counter easy hit

اوباما کا بھارت کا دورہ

 Barack Obama

Barack Obama

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

پچھلے دِنوں جب پہلے سیاہ فام امریکی صدر بارک اُوباما نام نہاد بھارتی یوم جمہوریہ پر تین روزہ دورے پر بھارت آئے تو وہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے چاپلوسیوں کے آگے ایسے لٹوہوگئے کہ وہ یہ بھی بھول بیٹھے کہ اِنہیں جو شخص اپنے مفادات کے خاطر اربوںاور کھربوں ڈالرکی وصولی کے لئے جپھی ماررہاہے، اورآج جو شخص اِنہیں اپنے ہاتھ سے چاپلوسی کی چاشنی ڈال کرچائے بناکرپیش کر رہاہے ،اور آج جس کے ساتھ امریکی صدرہاتھ میں ہاتھ ڈالے مزے مزے سے ٹہل کر ٹہل کر تنہائی میں سرگوشی کررہے ہیں،جو شخص بے تکلفی سے اِنہیں بار بار ” بارک “ کہہ کہہ پکار رہا ہے

جو شخص یعنی کہ بھارتی چاپلوس وزیراعظم نریندر مودی اِن کی بیوی مشیل کو 100ساڑھیوں کا تحفہ دے رہاہے ،یہی وہ نریندر مودی ہے جِسے امریکی 2005میں بھارت کے ہند و مسلم فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل پر دنیاکا سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص قرار دیتے تھے ، اور آج اِسی خوشامدی اور چاپلوس شخص نے امریکی صدر کو ایسازیرکیا ہے کہ امریکی صدر اوباماسب کچھ بھول کر اِس پر عاشق ہوگئے ہیں کہ خود امریکی بھی حیران ہیں آج امریکی صدر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہاں… میں ہاں…. ایسے ملانے لگے ہیں کہ جیسے یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں

جس خواہش کابھی اظہارکررہے ہیں امریکا بھی یہی چاہتاہے اور پھر واقعی نریندرمودی کا خوشامدانہ جادو امریکی صدر پر ایساچلا کہ دنیانے دیکھاکہ امریکی صدر بارک اوبامااتوارکو اپنے دورہ بھارت کے پہلے ہی روز حیدرآبادہاو¿س میں بھارتی چاپلوس وزیراعظم نریندرمودی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں ہندی بولنے کی ایسی تیاری کے ساتھ آئے کہ اُنہوں نے بھارتی عوام کو مخاطب ہوتے ہوئے یہ بھی کہہ دیاکہ” میراسب کو پیار بھر انمسکار“اور پھر امریکی صدر نے نریندرمودی کو اپنے لئے پروٹوکول توڑنے اور اپنے ہاتھ سے چائے بناکر پلانے کا بھی بہت شکریہ اداکیا اور مودی کی جانب کچھ اِس انداز سے گھوراکہ جیسے یہ اپنی نظر میں کہہ رہے ہوں

واہ…!!بھارتیوں خوشامد اور چاپلوسی میں تو تم نے ساری دنیا کو بھی پیچھے چھوڑدیاہے،اور پھر اِس موقعے پر امریکی صدر بارک اُوبامانے جیسے بھارت پر امریکی نوازی کے سارے ہی بنددروازے کھول دیئے اور امریکی صدر نے اپنی پریس کانفرنس میں لہک لہک کر (جیسے یہ پاکستان کو تپانے اور جلانے کے لئے کررہے ہوں)یہ اعلان بھی کردیا کہ ”امریکااور بھارت کے درمیان اربوں ڈالر کے سول ایٹمی معاہدے پر اختلافات ختم اور بھارتی مطالبات تسلیم کرلئے گئے اورآج امریکاجوہری موادکی نگرانی کے مطالبے سے دستبردارہوگیاہے، اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں بھارت قابل اعتماد پارٹنر ہے

جبکہ امریکی صدراوباما نے سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت کردی، دونوں ممالک میں دفاع، تجارت، ماحولیات اور دیگر شعبوں میں تعاون کے فروغ پر بڑھ چڑھ کر اتفاق ہواجبکہ ڈرون ائیر کرافٹ کی مشترکہ پیداوارکی جائے گی، فوجی ٹرانسپورٹ طیاروں کے آلات اور قابل تجدید توانائی پربھی معاہدے کئے گئے اور ساتھ ہی امریکی صدر نے بھارتی خارجہ پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ” نئی دہلی سے بہتر تعلقات خارجہ پالیسی میں سرفہرست ہیں“ جبکہ اِس موقعے پر بھارتی چاپلوس وزیراعظم نریندر مودی نے پہلے امریکی صدر بارک اوباما کو فاتحانہ انداز سے دیکھا اور دل ہی دل میں کہاکہ بس میری اتنی سی خوشامدو چاپلوسی یامیری تھوڑی سی ٹی ٹی بی ہی تمہیں ڈھیڑکرگئی اور تم میرے اتنے سے عمل سے پہلے ہی روز اتناکچھ دے گئے

جو ہمارے گمان سے بھی زیادہ ہے ابھی تو دودن اور باقی ہیں، دیکھتے ہیں کہ ہماری خوشامداور چاپلوسی و ٹی ٹی بی کیاکیا رنگ لاتی ہے..؟ اور پھربھارتی وزیراعظم نے ایک لمحے کو اپناسرجھٹکاجس سے وہ حقیقی دنیامیں و اپس آئے اور پھر بولے کہ ” بھارت کے ساتھ امریکی تعاون ہندوستان کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا، اِن امریکی نوازیوں کو بھارت کبھی بھی نہیں بھول پائے گا۔

اگرچہ خدشہ ہے کہ بھارتی انتہائی خوشامدی اور چاپلوس وزیراعظم نریندر مودی نے گارڈ آف آنر کے وقت راشٹرپتی بھون میں ایک آوارہ بھارتی کُتے کے اچانک گُھس آنے اور گارڈ آف آنر کا مزہ کِرکِراکرنے پر امریکی صدر سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی ہوگی اور یہ بھی شائد کہہ دیاہو کہ یہ ہمارے کسی پڑوسی ملک کی شرارت بھی ہوسکتی ہے، ہم اِس معاملے کو بعد میں خود دیکھ لیں گے مگر بارک میں کُتے کی حرکت پر آپ سے معافی مانگتاہوں آپ ایک لمحے کو یہ سمجھ لیں کہ” میں ہی وہ ہوں جو گارڈ آف آنر کے وقت راشٹرپتی بھون میں گُھس آیاتھا “پھر مودی کے چاپلوسانہ رