار پائے ۔

طبقات کبیر ج 1 ص 23

والد گرامی امیر المؤمنین علی (ع) کے ساتھ:

رسول خدا (ص) کی رحلت کے تھوڑے ہی دنوں بعد آپ کے سر سے چاہنے والی ماں کا سایہ بھی اٹھ گیا۔ اس بناء پر اب آپ کا صرف ایک سہارا علی (ع) کی مہر و محبت بھری آغوش تھی۔ امام حسن مجتبی (ع) نے اپنے باپ کی زندگی میں ان کا ساتھ دیا اور ہمیشہ ہر جگہ پر ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ ظالموں پر تنقید اور مظلوموں کی حمایت فرماتے رہے اور ہمیشہ سیاسی مسائل کو حل کرنے میں مصروف رہے۔

جب عثمان نے رسول خدا (ص) کے عظیم الشان صحابی جناب ابوذر کو شہر بدر کر کے رَبَذہ بیجھنے کا حکم دیا تو، اس وقت یہ بھی حکم دیا تھا کہ کوئی بھی ان کو رخصت کرنے نہ جائے۔ اس کے باوجود بھی حضرت علی (ع) نے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن، امام حسین (ع) اور کچھ دوسرے افراد کو اس صحابی با وفا کے ساتھ بھیج کر اسے بڑی شان سے رخصت کیا اور ان کو صبر و ثبات قدم کی وصیت فرمائی۔

حیاة الامام الحسن ج 1 ص 20،

مروج الذہب ج 2 ص 341

تاریخ یعقوبی ج 2 ص 172

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 8 ص 255

سن 36 ہجری میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مدینہ سے بصرہ روانہ ہوئے تا کہ جنگ جمل کہ جس کی آگ کو عائشہ، طلحہ اور زبیر نے بھڑکایا تھا، بجھا دیں۔

بصرہ کے مقام ذی قار میں داخل ہونے سے پہلے علی (ع) کے حکم سے عمار یاسر کے ہمراہ کوفہ تشریف لے گئے تا کہ لوگوں کو جمع کریں۔ آپ کی کوششوں اور تقریروں کے نتیجے میں تقریباً 12 ہزار افراد امام کی مدد کے لیے آ گئے ۔

کامل ابن اثیر ج 3 ص 227

آپ نے جنگ کے زمانہ میں بہت شجاعت اور فداکاری کا مظاہرہ کیا، یہاں تک کہ امام (ع) کے لشکر کو فتح نصیب ہوئی۔

حیاة الامام الحسن ج 1 ص 396

جنگ صفین میں بھی آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ ثابت قدمی کا مظاہرہ فرمایا۔ اس جنگ میں معاویہ نے عبد اللہ ابن عمر کو امام حسن مجتبی (ع) کے پاس بھیجا اور کہلوایا کہ آپ اپنے باپ کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں تو، میں خلافت آپ کے لیے چھوڑ دونگا۔ اس لیے کہ قریش ماضی میں اپنے آباء و اجداد کے قتل پر آپ کے والد سے ناراض ہیں لیکن آپ کو وہ لوگ قبول کر لیں گے۔

لیکن امام حسن (ع) نے جواب میں فرمایا:

نہیں ، خدا کی قسم ایسا نہیں ہو سکتا پھر اس کے بعد ان سے خطاب کر کے فرمایا: گویا میں تمہارے مقتولین کو آج یا کل میدان جنگ میں دیکھوں گا، شیطان نے تم کو دھوکہ دیا ہے اور تمہارے کام کو اس نے اس طرح زینت دی ہے کہ تم نے خود کو سنوارا اور معطّر کیا ہے تا کہ شام کی عورتیں تمہیں دیکھیں اور تم پر فریفتہ ہو جائیں لیکن جلد ہی خدا تجھے موت دے گا۔

وقعہ صفین، ص 297

امام حسن (ع) اس جنگ میں آخر تک اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ رہے اور جب بھی موقع ملتا، دشمن پر حملہ کرتے اور نہایت بہادری کے ساتھ موت کے منہ میں کود پڑتے تھے۔

آپ (ع) نے ایسی شجاعت کا مظاہرہ فرمایا کہ جب حضرت علی (ع) نے اپنے بیٹے کی جان، خطرے میں دیکھی تو مضطرب ہوئے اور کہا کہ:

املکو عنّی ھذا الغلام لا یھدّنی فانّنی انفس بھذین یعنی الحسن و الحسین علی الموت لئلا ینقطع بھما نسل رسول اللہ ،

اس نوجوان کو روکو تا کہ ( اسکی موت ) مجھے شکستہ حال نہ بنا دے۔ میں ان دونوں حسن و حسین (ع) کی موت سے ڈرتا ہوں کہ ان کی موت سے نسل رسول خدا (ص) منقطع نہ ہو جائے۔

نہج البلاغہ فیض الاسلام خطبہ 198 ص 11660 ،

واقعہ حکمیت میں ابو موسی کے ذریعہ حضرت علی (ع) کے برطرف کر دیئے جانے کی درد ناک خبر عراق کے لوگوں کے درمیان پھیل جانے کے بعد فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ حضرت علی (ع) نے دیکھا کہ ایسے افسوسناک موقع پر چاہیے کہ ان کے خاندان کا کوئی ایک شخص تقریر کرے اور ان کو گمراہی سے بچا کر سکون اور ہدایت کی طرف رہنمائی کرے، لہذا اپنے بیٹے امام حسن (ع) سے فرمایا:

میرے بیٹا اٹھو اور ابو موسی و عمرو عاص کے بارے میں کچھ کہو۔ امام حسن مجتبی (ع) نے ایک پر زور تقریر میں وضاحت کی کہ :

ان لوگوں کو اس لیے منتخب کیا گیا تھا تا کہ کتاب خدا کو اپنی دلی خواہش پر مقدم رکھیں لیکن انہوں نے ہوس کی بناء پر قرآن کے خلاف فیصلہ کیا اور ایسے لوگ حَكَم بنائے جانے کے قابل نہیں، بلکہ ایسے افراد محکوم اور مذمت کے قابل ہیں۔

الامامہ و السیاسة ج 1 ص 119،

حیاة الامام الحسن ج 1 ص 444

شہادت سے پہلے حضرت علی (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) کے فرمان کی بناء پر حضرت حسن (ع) کو اپنا جانشین معین فرمایا اور اس امر پر امام حسین (ع) اور اپنے تمام بیٹوں اور بزرگ شیعوں کو گواہ قرار دیا۔

اصول کافی ج 1 ص 297

اخلاقی خصوصیات:

امام حسن (ع) کی اخلاقی شخصیت ہر جہت سے کامل تھی۔ آپ کے وجود مقدس میں انسانیت کی اعلی ترین نشانیاں جلوہ گر تھیں۔

جلال الدین سیوطی اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:

حسن ابن علی (ع) اخلاقی امتیازات اور بے پناہ انسانی فضائل کے حامل تھے۔ ایک بزرگ ، باوقار ، بردبار، متین، سخی، نیز لوگوں کی محبتوں کا مرکز تھے۔

تاریخ الخلفاء، ص 189

ان کے درخشاں اور غیر معمولی فضائل میں سے ایک قطرہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

پرہیزگاری:

آپ خداوند کی طرف سے مخصوص توجہ کے حامل تھے اور اس توجہ کے آثار کبھی وضو کے وقت آپ کے چہرہ پر لوگ دیکھتے تھے، جب آپ وضو کرتے تو اس وقت آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا اور آپ کاپنے لگتے تھے۔ جب لوگ سبب پوچھتے تو فرماتے تھے:

حقٌ علی کل من وقف بین یدی رب العرش ان یصفر لونہ و ترتعد مفاصلہ،

جو شخص خدا کے سامنے کھڑا ہو، اس کے لیے اس کے علاوہ اور کچھ مناسب نہیں ہے۔

مناقب ابن شہر آشوب، ج 4 ص 14

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:

امام حسن (ع) اپنے زمانے کے عابد ترین اور زاہد ترین شخص تھے۔ جب موت اور قیامت کو یاد فرماتے تو روتے ہوئے بے قابو ہو جاتے تھے۔

بحار الانوار ج 43 ص 331

امام حسن (ع) اپنی زندگی میں 25 بار پیادہ اور کبھی پا برہنہ زیارت خانہ خدا کو تشریف لے گئے تا کہ خدا کی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ ادب و خشوع پیش کر سکیں اور زیادہ سے زیادہ اجر لے سکیں۔

بحار الانوار ج 43 ص 331

تاریخ الخلفاء ، ص 190

مناقب ابن شہر آشوب، ج 4 ص 14

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 16 ص 10

تذکرة الخواص، ص 178

سخاوت:

امام حسن (ع) کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دو بار اپنے تمام اموال کو خدا کی راہ میں دیا اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ آدھا راہ خدا میں دیا اور آدھا اپنے پاس رکھا ۔

تاریخ یعقوبی، ج 2 ص 215

بحار الانوار ج 43 ص 232

تاریخ الخلفاء، ص 190

مناقب ابن شہر آشوب، ج 4 ص 14

ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دے دے۔ امام (ع) اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔

کشف الغمہ، ج 1 ص 558

ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو، آپ (ع) نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کر دیا۔ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خداوند نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر آپ (ع) نے یہ آیت پڑھی:

و اذاحُيّیتم بتحيّة، فحَيّوا باحسن منھا،

جب تم کو کوئی ہدیہ دے تو اس سے بہتر اس کا جواب دو۔

بحار الانوار ج 43 ص 342

بردباری:

ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اور معاویہ ملعون کے اکسانے پر اس نے امام (ع) کو برا بھلا کہا۔ امام (ع) نے سکوت اختیار کیا ، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا:

اے محترم انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر تم مجھ سے میری رضا مندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری راہنمائی کروں گا۔ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو، میں اس قرض کو ادا کروں گا۔ اگر تم بھوکے ہو تو میں تم کو سیر کر دوں گا اور اگر میرے پاس آؤ گے تو زیادہ آرام محسوس کرو گے۔

وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کی:

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔

بحار الانوار ج 43 ص 344

مروان ابن حکم کہ جو آپ کا سخت دشمن تھا۔ آپ (ع) کی رحلت کے بعد اس نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی، امام حسین (ع) نے پوچھا میرے بھائی کی حیات میں تم سے جو ہو سکتا تھا، وہ تم نے کیا لیکن اب تم ان کی تشییع جنازہ میں شریک اور رو رہے ہو ؟ مروان نے جواب دیا: میں نے جو کچھ کیا اس شخص کے ساتھ کیا کہ جس کی بردباری پہاڑ ( کوہ مدینہ کی طرف اشارہ ) سے زیادہ تھی۔

تاریخ الخلفاء، ص 191

شرح ابن ابی الحدید ج 16 ص 51

خلافت:

21رمضان المبارک سن 40 ہجری کی شام کو حضرت علی (ع) کی شہادت ہو گئی۔ اس کے بعد لوگ شہر کی جامع مسجد میں جمع ہوئے، حضرت امام حسن مجتبی (ع) منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے پدر بزرگوار کی شہادت کے اعلان اور ان کے فضائل بیان کرنے کے بعد اپنا تعارف کرایا، پھر بیٹھ گئے اور عبد اللہ ابن عباس کھڑے ہوئے اور کہا لوگو یہ امام حسن (ع) تمہارے پیغمبر (ص) کے فرزند، حضرت علی (ع) کے جانشین اور تمہارے امام (ع) ہیں ان کی بیعت کرو۔

لوگ چھوٹے چھوٹے دستوں میں آپ کے پاس آتے اور بیعت کرتے رہے۔

الارشاد، شیخ مفید، ص 188

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 16 ص 30

مقاتل الطالبین، ص 50 _ 52

نہایت ہی غیر اطمینان نیز مضطرب و پیچیدہ صورت حال میں کہ جو آپ کو اپنے پدر بزرگوار کی زندگی کے آخری مراحل میں در پیش تھی، آپ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی۔ آپ نے حکومت کو ایسے لوگوں کے درمیان شروع کیا جو جہاد کی حکمت عملی اور اس کے اعلی مقاصد پر زیادہ ایمان نہیں رکھتے تھے، کیونکہ ایک طرف آپ (ع) پیغمبر (ص) و علی (ع) کی طرف سے اس عہدہ کے لیے منصوب تھے اور دوسری طرف لوگوں کی بیعت اور ان کی آمادگی نے بظاہر ان پر حجت تمام کر دی تھی، اس لیے آپ نے زمام حکومت کو ہاتھوں میں لیا اور تمام گورنروں کو ضروری احکام صادر فرمائے اور معاویہ ملعون کے فتنہ کو ختم کرنے کی غرض سے لشکر اور سپاہ کو جمع کرنا شروع کیا، معاویہ کے جاسوسوں میں سے دو افراد کی شناخت اور گرفتاری کے بعد قتل کرا دیا۔ آپ (ع) نے ایک خط بھی معاویہ کو لکھا:

اما بعد فانک دسَّست الرجال و الاغتیال و ارصدت العیون کانک تحت اللقاء و ما اشک فی ذالک فتوقعہ انشاء اللہ،

تم جاسوس بھیجتے ہو ؟ گویا تم جنگ کرنا چاہتے ہو، جنگ بہت نزدیک ہے، پس منتظر رہو انشاء اللہ۔

الارشاد، مفید، ص 189 ،

بحار الانوار ج 44 ص 45 ،

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 16 ص 31

مقاتل الطالبین، ص 53

معاویہ (لع) کی وعدہ خلافی:

جس بہانے سے قریش نے حضرت علی (ع) سے رو گردانی کی اور ان کی کم عمری کو بہانہ بنایا، معاویہ نے بھی اسی بہانے کی وجہ سے امام حسن (ع) کی بیعت سے انکار کیا۔ امام حسین (ع) کے مقابل معاویہ کی منطق سے واقفیت کے لیے امام حسن (ع) کے نام معاویہ کا وہ خط پڑھا جائے، جس کو ابن ابی الحدید نے اپنی شرح کی ج 16 ص 37 پر درج کیا۔

وہ دل میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ امام حسن (ع) تمام لوگوں سے زیادہ مناسب ہیں لیکن اسکی ریاست طلبی نے اسکو حقیقت کی پیروی سے باز رکھا ہوا تھا۔

معاویہ نے نہ صرف یہ کہ بیعت سے انکار کیا بلکہ وہ امام (ع) کو درمیان سے ہٹا دینے کی کوشش کرنے لگا کچھ لوگوں کو اس نے خفیہ طور پر اس بات پر معین کیا کہ امام (ع) کو قتل کر دیں۔ اس بناء پر امام حسن (ع) لباس کے نیچے زرہ پہنا کرتے تھے اور بغیر زرہ کے نماز کے لیے نہیں جاتے تھے، معاویہ کے بندوں میں سے ایک شخص نے ایک دن امام حسن (ع) کی طرف تیر پھینکا لیکن پہلے سے کیے گئے انتظام کی بناء پر آپ کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا۔

بحار الانوار ج 44 ص 23

معاویہ نے اتحاد کے بہانے اور اختلاف کو روکنے کے حیلے سے اپنے عمّال کو لکھا کہ:

تم لوگ میرے پاس لشکر لے کر آؤ پھر اس نے اس لشکر کو جمع کیا اور امام حسن (ع) سے جنگ کرنے کے لیے عراق کی طرف بھیجا۔

شرح شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 16 ص 37

مقاتل الطالبین، ص 60

امام حسن (ع) نے بھی حجر ابن عدی کندی کو حکم دیا کہ وہ حکام اور لوگوں کو جنگ کے لیے آمادہ کریں۔

الارشاد، مفید، ص 189

بحار الانوار، ج 44 ص 46

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 16 ص 38

مقاتل الطالبین، ص 61

امام حسن (ع) کے حکم کے بعد کوفہ کی گلیوں میں منادی نے الصّلوة الجامعة، کی آواز بلند کی اور لوگ مسجد میں جمع ہو گئے، امام حسن (ع) منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ:

معاویہ تمہاری طرف جنگ کرنے کے لیے آ رہا ہے تم بھی نُخَیلہ کے لشکر گاہ کی طرف جاؤ … پورے مجمع پر خاموشی طاری رہی۔

حاتم طائی کے بیٹے عدی نے جب ایسے حالات دیکھے تو اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کہا سبحان اللہ یہ کیسا موت کا سناٹا ہے جس نے تمہاری جان لے لی ہے ؟ تم امام (ع) اور اپنے پیغمبر (ص) کے فرزند کا جواب نہیں دیتے۔ خدا کے غضب سے ڈرو، کیا تم کو ننگ و عار سے ڈر نہیں لگتا … ؟ پھر امام حسن (ع) کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:

میں نے آپ کی باتوں کو سنا اور ان کی بجا آوری کے لیے حاضر ہوں۔ پھر اس نے مزید کہا کہ اب میں لشکر گاہ میں جا رہا ہوں، جو آمادہ ہو وہ میرے ساتھ آ جائے۔ قیس ابن سعد، معقل ابن قیس اور زیاد ابن صَعصَعہ نے بھی اپنی پر زور تقریروں میں لوگوں کو جنگ کی ترغیب دلائی پھر سب لشکر گاہ میں پہنچ گئے۔

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 16 ص 37

بحار الانوار ج 44 ص 50

الارشاد، مفید، ص 189

بحار الانوار، ج 44 ص 46

امام حسن (ع) نے لشکر کے ایک دستہ کو حَكَم کی سرداری میں شہر انبار کی طرف بھیجا، لیکن وہ معاویہ سے جا ملا اور اس کی طرف چلا گیا۔حَكَم کی خیانت کے بعد امام (ع) مدائن کے مقام ساباط تشریف لے گئے اور وہاں سے بارہ ہزار افراد کو عبید اللہ ابن عباس کی سپہ سالاری میں معاویہ سے جنگ کرنے کے لیے روانہ کیا اور قیس ابن سعد کو بھی اس کی مدد کے لیے منتخب فرمایا کہ اگر عبید اللہ ابن عباس شہید ہو جائیں تو وہ سپہ سالاری سنبھال لیں۔

معاویہ ابتداء میں اس کوشش میں تھا کہ قیس کو دھوکہ دے دے۔ اس نے دس لاکھ درہم قیس کے پاس بھیجے تا کہ وہ اس سے مل جائے یا کم از کم امام حسن (ع) سے الگ ہو جائے، قیس نے اس کے پیسوں کو واپس کر دیا اور جواب میں کہا: تم دھوکے سے میرے دین کو میرے ہاتھوں سے نہیں چھین سکتے۔

تاریخ یعقوبی، ج 2 ص 214

لیکن عبید اللہ ابن عباس صرف اس پیسہ کے وعدہ پر دھوکہ میں آ گیا اور راتوں رات اپنے خاص افراد کے ایک گروہ کے ساتھ معاویہ سے جا ملا، صبح سویرے لشکر بغیر سر پرست کے رہ گیا، قیس نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور اس واقعہ کی خبر امام حسن (ع) کو بھیج دی۔

الارشاد، مفید ص 190

قیس نے بڑی بہادری سے جنگ کی چونکہ معاویہ قیس کو دھوکہ دینے میں ناکام رہا، اس لیے اس نے عراق کے سپاہیوں کے حوصلے کو پست کرنے کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اس نے امام حسن (ع) کے لشکر میں، چاہے وہ مَسکن، نہر دجیل کے کنارے پر ایک جگہ ہے، جہاں قیس کی سپہ سالاری میں امام حسن (ع) کا لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا، میں رہا ہو یا مدائن میں ، چند جاسوس بھیجے تا کہ وہ جھوٹی افواہیں پھیلائیں اور سپاہیوں کو وحشت میں مبتلا کریں۔

مقام مَسکن میں یہ پروپیگنڈہ کر دیا گیا کہ امام حسن (ع) نے معاویہ سے صلح کی پیشکش کی ہے اور معاویہ نے بھی قبول کر لی ہے۔

تاریخ یعقوبی، ج 2 ص 214

اور اس کے مقابل مدائن میں بھی یہ افواہ پھیلا دی کہ قیس ابن سعد نے معاویہ سے ساز باز کر لی ہے اور اس سے جا ملا ہے۔

تاریخ یعقوبی، ج 2 ص 214

ان افواہوں نے امام حسن (ع) کے سپاہیوں کے حوصلوں کو توڑ دیا اور یہ پروپیگنڈے امام (ع) کے اس لشکر کے کمزور ہونے کا سبب بنے جو لشکر ہر لحاظ سے طاقت ور اور مضبوط تھا۔

معاویہ کی سازشوں اور افواہوں سے خوارج اور وہ لوگ جو صلح کے موافق نہ تھے، انہوں نے فتنہ و فساد پھیلانا شروع کر دیا۔ انھیں لوگوں میں سے کچھ افراد نہایت غصّے کے عالم میں امام (ع) کے خیمہ پر ٹوٹ پڑے اور اسباب لوٹ کر لے گئے، یہاں تک کہ امام حسن (ع) کے پیر کے نیچے جو فرش بچھا ہوا تھا اس کو بھی کھینچ لے گئے۔

الارشاد، مفید ص 190

تاریخ یعقوبی، ج 2 ص 215 ،

بحار الانوار، ج 44 ص 47 ،

شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 41

مقاتل الطالبین، ص 63

ان کی جہالت اور نادانی یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ بعض لوگ فرزند پیغمبر کو ( معاذ اللہ) کافر کہنے لگے اور جراح ابن سَنان تو قتل کے ارادے سے امام (ع) کی طرف لپکا اور چلّا کر بولا، اے حسن (ع) تم بھی اپنے باپ کی طرح مشرک ہو گئے۔ (معاذ اللہ) اس کے بعد اس نے حضرت کی ران پر وار کیا اور آپ (ع) زخم کی تاب نہ لا کر زمین پر گر پڑے ، امام حسن (ع) کو لوگ فوراً مدائن کے گورنر سعد ابن مسعود ثقفی کے گھر لے گئے اور وہاں کچھ دنوں تک آپ کا علاج ہوتا رہا۔

الارشاد، مفید ص 190

تاریخ یعقوبی، ج 2 ص 215 ،

بحار الانوار ج 44 ص 47

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 16 ص 41

مقاتل الطالبین، ص 63

اس دوران امام (ع) کو خبر ملی کہ قبائل کے سرداروں میں سے کچھ نے خفیہ طور پر معاویہ کو لکھا ہے کہ اگر عراق کی طرف آ جاؤ تو ہم تم سے یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ حسن (ع) کو تمہارے حوالے کر دیں گے۔

معاویہ نے ان کے خطوط کو امام حسن (ع) کے پاس بھیج دیا اور صلح کی خواہش ظاہر کی اور یہ عہد کیا کہ جو بھی شرائط آپ (ع) پیش کریں گے وہ مجھے قبول ہیں۔

الارشاد، شیخ مفید ص 190

تاریخ یعقوبی ج 2 ص 215

ان درد ناک واقعات کے بعد امام (ع) نے سمجھ لیا کہ معاویہ اور اس کے کارندوں کی چالوں کے سامنے ہماری تمام کوششیں ناکام ہیں۔ ہماری فوج کے نامور افراد معاویہ سے مل گئے ہیں، لشکر اور جانبازوں نے اپنے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑ دیا ہے، ممکن ہے کہ معاویہ بہت زیادہ تباہی اور فتنے برپا کر دے۔

مذکورہ بالا باتوں اور دوسری وجوہ کے پیش نظر امام حسن (ع) نے جنگ جاری رکھنے میں اپنے پیروکاروں اور اسلام کا بالکل فائدہ نہیں دیکھا۔ اگر امام (ع) اپنے قریبی افراد کے ہمراہ مقابلہ کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے اور قتل کر دیئے جاتے تو، نہ صرف یہ کہ معاویہ کی سلطنت کے پایوں کو متزلزل کرنے یا لوگوں کے دلوں کو جلب کرنے کے سلسلہ میں ذرّہ برابر بھی اثر نہ ہوتا، بلکہ معاویہ اسلام کو جڑ سے ختم کر دینے اور سچے مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کر دینے کے ساتھ ساتھ اپنی مخصوص فریب کارانہ روش کے ساتھ لباس عزا پہن کر انتقام خون امام حسن (ع) کے لیے نکل پڑتا اور اس طرح فرزند رسول (ص) کے خون کا داغ اپنے دامن سے دھو ڈالتا، خاص کر ایسی صورت میں جب صلح کی پیشکش معاویہ کی طرف سے ہوئی تھی اور وہ امام (ع) کی طرف سے ہر شرط قبول کر لینے پر تیار نظر آتا تھا۔ بناء بر این کافی تھا کہ امام (ع) نہ قبول کرتے اور معاویہ ان کے خلاف اپنے وسیع پروپیگنڈے کے ذریعہ اپنی صلح کی پیشکش کے بعد ان کے انکار کو خلاف حق بناء کر آپ (ع) کی مذمت کرتا اور کیا بعید تھا جیسا کہ امام (ع) نے خود پیشین گوئی کر دی تھی کہ ان کو اور ان کے بھائی کو گرفتار کر لیتا اور اس طریقے سے فتح مکہ کے موقع پیغمبر (ص) کے ہاتھوں اپنی اور اپنے خاندان کی اسیری کے واقعہ کا انتقام لیتا۔ اس وجہ سے امام (ع) نے نہایت سخت حالات میں مجبوری کی حالت میں صلح کی پیشکش قبول کر لی۔

بحار الانوار ج 44 ص 17 ،

شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 41_ 42،

مقاتل الطالبین، ص 14

معاہدہ صلح:

معاہدہ صلح امام حسن (ع) کا متن، اسلام کے مقدس مقاصد اور اہداف کو بچانے میں آپ کی کوششوں کا آئینہ دار ہے۔ جب کبھی کوئی منصف مزاج اور باریک بین شخص صلح نامہ کی ایک ایک شرط کی تحقیق کرے گا تو، بڑی آسانی سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ امام حسن (ع) نے کن خاص حالات میں اپنی اور اپنے پیروکاروں اور اسلام کے مقدس مقاصد کو بچایا تھا۔

صلح نامہ کی بعض شرائط ملاحظہ ہوں:

1۔ حسن (ع) زمام حکومت معاویہ کے سپرد کر رہے ہیں، اس شرط پر کہ معاویہ قرآن و سیرت پیغمبر (ص) اور شائستہ خلفاء کی روش پر عمل کرے گا۔

بحار الانوار ج 44 ص 65

2۔ بدعت اور علی (ع) کے لیے نا سزا کلمات ہر حال میں ممنوع قرار پائیں اور ان کی نیکی کے سوا اور کسی طرح یاد نہ کیا جائے گا۔

الارشاد، مفید ص 191

مقاتل الطالبین ، ص 44

حیاة الامام الحسن بن علی ج 2 ص 237

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 16 ص 4

3۔ کوفہ کے بیت المال میں پچاس لاکھ درہم موجود ہیں، وہ امام مجتبی (ع) کے زیر نظر خرچ ہوں گے اور معاویہ داراب گرد کی آمدنی سے ہر سال دس لاکھ درہم جنگ جمل و صفین کے ان شہداء کے پسماندگان میں تقسیم کرے گا، جو حضرت علی (ع) کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید کر دیئے گئے تھے۔

تاریخ دول الاسلام، ج 1 ص 53 ،

حیاة الامام الحسن بن علی، ج 2 ص 238 و 337

تذکرة الخواص ابن جوزی، ص 180

تاریخ طبری ج 5 ص 160

4۔ معاویہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ معین نہیں کرے گا۔

بحار الانوار ج 44 ص 65

5۔ ہر شخص چاہے وہ کسی بھی رنگ و نسل کا ہو اس کو مکمل تحفظ ملے اور کسی کو بھی معاویہ کے خلاف اس کے گذشتہ کاموں کی بنا پر سزا نہ دی جائے۔

مقاتل الطالبین، ص 43

6۔ شیعیان علی (ع) جہاں کہیں بھی ہوں گے، محفوظ رہیں گے اور کوئی ان کو تنگ نہیں کرے گا۔

الارشاد، مفید ص 192

حیاة الامام الحسن بن علی ج 2 ص 237

شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 4

امام (ع) نے اور دوسری شرطوں کے ذریعہ اپنے بھائی امام حسین (ع) اور اپنے چاہنے والوں کی جان کی حفاظت کی اور اپنے چند اصحاب کے ساتھ جن کی تعداد بہت ہی کم تھی، ایک چھوٹا سا اسلامی لیکن با روح معاشرہ تشکیل دیا اور اسلام کو حتمی فنا سے بچا لیا۔

معاویہ کی پیمان شکنی:

معاویہ وہ نہیں تھا، جو معاہدہ صلح کو دیکھ کر امام (ع) کے مطلب کو نہ سمجھ سکے۔ اسی وجہ سے صلح کی تمام شرطوں پر عمل کرنے کا عہد کرنے کے باوجود صرف جنگ بندی اور مکمل غلبہ کے بعد ان تمام شرطوں کو اس نے اپنے پیروں کے نیچے روند دیا اور مقام نُخَیلہ میں ایک تقریر میں صاف صاف کہہ دیا کہ:

میں نے تم سے اس لیے جنگ نہیں کی کہ تم نماز پڑھو، روزہ رکھو اور حج کے لیے جاؤ بلکہ میری جنگ اس لیے تھی کہ میں تم پر حکومت کروں اور اب میں حکومت کی کرسی پر پہنچ گیا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ صلح کے معاہدہ میں جن شرطوں کو میں نے ماننے کیلئے کہا تھا، ان کو پاؤں کے نیچے رکھتا ہوں اور ان کو پورا نہیں کروں گا۔

حیاة الامام الحسن بن علی ج 2 ص 237

مقاتل الطالبین ص 43

لہذا اس نے اپنے تمام لشکر کو امیر المؤمنین علی (ع) کی شان میں نا سزا کلمات کہنے پر برانگیختہ کیا۔ اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ انکی حکومت صرف امام کی اہانت اور ان سے انتقامی رویہ کے سایہ میں استوار ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ مروان نے اس کو صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ:

علی کو دشنام دیئے بغیر ہماری حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔

بحار الانوار، ج 44 ص 49

ابن شرح نہج البلاغہ ابی الحدید، ج 16 ص 14، 15 ، 46

مقاتل الطالبین، ص 70

الارشاد، مفید ص 91

دوسری طرف امیر المؤمنین علی (ع) کے چاہنے والے جہاں کہیں بھی ملتے، ان کو مختلف بہانوں سے قتل کر دیتا تھا۔ اس زمانہ میں تمام لوگوں سے زیادہ کوفہ کے رہنے والے سختی اور تنگی سے دوچار تھے، اس لیے کہ معاویہ نے مغیرہ کے مرنے کے بعد کوفہ کی گورنری کو زیاد کے حوالہ کر دیا تھا اور زیاد شیعوں کو اچھی طرح پہچانتا تھا، وہ ان کو جہاں بھی پاتا، بڑی بے رحمی سے قتل کر دیتا تھا۔

الصواعق المحرقہ ص 33

مدینہ کی طرف واپسی:

معاویہ ہر طرف سے طرح طرح کی امام کو تکلیفیں پہنچانے لگا۔ آپ (ع) اور آپکے اصحاب پر اس کی کڑی نظر تھی ان کو بڑے سخت حالات میں رکھتا اور علی (ع) و خاندان علی (ع) کی ہمیشہ توہین کرتا تھا۔

یہاں تک کہ کبھی تو امام حسن (ع) کے سامنے آپ کے پدر بزرگوار کی برائی کرتا اور اگر امام (ع) اس کا جواب دیتے تو آپ (ع) کو بھی ادب سکھانے کی کوشش کرتا۔

حیاة الامام الحسن ابن علی ج 2 ص 356

کوفہ میں رہنا مشکل ہو گیا تھا اس لیے آپ نے مدینہ لوٹ جانے کا ارادہ کیا۔

لیکن مدینہ کی زندگی بھی آپ کے لیے عافیت کا سبب نہیں بنی، اس لیے کہ معاویہ کے کارندوں میں سے ایک پلید ترین شخص مروان مدینہ کا حاکم تھا، مروان وہ ہے جس کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا تھا:

ھو الوزغ ابن الوزغ، الملعون ابن الملعون،

وہ ملعون ہے اور ملعون کا بیٹا ہے۔

الارشاد، مفید ص 191

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 16 ص 47

اس نے امام (ع) اور آپ کے اصحاب کا جینا مشکل کر دیا تھا، یہاں تک کہ امام حسن (ع) کے گھر تک جانا مشکل ہو گیا تھا، اس کے با وجود کہ امام (ع) دس برس تک مدینہ میں رہے لیکن ان کے اصحاب ، فرزند پیغمبر کے چشمہ علم و دانش سے بہت کم فیض یاب ہو سکے۔

مروان ملعون اور اس کے علاوہ دس سال کی مدت میں جو بھی مدینہ کا حاکم بنا، اس نے امام حسن (ع) اور ان کے چاہنے والوں کو تکلیف و اذیت پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کی۔

شہادت:

معاویہ جو امام (ع) کی کمسنی کے بہانے سے اس بات کے لیے تیار نہیں تھا کہ آپ (ع) کو خلافت دی جائے، وہ اب اس فکر میں تھا کہ اپنے نالائق جوان بیٹے یزید کو ولی عہدی کے لیے نامزد کرے تا کہ اس کے بعد مسند سلطنت پر وہ متمکن ہو جائے۔

اور ظاہر ہے کہ امام حسن (ع) اس اقدام کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ تھے، اس لیے کہ اگر معاویہ کے بعد امام حسن (ع) مجتبی زندہ رہ گئے تو ممکن ہے کہ وہ لوگ جو معاویہ کے بیٹے سے خوش نہیں ہیں، وہ امام حسن (ع) کے گرد جمع ہو جائیں اور اس کے بیٹے کی سلطنت کو خطرہ میں ڈال دیں لہذا یزید کی ولی عہدی کے مقدمات کو مضبوط بنانے کے لیے اس نے امام حسن (ع) کو راستے سے ہٹا دینے کا ارادہ کیا۔ آخر کار اس نے شیطانی مکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے، امام حسن (ع) کی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ذریعے سے آپ (ع) کو زہر دے دیا اور امام معصوم (ع) 47 سال کی عمر میں شہید ہو گئے اور مدینہ کے قبرستان بقیع میں دفن ہوئے۔

حیاة الامام الحسن بن علی ج 1 ص 239

مستدرک حاکم ج 4 ص 479

امام حسن (ع) کی شخصیت:

امام حسن (ع) کے فضائل کے بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں۔ ان روایات کے راوی بہت سے علمائے اہل سنت اور علمائے شیعہ ہیں۔ تاریخ کے متعدد ادوار میں ایسی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ جن میں امام حسن کے فضائل کو جمع کیا گیا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ آپ کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں حالیہ زمانے تک بھی بہت کم قابل توجہ کاوشیں منظر عام پر آئی ہیں۔ امام حسن کے بارے میں نقل ہونے والے بہت سے فضائل سے یہ پتا چلتا ہے کہ رسول خدا (ص) کو ان دو بھائیوں (حسنین ؑ) سے بہت زیادہ محبت تھی، اور آپ سب کے سامنے ان سے اپنی محبت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ حسنین سے آنحضرت کے اظہار محبت کا انداز آپ کا منبر سے نیچے اترنا اور ان کے بوسے لے کر دوبارہ منبر پر تشریف فرما ہونا، اس بات کی علامت ہے کہ یہ انداز اور اظہار محبت ایک مقصد کے تحت تھا۔

اس کے علاوہ رسول خدا (ص) سے منقول ہے کہ آپ نے امام حسن کے ساتھ اپنی محبت کے اظہار کے موقع پر فرمایا کہ: دیکھنے والے اس اظہار محبت سے ان لوگوں کو آگاہ کریں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ یا آپ فرمایا کرتے تھے کہ:

میں اس سے محبت کرتا ہوں ، اور اس سے بھی محبت کرتا ہوں جو اس سے محبت کرتا ہے۔

مباہلے میں امام حسن کی موجودگی، اور آپ کا اصحاب کساء میں سے ہونا ، رسول خدا کے نزدیک آپ کی اہمیت اور آپ کے اعتبار کی علامت ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ امام حسن مجتبیٰ بیعت رضوان میں موجود تھے اور نبی اکرم نے ان سے بیعت لی تھی۔

رسول خدا (ص) سے نقل ہوا ہے کہ:

اگر عقل کسی انسان کی صورت میں مجسم ہوتی، تو وہ حسن ہوتے۔

ناکثین کی شورش کے موقع پر اہل کوفہ کو جنگ پر ابھارنے کے سلسلے میں امام حسن (ع) کی کامیابی اس شہر کے لوگوں کے نزدیک آپ کی اہمیت اور اعتبار کی علامت ہے۔ رسول خدا (ص) کی ایسی احادیث کی وجہ سے مسلمان ، فاطمہ زہرا (س) کے بچوں کو اولاد رسول سمجھتے تھے اور بنی امیہ اور ان کے بعد بنی عباس کے انکار کے با وجود مسلمانوں میں اس بات میں کوئی معمولی سا بھی شک نہیں ہے۔

مصائب امام حسن مجتبی (ع):

آپ حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد مسلسل دشمنوں کے مصائب کا نشانہ رہے، خاص طور پر اسلام اور شیعیان کی حفاظت کے لیے خاموشی سے معاویہ کا ظلم و ستم برداشت کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کے دوستوں نے بھی آپ سے بے وفائی کی۔ آپ نے چھ مہینے خلافت کی اور صلح کے بعد مدینہ چلے گئے اور تا آخر عمر وہیں رہے۔معاویہ کی سازش یہ تھی کہ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ پوشیدہ طریقے سے امام حسن کو قتل کر دیا جائے۔ اپنے اس ارادے کو پورا کرنے کے لیے اس نے چار منافقوں کا الگ الگ انتخاب کیا ، ہر ایک سے کہا کہ اگر تم نے حسن ابن علی کو قتل کر دیا تو میں تمہیں دو لاکھ درہم اور شام کا فوجی افسر بنا دوں گا۔ اس کے علاوہ اپنی بیٹی سے شادی کر دوں گا۔ ان چار کا نام تھا:

1- عمرو ابن حریث

2- اشعث ابن قیس

3- حجر ابن الحارث

4- شبث بن ربعی ۔

معاویہ نے جن انعامات کا اعلان کیا تھا، انہیں حاصل کرنے کے لیے ان سب نے حامی بھر لی۔

معاویہ نے ان سب پر جاسوس مقرر کر دیئے جو پوشیدہ طور پر ان کی کارکردگی کی رپورٹ معاویہ کو بھیجتے رہتے تھے۔

امام حسن کو اس سازش کی خبر ہو گئی۔ اس کے بعد آپ مکمل طور پر نگران رہے کہ یہ سازش اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے، کیونکہ آپ ہر وقت لباس کے نیچے زرہ پہنتے تھے، یہاں تک کہ اسی زرہ میں آپ نماز بھی پڑھتے تھے، آخر ایک سازشی نے حالت نماز میں آپ پر تیر چلا دیا ، لیکن اس زرہ کی وجہ سے تیر کا زخم بدن پر نہ لگا۔

بحار الانوار، ج 44 ص 33

خوارج کی سازش:

دوسری طرف خوارج آپ کی گھات میں تھے ، یعنی وہی تقدس مآب جاہل افراد آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے، ان کا بہانہ یہ تھا کہ آپ نے معاویہ سے جنگ کیوں نہیں کی ، وہ آپ کو ( معاذ اللہ ) مشرک و مذل المؤمنین پکارتے تھے۔

انہیں خوارج میں ایک جراح ابن سنان نامی شخص نے ساباط ( مدائن ) میں سر راہ امام حسن کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور تلوار سے آپ کو اس طرح مارا کہ ران کا گوشت شگافتہ ہو کر تلوار استخوان تک پہنچ گئی۔ امام نے درد کی شدت سے اس کی گردن میں بانہیں ڈال دیں اور دونوں زمین پر گر گئے ، امام حسن (ع) کے ایک شیعہ عبد اللہ ابن خطل نے لپک کر تلوار اس کے ہاتھ سے چھین کر اسے قتل کر دیا ، ایک دوسرے ساتھی کو بھی پکڑ کر قتل کر دیا۔ امام حسن کو مدائن کے گورنر سعد ابن مسعود ثقفی کے مکان پر لے گئے اور آپ کا علاج کرایا گیا۔

کتاب ترجمۂ ارشاد، شیخ مفید ،ج 2 ص 8

امام حسن (ع) کو زہر دیا گیا:

جعدہ بنت اشعث امام حسن (ع) کی زوجہ تھی ، معاویہ نے اسے ایک لاکھ درہم بھیجا اور پیغام بھیجا کہ اگر حسن ابن علی کو زہر دو گی تو، تمہاری شادی اپنے بیٹے یزید سے کر دوں گا ، جعدہ نے معاویہ کی یہ پیش کش قبول کر لی اور امام حسن کو زہر دیدیا۔

معاویہ نے جعدہ کے پاس سیّال زہر بھیجا، امام حسن (ع) روزے سے تھے، ہوا گرم تھی ، افطار کے وقت جعدہ نے وہ زہر آپ کے دودھ کے پیالے میں ملا کر امام کی خدمت میں پیش کیا ، امام نے اسے پیا تو فوراً زہر محسوس کر لیا ، جعدہ سے فرمایا :

تو نے مجھے قتل کیا ، خدا تجھے قتل کرے ، خدا کی قسم تیری آرزو پوری نہ ہو گی ، خدا تجھے ذلیل کرے گا۔

دو دن کے بعد آپ نے اسی زہر سے شہادت پائی۔ معاویہ نے جعدہ سے جو قول و قرار کیا تھا، اسے پورا نہ کیا، یزید سے اس کی شادی نہیں کی، اس نے امام حسن کے بعد خاندان طلحہ کے ایک شخص سے شادی کر لی، اور اس سے کئی بچے ہوئے، جب ان بچوں کے خاندان اور خاندان قریش کے درمیان تکرار ہوتی تو انہیں کہا جاتا:

یا بنی مسمّة الازواج،

اے ایسی عورت کے بیٹو جو اپنے شوہروں کو زہر دیتی ہیں،

کتاب ارشاد، شیخ مفید ج 2 ص 13

روایت ہے کہ جعدہ معاویہ کے پاس گئی اور کہا: میری یزید سے شادی کر دو۔ اس نے جواب دیا:

اذهبی فان الامرأة لا تصلح للحسن بن علی لا تصلح لابنی یزید،

دفع ہو جاؤ ! تجھ جیسی عورت نے جب حسن ابن علی سے وفا نہیں کی تو میرے بیٹے یزید سے کیا وفا کرے گی۔

بحار الانوار، ج 44 ص 148 ، 154

عمر ابن اسحاق کا بیان ہے کہ: میں حسن و حسین کے ساتھ گھر میں تھا، اتنے میں امام حسن طہارت کے لیے گھر سے باہر گئے، واپس آ کر فرمایا کہ کئی بار مجھے زہر دیا گیا لیکن اس مرتبہ سب سے شدید تھا، میرے جگر کا ایک ٹکڑا گرا ہے، اسے میں نے اپنے اس عصا سے حرکت دی ہے۔ امام حسین نے پوچھا: کس نے آپ کو زہر دیا ہے ؟

امام حسن نے فرمایا: اس سے تم کیا چاہتے ہو ؟ کیا اسے قتل کرو گے ؟ جسے میں سمجھتا ہوں اس پر تم سے زیادہ خدا عذاب کرے گا اور اگر وہ نہ ہو تو میں نہیں چاہتا کہ بے گناہ میری وجہ سے گرفتار ہو۔

بحار الانوار، ج 44 ص 148 ، 154

امام حسن (ع) زہر کھانے کے بعد 40 دن بیمار اور بستر پر رہے، آخر ماہ صفر میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔

کشف الغمہ، ج 2 ص 163

ایک دوسری روایت میں حضرت صادق آل محمد (ع) کا ارشاد ہے کہ: جس وقت امام حسین اپنے بھائی کے سرہانے آئے اور حالت دیکھی تو رونے لگے۔ امام حسن نے پوچھا، بھائی کیوں روتے ہو ؟

امام حسین نے کہا: کیسے گریہ نہ کروں کہ آپ کو مسموم دیکھ رہا ہوں، لوگوں نے مجھے بے بھائی کر دیا ہے۔

امام حسن نے فرمایا: میرے بھائی ! اگرچہ مجھے زہر دیا گیا ہے لیکن جو کچھ ( پانی ، دودھ ، دوا وغیرہ ) چاہوں یہاں مہیّا ہے۔ بھائی ، بہنیں اور خاندان کے افراد میرے پاس موجود ہیں ، لیکن

لا یوم کیومک یا ابا عبد اللّه.

اے ابا عبد اللہ ! تمہاری طرح میری حالت تو نہیں ہے ، تم پر 30 ہزار اشقیاء کا ہجوم ہو گا، جو دعویٰ کریں گے کہ ہم امت محمدی میں سے ہیں۔ وہ تمہارا محاصرہ کر کے قتل کریں گے ، تمہارا خون بہائیں گے، تمہاری عورتوں اور بچوں کو اسیر کریں گے ، تمہارا مال لوٹ لیں گے، اس وقت بنی امیہ پر خدا کی لعنت روا ہو گی۔

میرے بھائی تمہاری شہادت دلگداز ہے کہ

و یبکی علیک کلّ شئی حتیٰ الوحش فی الفلوات و الحیتان فی البحار،

تم پر تمام چیزیں گریہ کریں گی یہاں تک کہ حیوانات صحرائی و دریائی تمہاری مصیبت پر روئیں گے۔

امالی صدوق مجلس نمبر 30

مقتل المقرم، ص 240

امام حسین (ع) سے وصیت:

امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں کہ امام حسن (ع) پر حالت احتضار طاری ہوئی ، امام حسین سے کہا : میرے بھائی تم سے وصیت کرتا ہوں اس کا لحاظ کرنا اور پوری کرنا:

جب میں مر جاؤں تو دفن کا انتظام کرنا ، پھر مجھے قبر رسول (ص) پر لے جانا تا کہ ان سے تجدید عہد کروں، پھر مجھے قبر مادر پر لانا پھر بقیع میں لے جانا کر دفن کر دینا، یہ سمجھ لو کہ حمیرا (عائشہ) جس کی دشمنی و عناد میرے خاندان سے سبھی جانتے ہیں، اس کی طرف سے مجھ پر مصیبت ڈھائی جائے گی۔

جس وقت حضرت امام حسن (ع) شہید ہو گئے، جنازے کو تابوت میں رکھا گیا ، جہاں رسول (ص) نماز پڑھتے تھے وہیں لے جایا گیا، امام حسین (ع) نے نماز جنازہ پڑھائی، وہاں سے قبر رسول (ص) پر لیجا کر تھوڑی دیر کے لیے رکھا گیا۔

اعتراض عائشہ اور امام حسین (ع) کا جواب:

عائشہ کو خبر دی گئی کہ بنی ہاشم جنازے کو قبر رسول (ص) کے پہلو میں دفن کرنا چاہتے ہیں، عائشہ ایک خچر پر سوار ہو کر وہاں پہنچ گئی اور ڈیرا ڈال دیا کہنے لگی :

نحّوا ابنکم عن بیتی.

اپنے فرزند کو میرے گھر سے باہر لے جاؤ، کیونکہ یہاں کوئی چیز دفن نہیں ہو سکتی ، حجاب رسول کو پارہ نہیں ہونا چاہیے۔

امام حسین (ع) نے اس سے فرمایا :

تم نے اور تمہارے باپ نے تو پہلے ہی حجاب رسول کو پارہ پارہ کر دیا ہے، تم نے رسول کے گھر ایسے کو ابو بکر پہنچا دیا ہے کہ رسول کو اس کی قربت نا پسند تھی ، خداوند تم سے اس کی باز پرس کرے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے بھائی حسن نے مجھے وصیت کی تھی کہ میرا جنازہ قبر رسول (ص) پر لے جانا تا کہ تجدید عہد کروں۔ تم سمجھ لو کہ میرے بھائی تمام لوگوں سے زیادہ خدا و رسول اور معنی قرآن کو سمجھتے تھے، وہ حجاب رسول کے پارہ ہونے کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اگر ان کا دفن ہونا میری رائے میں مناسب ہوتا تو سمجھ لو کہ تمہاری خواہش کے بر خلاف یہاں ضرور دفن ہوتے۔

اس کے بعد محمد حنفیہ نے فرمایا :

اے عائشہ! ایک دن تم خچر پر سوار ہوئی اور ایک دن تم اونٹ پر سوار ہوئی تھی، تمہیں جو بنی ہاشم سے نفرت ہے اس کی وجہ سے نہ تو تم اپنے اختیار میں ہو، نہ چین سے رہ سکتی ہو۔

عائشہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا: اے حنفیہ کے بیٹے ! یہ فرزندان فاطمہ ہیں جو مجھ سے بات کر رہے ہیں، تم کیوں بیچ میں بول رہے ہو۔

امام حسین (ع) نے فرمایا : محمد کو بنی فاطمہ سے الگ کیوں کر رہی ہو، خدا کی قسم ! اسے تین فاطمہ نے جنم دیا ہے۔ فاطمہ بنت عمران (مادر ابو طالب )، فاطمہ بنت اسد (مادر علی ) فاطمہ بنت زائدہ بن اصم (مادر عبد المطلب )۔

عائشہ نے جھلا کر کہا: اپنے فرزند کو ہٹاؤ ، لے جاؤ کہ تم لوگ عناد پرست ہو۔

امام حسین (ع) جنازے کو بقیع کی طرف لے کر چلے گئے ۔

اصول کافی، ج 1 ص 302

دوسری روایت ہے کہ غسل کے بعد جب جنازے کو قبر رسول (ص) کی طرف لے چلے تو حاکم مدینہ مروان اور اس کے ساتھیوں نے یقین کر لیا کہ امام حسن کو قبر رسول (ص) کے پہلو میں دفن کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے تیاری شروع کر دی اور لباس جنگ پہن کر بنی ہاشم کے سامنے آ گئے، عائشہ خچر پر سوار ہو کر فریاد کر رہی تھی ، مجھے پسند نہیں کہ اپنے فرزند کو میرے گھر میں لاؤ۔

مروان نے کہا :

یا ربّ هیجا هی خیر.

کتنے ہی موقعے ہوتے ہیں کہ جنگ آسائش سے بہتر ہوتی ہے،

کیا عثمان مدینے کے کنارے دفن ہوں اور حسن پیغمبر کے قریب دفن کیے جائیں ؟ جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے، ایسا نہیں ہونے دوں گا۔

قریب تھا کہ بنی ہاشم اور بنی امیہ میں شدید جنگ چھڑ جائے کہ عبد اللہ ابن عباس نے مروان سے جا کر کہا:

اے مروان ! ہم چاہتے ہیں کہ قبر رسول (ص) پر تجدید عہد کریں ، ہم امام حسن کو پہلوئے رسول میں دفن نہیں کرنا چاہتے،

اس کے بعد عائشہ کی طرف رخ کیا :

یہ کیا ذلیل حرکت ہے عائشہ ! ایک دن خچر پر، ایک دن اونٹ پر۔ تم نور خدا کو بجھانا چاہتی ہو۔ دوستان خدا سے جنگ کرنا چاہتی ہو۔ واپس جاؤ کہ جو کچھ تم چاہتی ہو پا گئی ہو۔ ( اطمینان رکھو کہ ہم امام حسن کو پہلوئے رسول میں دفن نہیں کریں گے ) خداوند عالم اس خاندان سے انتقام ضرور لے گا چاہے زیادہ عرصہ ہی کیوں نہ گزر جائے۔

ترجمہ کتاب ارشاد شیخ مفید، ج 2 ص 15

جنازے پر تیر بارانی:

محدث قمی نے مناقب ابن شہر آشوب کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

جنازہ امام حسن پر تیر بارانی بھی ہوئی اور دفن کے وقت ستر تیر آپ کے جسد مبارک سے نکالے گئے۔

انوار البہیہ، ص 83

اسی لیے ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:

و انتم صریع قد فلق ،

تم ( خاندان نبوت ) میں سے کسی کو محراب عبادت میں سر شگافتہ کیا گیا، دوسرے کو تابوت کے اندر تیر بارانی کی گئی ، کسی کو بعد قتل نوک نیزہ پر سر بلند کیا گیا اور بعض کو زندان کے گوشے میں کھینچا گیا اور اعضاء کو لوہے کے نیچے دبایا گیا۔ یا زہر کے اثر سے داخلی طور سے قطع قطع کیا گیا۔

مصباح الزائر،

مفاتیح الجنان،

امام حسین (ع) جنازے کو بقیع میں لے گئے اور جدۂ ماجدہ فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں دفن کر دیا۔

مرثیۂ امام حسین (ع):

امام حسین (ع) نے جنازے کو تابوت میں رکھتے ہوئے یہ اشعار پڑھے :

کیا میں سر میں تیل لگاؤں یا ریش کو عطر سے خوشبو دار کروں ؟ جبکہ میں آپ کے سر کو مٹی میں دیکھ رہا ہوں اور آپ کو کٹی شاخ یا پتے کی طرح دیکھ رہا ہوں۔

جب تک کبوتر کی آواز گونجے گی اور شمالی و جنوبی ہوا چلے گی، میں آپ پر روتا رہوں گا۔

میرا گریہ طولانی ہے، میرے آنسو رواں ہیں، آپ مجھ سے دور ہیں اور قبر نزدیک ہے۔

جس کا مال چھین لیا گیا ہو، غارت شدہ نہیں ہے، بلکہ غارت شدہ وہ ہے کہ جو اپنے بھائی کو خاک میں دفناتا ہے۔

مناقب ابن شہر آشوب، ج 4 ص 45

طشت میں خون جگر:

جنادہ ابن امیہ روایت کرتا ہے کہ جس بیماری میں امام حسن (ع) نے شہادت پائی، میں انکی عیادت کے لیے گیا، میں نے دیکھا کہ آپ کے پاس طشت رکھا ہے، جس میں گلے سے خون کے لوتھڑے گر رہے ہیں، جس میں آپ کے جگر کے ٹکڑے تھے، میں نے عرض کی: اے مولا ! علاج کیوں نہیں کرتے ؟

فرمایا: اے بندۂ خدا ! موت کا علاج کس چیز سے کروں ؟

اس کے بعد میں نے عرض کی: مولا ! مجھے موعظہ فرمایئے۔ فرمایا:

استعد لسفر .

اے جنادہ ! آخرت کے سفر کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور عمر ختم ہونے سے پہلے توشۂ آخرت حاصل کر لو۔ سمجھ لو کہ تم دنیا کی طلب میں ہو اور موت تمہاری طلب میں ہے، کبھی آنے والے کل کا غم آج نہ کرو۔

جنادہ کہتا ہے کہ ناگاہ میں نے دیکھا کہ امام حسین (ع) حجرے میں تشریف لائے، حالانکہ امام حسن کا رنگ زرد ہو گیا ، سانسیں رک رہی گئیں، امام حسین نے خود کو برادر کے بدن پر گرا دیا اور سر آنکھوں کا بوسہ دینے لگے ، تھوڑی دیر آپ کے پاس بیٹھ کر راز کی باتیں کرتے رہے۔

انوار البہیہ، (شیخ عباس قمی) ص 80

شہادت امام حسن (ع) پر معاویہ (لع) کی خوشی:

معاویہ کو جب شہادت امام حسن (ع) کی خبر ملی تو بہت خوش ہوا۔ سجدے میں گر کر شکر خدا بجا لایا پھر تکبیر کہی۔ اس وقت ابن عباس شام میں تھے۔ معاویہ نے انہیں بلایا اور بڑے مسرور انداز میں تعزیت پیش کی، پھر ابن عباس سے پوچھا حسن ابن علی کی عمر کتنی تھی ؟

ابن عباس نے جواب دیا: تمام قریش کے لوگ ان کے سن و سال سے آگاہ ہیں۔ تعجب ہے کہ تم نا واقفیت ظاہر کر رہے ہو۔

معاویہ نے کہا: سنا ہے کہ حسن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ؟

ابن عباس نے کہا: ہر چھوٹا ایک دن بڑا ہوتا ہے اور یہ سمجھ لو کہ ہمارے بچے بھی بوڑھوں کی طرح ہوتے ہیں۔

سچ بتاؤ کہ وفات حسن سے تم اتنے خوش کیوں ہو ؟ خدا کی قسم ان کی موت تمہارے اجل کو ٹالے گی نہیں، نہ ان کی قبر تمہاری قبر کو بھرے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے بعد میری اور تمہاری عمر کس قدر مختصر ہے۔

عقد الفرید، ج 4 ص 362

امام حسن (ع) پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں:

ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں نے رسول کریم کو اس حال میں دیکھا کہ وہ ایک کاندھے پر امام حسن کو اور ایک کاندھے پر امام حسین کو بٹھائے ہوئے جا رہے ہیں اور باری باری دونوں کا منہ چومتے جاتے ہیں۔ ایک صحابی کا بیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نماز پڑھ رہے تھے اور حسنین آپ کی پشت پر سوار ہو گئے کسی نے روکنا چاہا تو حضرت نے اشارہ سے منع کر دیا۔

الاصابہ، ج 2 ص 12

ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسن سے بہت زیادہ محبت کرنے لگا ہوں کہ جس دن میں نے رسول خدا کی آغوش میں بیٹھ کر انہیں داڑھی سے کھیلتے دیکھا تھا۔

نور الابصار، ص 119

بخاری اور مسلم نے بھی لکھا ہے کہ: ایک دن حضرت رسول خدا امام حسن کو کندھے پر بٹھائے ہوئے فرما رہے تھے:

خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔

حافظ ابو نعیم نے ابوبکرہ سے روایت کی ہے کہ: ایک دن آنحضرت نماز جماعت پڑھا رہے تھے کہ ناگاہ امام حسن آ گئے اور وہ دوڑ کر پشت رسول پر سوار ہو گئے۔ یہ دیکھ کر رسول کریم نے نہایت نرمی کے ساتھ سر اٹھایا، اختتام نماز پر آپ سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

یہ میرا گل امید ہے، ابنی ھذا سید، یہ میرا بیٹا سید ہے اور دیکھو یہ عنقریب دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔

امام نسائی نے عبد اللہ ابن شداد سے روایت کی ہے کہ ایک دن نماز عشاء پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے، آپ کی آغوش میں امام حسن تھے۔ آنحضرت نماز میں مشغول ہو گئے، جب سجدہ میں گئے تو اتنا طول دیا کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ اختتام نماز پر آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو فرمایا کہ:

میرا فرزند میری پشت پر آ گیا تھا، میں نے یہ نہ چاہا کہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں، جب تک کہ وہ خود نہ اترجائے، اس لیے سجدہ کو طول دینا پڑا گیا تھا۔

حکیم ترمذی ، نسائی اور ابو داؤد نے لکھا ہے کہ آنحضرت ایک دن محو خطبہ تھے کہ حسنین آ گئے اور حسن کے پاؤں دامن عبا میں اس طرح الجھے کہ زمین پر گر پڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کر دیا اور منبر سے اتر کر انہیں آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پر تشریف لے جا کر خطبہ دوبارہ جاری فرمایا۔

مطالب السؤل، ص 223

امام حسن (ع) کا جنت کا سردار ہونا:

آل محمد کی سرداری مسلمات سے ہے۔ علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ سرور کائنات نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

الحسن و الحسین سیدا شباب اھل الجنة و ابو ھما خیر منھما،

حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد بزرگوار یعنی علی ابن ابی طالب ان دونوں سے بہتر ہیں۔

جناب حذیفہ یمانی کا بیان ہے کہ میں نے آنحضرت کو ایک دن بہت زیادہ مسرور پا کر عرض کی مولا آج افراط شادمانی کی کیا وجہ ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ:

مجھے آج جبرائیل نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزند حسن و حسین جوانان بہشت کے سردار ہیں اور ان کے والد علی ابن ابی طالب ان سے بھی بہتر ہیں۔

کنز العمال، ج 7 ص 107

صواعق محرقہ، ص 117

جذبہ اسلام کی فراوانی:

مؤرخین کا بیان ہے کہ ایک دن ابو سفیان حضرت علی (ع) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ آپ آنحضرت سے سفارش کر کے ایک ایسا معاہدہ لکھوا دیجئے جس کی رو سے میں اپنے مقصدمیں کامیاب ہو سکوں۔ آپ نے فرمایا کہ آنحضرت جو کچھ کہہ چکے ہیں اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی، اس نے امام حسن سے سفارش کی خواہش کی، آپ کی عمر اگرچہ اس وقت صرف 14 ماہ کی تھی لیکن آپ نے اس وقت ایسی جرائت کا ثبوت دیا کہ جس کا تذکرہ زبان تاریخ پر ہے۔ لکھا ہے کہ ابو سفیان کی طلب سفارش پر آپ نے دوڑ کر اس کی داڑھی پکڑ لی اور ناک مروڑ کر کہا کلمہ شہادت زبان پر جاری کرو، تمہارے لیے سب کچھ ہے۔ یہ دیکھ کر امیر المومنین علی (ع) مسرور ہو گئے۔

مناقب آل ابی طالب، ج 4 ص 46

امام حسن (ع) اور ترجمانی وحی:

علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ امام حسن کا یہ وطیرہ تھا کہ آپ انتہائی کم سنی کے عالم میں اپنے نانا پر نازل ہونے والی وحی من و عن اپنی والدہ ماجدہ کو سنایا کرتے تھے۔ ایک دن حضرت علی (ع) نے فرمایا کہ اے بنت رسول میرا جی چاہتا ہے کہ میں حسن کو ترجمانی وحی کرتے ہوئے خود دیکھوں، اور سنوں، سیدہ نے امام حسن کے پہنچنے کا وقت بتا دیا۔ ایک دن امیر المومنین، امام حسن سے پہلے داخل خانہ ہو گئے اور گوشئہ خانہ میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ امام حسن حسب معمول تشریف لائے اور ماں کی آغوش میں بیٹھ کر وحی سنانا شروع کر دی لیکن تھوڑی دیر کے بعد عرض کی:

یا اماہ قد تلجلج لسانی و کل بیانی لعل سیدی یرانی،

مادر گرامی آج زبان وحی ترجمان میں لکنت اور بیان مقصد میں رکاوٹ ہو رہی ہے، مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میرے بزرگ محترم مجھے دیکھ رہے ہیں۔ یہ سن کرحضرت امیر المومنین علی (ع) نے دوڑ کر امام حسن کو آغوش میں اٹھا لیا اور بوسہ دینے لگے۔

بحار الانوار، ج 10 ص 193

حضرت امام حسن (ع) کا بچپن میں لوح محفوظ کا مطالعہ کرنا:

اسماعیل بخاری نے لکھا ہے کہ ایک دن کچھ صدقہ کی کھجوریں آئیں ہوئی تھیں۔ امام حسن اور امام حسین اس کے ڈھیر سے کھیل رہے تھے اور کھیل ہی کھیل میں امام حسن نے ایک کھجور دہن اقدس میں رکھ لی، یہ دیکھ کر آنحضرت نے فرمایا اے حسن کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم لوگوں پر صدقہ حرام ہے۔

صحیح بخاری، ج 6 ص 52

شہید ثالث قاضی نور اللہ شوشتری تحریر فرماتے ہیں کہ: امام پر اگرچہ وحی نازل نہیں ہوتی لیکن اس کو الہام ہوتا ہے اور وہ لوح محفوظ کا مطالعہ کرتا ہے۔

جیسے ابن حجر عسقلانی کا وہ قول ہے کہ جو اس نے صحیح بخاری کی اس روایت کی شرح میں لکھا ہے جس میں آنحضرت نے امام حسن کے شیر خوارگی کے عالم میں صدقہ کی کھجور کے منہ میں رکھ لینے پر اعتراض فرمایا تھا:

کخ کخ اما تعلم ان الصدقة علینا حرام،

تھوکو منہ سے باہر نکالو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگوں پر صدقہ حرام ہے .

اور جس شخص نے یہ خیال کیا کہ امام حسن اس وقت دودھ پیتے تھے، آپ پر ابھی شرعی پابندی نہ تھی، آنحضرت نے ان پر کیوں اعتراض کیا ؟

تو اس کا جواب علامہ عسقلانی نے اپنی فتح الباری شرح صحیح بخاری میں دیا ہے کہ امام حسن اور دوسرے بچے برابر نہیں ہو سکتے کیونکہ:

ان الحسن یطالع لوح المحفوظ ،

امام حسن شیر خوارگی کے عالم میں بھی لوح محفوظ کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔

احقاق الحق، ص 127

امام حسن (ع) کا بچپن اور مسائل علمیہ:

یہ مسلّمات میں سے ہے کہ حضرت آئمہ معصومین (ع) کو علم لدنی ہوا کرتا ہے، وہ دنیا میں تحصیل علم کے محتاج نہیں ہوا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائل علمیہ سے واقف ہوتے تھے کہ جن سے دنیا کے عام علماء اپنی زندگی کے آخری عمر تک بے بہرہ رہتے تھے۔ امام حسن جو خانوادہ رسالت کے ایک فرد اکمل اور سلسلہ عصمت کی ایک مستحکم کڑی تھے، کے بچپن کے حالات و واقعات دیکھے جائیں تو اس بات کا واضح ثبوت مل جائے گا:

مناقب ابن شہر آشوب میں بحوالہ شرح اخبار قاضی نعمان مرقوم ہے کہ:

1- ایک سائل ابوبکر کے پاس آیا اور اس نے سوال کیا کہ میں نے حالت احرام میں شتر مرغ کے چند انڈے بھون کر کھا لیے ہیں، بتائیے کہ مجھ پرکفارہ واجب الادا ہوا ہے یا نہیں ؟ سوال کا جواب چونکہ ان کے بس کا نہ تھا اس لیے عرق ندامت پیشانی پر آ گیا اور اس بندے سے کہا گیا کہ اسے عبد الرحمن ابن عوف کے پاس لے جاؤ، جو ان سے سوال دہرایا تو وہ بھی جہالت کی وجہ سے خاموش ہو گیا اور کہا کہ اس کا حل تو فقط امیر المومنین علی کر سکتے ہیں۔

سائل حضرت علی کی خدمت میں لایا گیا، آپ نے سائل سے فرمایا کہ میرے دو چھوٹے بچے جو تم کو سامنے نظر آ رہے ہیں، ان سے دریافت کر لے۔ سائل امام حسن کی طرف متوجہ ہوا اور مسئلہ دہراہا امام حسن نے جواب دیا کہ تو نے جتنے انڈے کھائے ہیں، اتنی ہی عمدہ اونٹیاں لے کر انہیں حاملہ کرا اور ان سے جو بچے پیدا ہوں انہیں راہ خدا میں ہدیہ خانہ کعبہ کر دے۔ امیر المومنین نے ہنس کر فرمایا کہ بیٹا جواب تو بالکل صحیح ہے، لیکن یہ بتاؤ کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ کچھ حمل ضائع ہو جاتے ہیں اور کچھ بچے مر جاتے ہیں ؟ عرض کی بابا جان بالکل درست ہے مگر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ کچھ انڈے بھی خراب اور گندے نکل جاتے ہیں۔ یہ سن کر سائل پکار اٹھا کہ ایک مرتبہ اپنے عہد میں سلیمان ابن داؤد نے بھی یہی جواب دیا تھا جیسا کہ میں نے اپنی کتابوں میں دیکھا ہے۔

2- ایک روز امیر المومنین علی (ع) مقام رحبہ میں تشریف فرما تھے اور حسنین بھی وہاں موجود تھے کہ ناگاہ ایک شخص آ کر کہنے لگا کہ میں آپ کی رعایا میں سے ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ تو جھوٹ کہتا ہے تو نہ میری رعایا میں سے ہے اور نہ میرے شہر کا شہری ہے بلکہ تو بادشاہ روم کا فرستادہ بندہ ہے۔ تجھے اس نے معاویہ کے پاس چند مسائل دریافت کرنے کے لیے بھیجا تھا اور اس نے تمہیں میرے پاس بھیج دیا ہے۔ اس نے کہا اے حضرت آپ کا ارشاد بالکل درست ہے، مجھے معاویہ نے مخفی طور پر آپ کے پاس بھیجا ہے اور اس کا حال خداوند عالم کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے، مگر آپ بہ علم امامت سمجھ گئے، آپ نے فرمایا کہ:

اچھا اب ان مسائل کے جوابات ان دو بچوں میں سے کسی ایک سے پوچھ لے، وہ امام حسن کی طرف متوجہ ہوا چاہتا تھا کہ سوال کرے، اس سے پہلے امام حسن نے فرمایا: اے شخص تو یہ دریافت کرنے آیا ہے کہ:

1- حق و باطل کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟

2- زمین و آسمان کے درمیان کتنی مسافت ہے ؟

3- مشرق و مغرب میں کتنی دوری ہے ؟

4- قوس قزح کیا چیز ہے ؟

5- مخنث کسے کہتے ہیں ؟

6- وہ دس چیزیں کیا ہیں کہ جن میں سے ہر ایک کو خداوند عالم نے دوسرے سے سخت اور فائق پیدا کیا ہے ؟

تو اب غور سے ان سوالات کے جواب سن:

حق و باطل میں چار انگشت کا فرق و فاصلہ ہے اکثر و بیشتر جو کچھ آنکھ سے دیکھا جاتا حق ہے اور جو کان سے سنا جاتا ہے، باطل ہے۔

زمین اور آسمان کے درمیان اتنی مسافت ہے کہ مظلوم کی آہ اور آنکھ کی روشنی پہنچ جاتی ہے۔

مشرق و مغرب میں اتنا فاصلہ ہے کہ سورج ایک دن میں طے کر لیتا ہے۔

اور قوس و قزح اصل میں قوس خدا ہے، اس لیے کہ قزح شیطان کا نام ہے۔ یہ فراوانی رزق اور اہل زمین کے لیے غرق سے امان کی علامت ہے، اس لیے اگر یہ خشکی میں نمودار ہوتی ہے تو بارش کے حالات میں سے سمجھی جاتی ہے اور بارش میں نکلتی ہے تو ختم باران کی علامت میں سے شمار کی جاتی ہے۔

مخنث وہ ہے جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ مرد ہے یا عورت اور اس کے جسم میں دونوں کے اعضاء ہوں اس کا حکم یہ ہے کہ تا حد بلوغ انتظار کریں اگر محتلم ہو تو مرد اور حائض ہو اور پستان ابھر آئیں تو وہ عورت ہے۔

اگر اس سے مسئلہ حل نہ ہو تو دیکھنا چاہیے کہ اس کے پیشاب کی دھاریں سیدھی جاتی ہیں یا نہیں، اگر سیدھی جاتی ہیں تو مرد، ورنہ عورت۔

اور وہ دس چیزیں جن میں سے ایک دوسرے پر غالب و قوی ہے وہ یہ ہیں کہ خدا نے سب سے زیادہ سخت و قوی پتھر کو پیدا کیا ہے، مگر اس سے زیادہ سخت لوہا ہے کہ جو پتھرکو بھی کاٹ دیتا ہے اور اس سے زیادہ سخت و قوی آگ ہے کہ جو لوہے کو پگھلا دیتی ہے اور آگ سے زیادہ سخت قوی پانی ہے کہ جو آگ کو بجھا دیتا ہے اور اس سے زیادہ سخت و قوی ابر ہے کہ جو پانی کو اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے اور اس سے زیادہ قوی ہوا ہے کہ جو ابرکو اڑائے پھرتی ہے اور ہوا سے زیادہ سخت و قوی فرشتہ ہے جس کی ہوا محکوم ہے اور اس سے زیادہ سخت و قوی ملک الموت ہے کہ جو فرشتہ باد کی بھی روح قبض کر لیں گے اور موت سے زیادہ سخت و قوی حکم خدا ہے کہ جو موت کو بھی ٹال دیتا ہے۔ یہ جوابات سن کر سائل پھڑک اٹھا۔

امام حسن (ع) اور تفسیر قرآن:

ابن طلحہ شافعی نے لکھا ہے کہ ایک شخص نے ابن عباس اور ابن عمرسے ایک آیت سے متعلق شاہد و مشہود کے معنی دریافت کیے۔ ابن عباس نے شاہد سے یوم جمعہ اور مشہود سے یوم عرفہ بتایا اور ابن عمر نے یوم جمعہ اور یوم النحر کہا۔ اس کے بعد وہ شخص امام حسن کے پاس پہنچا، آپ نے شاہد سے رسول خدا اور مشہود سے یوم قیامت فرمایا اور دلیل میں آیت پڑھی :

1- یا ایھا النبی انا ارسلناک شاھدا و مبشرا و نذیرا،

اے نبی ہم نے تم کو شاہد و مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔

2- ذالک یوم مجموع لہ الناس و ذالک یوم مشھود،

قیامت کا وہ دن ہو گا جس میں تمام لوگ ایک مقام پرجمع ہوں کر دئیے جائیں گے، اور یہی یوم مشہود ہے۔

سائل نے سب کا جواب سننے کے بعد کہا:

فکان قول الحسن احسن،

امام حسن کا جواب دونوں سے کہیں بہتر ہے۔

مطالب السؤل، ص 225

امام حسن (ع) کی عبادت:

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں کہ امام حسن (ع) زبردست عابد، بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے۔ آپ نے جب بھی حج فرمایا پیدل فرمایا، کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے۔ آپ اکثر موت، عذاب، قبر، صراط اور بعثت و نشور کو یاد کر کے رویا کرتے تھے۔ جب آپ وضو کرتے تھے، تو آپ کے چہرے کا رنگ زرد ہو جایا کرتا تھا اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے، تو بید کی مثل کانپنے لگتے تھے۔ آپ کا معمول تھا کہ جب دروازہ مسجد پر پہنچتے تھے، تو خدا کو مخاطب کر کے کہتے: میرے پالنے والے تیرا گنہگار بندہ تیری بارگاہ میں آیا ہے، اسے رحمن و رحیم اپنے اچھائیوں کے صدقہ میں مجھ جیسے برائی کرنے والے بندہ کو معاف کر دے۔ آپ جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تھے تو اس وقت تک خاموش بیٹھے رہتے تھے، جب تک سورج طالع نہ ہو جائے۔

روضة الواعظین،

بحار الانوار

امام حسن (ع) کا زہد:

امام شافعی نے لکھا ہے کہ امام حسن (ع) نے اکثر اپنا سارا مال راہ خدا میں تقسیم کر دیا اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایا ہے، وہ عظیم و پرہیزگار تھے۔

امام حسن (ع) کی سخاوت:

مورخین لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسن (ع) سے کچھ مانگا، دست سوال دراز ہونا تھا کہ آپ نے 50 ہزار درہم اور پانچ سو اشرفیاں دے دیں اور فرمایا کہ مزدور لا کر اسے اٹھوا لے جا، اس کے بعد آپ نے مزدور کی مزدوری میں اپنا چغا بخش دیا۔

مراة الجنان، ص 123

ایک مرتبہ آپ نے ایک سائل کو خدا سے دعا کرتے دیکھا: خدایا مجھ 10 ہزار درہم عطا فرما۔ آپ نے گھر پہنچ کر مطلوبہ رقم بھجوا دی۔

نور الابصار، ص 122

آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ تو فاقہ کرتے ہیں لیکن سائل کو محروم واپس نہیں فرماتے۔ ارشاد فرمایا کہ میں خدا سے مانگنے والا ہوں، اس نے مجھے دینے کی عادت ڈال رکھی ہے اور میں نے لوگوں کو دینے کی عادت ڈالی رکھی ہے، میں ڈرتا ہوں کہ اگر اپنی عادت بدل دوں، تو کہیں خدا بھی نہ اپنی عادت بدل دے اور مجھے بھی محروم کر دے۔

نور الابصار، ص 123

امام حسن (ع) کا توکل کے متعلق فرمان:

امام شافعی کا بیان ہے کہ کسی نے امام حسن سے عرض کی کہ ابوذر غفاری فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تونگری سے زیادہ ناداری اور صحت سے زیادہ بیماری پسند ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خدا ابوذر پر رحم کرے ان کا کہنا درست ہے، لیکن میں تو یہ کہتا ہوں کہ جو شخص خدا کی قضا و قدر پر توکل کرے، وہ ہمیشہ اسی چیز کو پسند کرے گا، جسے خدا نے اس کے لیے پسند کیا ہے۔

مراة الجنان، ج 1 ص 125

امام حسن (ع) حلم اور اخلاق کے میدان میں:

علامہ ابن شہر آشوب تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن (ع) گھوڑے پر سوار کہیں تشریف لیے جا رہے تھے۔ راستے میں معاویہ کے طرف داروں کا ایک شامی بندہ سامنے آ گیا۔ اس نے حضرت کو گالیاں دینی شروع کر دیں، آپ نے اس کا مطلقا کوئی جواب نہ دیا۔ جب وہ اپنی جیسی کر چکا تو آپ اس کے قریب گئے اور اس کو سلام کر کے فرمایا کہ:

بھائی شاید تو مسافر ہے، سن اگر تجھے سواری کی ضرورت ہو تو میں تجھے سوری دوں، اگر تو بھوکا ہے تو کھانا کھلا دوں، اگر تجھے کپڑے درکار ہوں تو کپڑے دوں، اگر تجھے رہنے کو جگہ چاہیے تو مکان کا انتظام کر دوں، اگر دولت کی ضرورت ہے تو تجھے اتنا دیدوں کہ تو خوش حال ہو جائے۔ یہ سن کر شامی بے انتہا شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین خدا پر اس کے خلیفہ ہیں۔ مولا میں تو آپ کو اور آپ کے باپ دادا کو سخت نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا لیکن آج آپ کے اخلاق نے مجھے آپ کا گرویدہ بنا دیا ہے، اب میں آپ کے قدموں سے دور نہ جاؤں گا اور تاحیات آپ کی خدمت میں رہوں گا۔

مناقب، ج 4 ص 53

کامل مبروج، ج 2 ص 86

امیر المؤمنین علی (ع) کے دور میں امام حسن (ع) کی اسلامی خدمات:

تواریخ میں ہے کہ جب حضرت علی (ع) کو 25 برس کی خانہ نشینی کے بعد مسلمانوں نے خلیفہ ظاہری کی حیثیت سے تسلیم کیا اور اس کے بعد جمل، صفین، نہروان کی لڑائیاں ہوئیں، تو ہر ایک جہاد میں امام حسن (ع) اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ساتھ ہی نہیں رہے بلکہ بعض مواقع پر جنگ میں آپ نے کارہائے نمایاں بھی کیے ہیں۔

کتاب سیر الصحابہ اور روضة الصفاء میں ہے کہ جنگ صفین کے سلسلے میں جب ابو موسی اشعری کی ریشہ دوانیاں عریاں ہو چکیں تو امیر المومنین نے امام حسن اور عمار یاسر کو کوفہ روانہ فرمایا، آپ نے جامع کوفہ میں ابو موسی کی غلط حکمت عملی کو اپنی تقریر کے تریاق سے، بے اثر بنا دیا اور لوگوں کو حضرت علی کے ساتھ جنگ کے لیے جانے پر آمادہ کر دیا۔

کتاب اخبار الطوال کی روایت کی بناء پر نو ہزار چھ سو پچاس افراد کا لشکر علی (ع) کی حمایت میں تیار ہو گیا۔

مورخین کا بیان ہے کہ جنگ جمل کے بعد جب عائشہ مدینہ جانے پر آمادہ نہ ہوئی تو حضرت علی (ع) نے امام حسن (ع) کو بھیجا کہ اسے سمجھا کر مدینہ روانہ کریں چنانچہ وہ اس سعی میں ممدوح کامیاب ہو گئے۔

بعض تاریخوں میں ہے کہ امام حسن (ع) جنگ جمل و صفین میں علمدار لشکر تھے اور آپ نے معاہدہ تحکیم پر دستخط بھی فرمائے تھے اور جنگ جمل و صفین اور نہروان میں بھی سعی بلیغ کی تھی۔

فوجی کاموں کے علاوہ آپ کے سپرد سرکاری مہمان خانے کا انتظام اور شاہی مہمانوں کی مدارات کا کام بھی تھا۔ آپ مقدمات کے فیصلے بھی کرتے تھے اور بیت المال کی نگرانی بھی فرماتے تھے و غیرہ و غیرہ۔

امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کی شہادت اور امام حسن (ع) کی بیعت:

مورخین کا بیان ہے کہ امام حسن کے والد بزرگوار حضرت علی (ع) کے سر مبارک پر بمقام مسجد کوفہ 18 رمضان سن 40 ہجری بوقت صبح معاویہ ملعون کی سازش سے عبد الرحمن ابن ملجم مرادی لعین نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار لگائی۔ جس کے صدمے سے آپ نے 21 رمضان المبارک سن 40 ہجری کو بوقت صبح شہادت پائی۔ اس وقت امام حسن کی عمر 37 سال تھی۔

حضرت علی (ع) کی تکفین و تدفین کے بعد عبد اللہ ابن عباس کی تحریک سے بقول ابن اثیر، قیس ابن سعد ابن عبادہ انصاری نے امام حسن کی بیعت کی اور ان کے بعد تمام حاضرین نے بیعت کر لی، جن کی تعداد 40 ہزار تھی۔ یہ واقعہ 21 رمضان سن 40 ہجری یوم جمعہ کا ہے۔

کتاب کفایة الاثر میں علامہ مجلسی سے نقل ہوا ہے کہ اس وقت آپ نے ایک فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا جس میں آپ نے فرمایا کہ: ہم میں ہر ایک یا تلوار کے گھاٹ اترے گا یا زہر سے شہید ہو گا۔ اس کے بعد آپ نے عراق، ایران، خراسان، حجاز، یمن اور بصرہ وغیرہ کے عمّال کی طرف توجہ کی اور عبد اللہ ابن عباس کو بصرہ کا حاکم مقرر فرمایا۔ معاویہ کو جونہی یہ خبر پہنچی کہ بصرہ کے حاکم ابن عباس مقرر کر دیئے گئے ہیں، تو اس نے دو جاسوس روانہ کیے، ایک قبیلہ حمیر کا کوفہ کی طرف اور دوسرا قبیلہ قین کا بصرہ کی طرف، اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ امام حسن سے منحرف ہو کر میری طرف آ جائیں، لیکن وہ دونوں جاسوس گرفتار کر لیے گئے اور بعد میں انہیں قتل کر دیا گیا۔

حقیقت ہے کہ جب عنان حکومت امام حسن (ع) کے ہاتھوں میں آئی تو زمانہ بڑا پر آشوب تھا۔ حضرت علی (ع) جن کی شجاعت کی دھاک سارے عرب میں بیٹھی ہوئی تھی، درجہ عظیم شہادت پر فائز ہو چکے تھے، ان کی اچانک شہادت نے سوئے ہوئے تمام فتنوں کو بیدار کر دیا تھا اور ساری مملکت میں سازشوں کی کھیچڑی پک رہی تھی، خود کوفہ میں اشعث ابن قیس ، عمرو ابن حریث، شیث ابن ربعی وغیرہ کھلم کھلا بر سر عناد اور آمادہ فساد نظر آتے تھے۔ معاویہ ملعون نے جا بجا جاسوس مقرر کر دئیے تھے کہ جو مسلمانوں میں پھوٹ ڈلواتے تھے اور امام حسن (ع) کے لشکرمیں اختلاف و تشتت و افتراق کا بیچ بوتے تھے۔ اس نے کوفہ کے بڑے بڑے سرداروں سے سازشی ملاقات کیں اور بڑی بڑی رشوتیں دے کر انہیں توڑ لیا۔

بحار الانوار میں کتاب علل الشرائع کے حوالہ سے منقول ہے کہ معاویہ نے عمرو ابن حریث ، اشعث ابن قیس، حجر ابن الحجر، شبث ابن ربعی کے پاس علیحدہ علیحدہ یہ پیام بھیجا کہ جس طرح ہو سکے، حسن ابن علی کو قتل کرا دو، اور جو بھی یہ کام کرے گا، اس کو دو لاکھ درہم نقد انعام دوں گا، فوج کی سرداری عطا کروں گا اور اپنی کسی لڑکی سے اس کی شادی کر دوں گا، یہ انعام حاصل کرنے کے لیے لوگ شب و روز موقع کی تاک میں رہنے لگے، حضرت کو اطلاع ملی تو آپ نے کپڑوں کے نیچے زرہ پہننی شروع کر دی یہاں تک کہ نماز جماعت پڑھانے کے لیے باہر نکلتے تو زرہ پہن کر نکلتے تھے۔

معاویہ نے ایک طرف تو خفیہ توڑ جوڑ کیے اور دوسری طرف ایک بڑا لشکر عراق پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دیا، جب حملہ آور لشکر حدود عراق میں دور تک آگے بڑھ آیا، تو حضرت نے اپنے لشکر کو حرکت کرنے کا حکم دیا۔ حجر ابن عدی کو تھوڑی سی فوج کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے فرما یا آپ کے لشکر میں بھیڑ بھاڑ تو خاصی نظر آنے لگی تھی، مگر سردار جو سپاہیوں کو لڑاتے ہیں، کچھ تو معاویہ کے ہاتھ بک چکے تھے، کچھ عافیت کوشی میں مصروف تھے، حضرت علی (ع) کی شہادت نے دوستوں کے حوصلے پست کر دئیے تھے اور دشمنوں کو جرات و ہمت دلا دی تھی۔

مورخین کا بیان ہے کہ معاویہ 60 ہزار کی فوج لے کر مقام مسکن میں جا اترا، جو بغداد سے دس فرسخ تکریت کی جانب اوانا کے قریب واقع ہے۔ امام حسن (ع) کو جب معاویہ کی پیشقدمی کا علم ہوا تو آپ نے بھی ایک بڑے لشکر کے ساتھ کوچ کر دیا اور کوفہ سے ساباط میں جا پہنچے اور 12 ہزار کی فوج قیس ابن سعد کی سالاری میں معاویہ کی پیش قدمی روکنے کے لیے روانہ کر دی پھر ساباط سے روانہ ہوتے وقت آپ نے ایک خطبہ پڑھا، جس میں آپ نے فرمایا کہ:

لوگو ! تم نے اس شرط پر مجھ سے بیعت کی ہے کہ صلح اور جنگ دونوں حالتوں میں میرا ساتھ دو گے، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے کسی شخص سے بغض و عداوت نہیں ہے، میرے دل میں کسی کو ستانے کا خیال نہیں، میں صلح کو جنگ سے اور محبت کو عداوت سے کہیں بہتر سمجھتا ہوں۔

لوگوں نے حضرت کے اس خطاب کا مطلب یہ سمجھا کہ حضرت امام حسن، معاویہ سے صلح کرنے کی طرف مائل ہیں اورخلافت سے دستبرداری کا ارادہ دل میں رکھتے ہیں۔ اسی دوران میں معاویہ نے امام حسن کے لشکر کی کثرت سے متاثر ہو کر یہ مشورہ عمرو عاص کچھ لوگوں کو امام حسن کے لشکر والے سازشیوں نے قیس کے لشکر میں بھیج کر ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا کرا دیا۔ امام حسن کے لشکر والے سازشیوں نے قیس کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس نے معاویہ سے صلح کر لی ہے اور قیس ابن سعد کے لشکر میں جو سازشی گھسے ہوئے تھے، انہوں نے تمام لشکریوں میں یہ چرچا کر دیا کہ امام حسن نے معاویہ سے صلح کر لی ہے۔

امام حسن (ع) کے دونوں لشکروں میں اس غلط افواہ کے پھیل جانے سے بغاوت اور بدگمانی کے جذبات ابھر نکلے کہ امام حسن کے لشکر کا وہ عنصر جسے پہلے ہی سے شبہ تھا کہ یہ مائل بہ صلح ہیں کہ کہنے لگا کہ امام حسن (ع) بھی اپنے باپ حضرت علی (ع) کی طرح کافر ہو گئے ہیں۔

بالآخر فوجی آپ کے خیمے پر ٹوٹ پڑے آپ کا سارا اسباب لوٹ لیا، آپ کے نیچے سے مصلی تک گھسیٹ لیا، دوش مبارک پر سے ردا بھی اتار لی اور بعض نمایاں قسم کے افراد نے امام حسن کو معاویہ کے حوالے کر دینے کا پلان بھی تیار کر لیا تھا، آخر کار آپ ان بدبختیوں سے مایوس ہو کر مدائن کے گورنر، سعد یا سعید کی طرف روانہ ہو گئے۔

تاریخ کامل، ج 3 ص 161

معاویہ نے موقع غنیمت جان کر 20 ہزار کا لشکر عبد اللہ ابن عامر کی قیادت میں مدائن بھیج دیا۔ امام حسن اس سے لڑنے کے لیے نکلنے ہی والے تھے کہ اس نے عام شہرت کر دی کہ معاویہ بہت بڑا لشکر لیے آ رہا ہے۔ میں امام حسن اور ان کے لشکر سے درخواست کرتا ہوں کہ مفت میں اپنی جان نہ دین اور صلح کر لیں۔

اس دعوت صلح اور پیغام خوف سے لوگوں کے دل بیٹھ گئے، ہمتیں پست ہو گئیں اور امام حسن (ع) کی فوج بھاگنے کے لیے راستہ ڈھونڈنے لگی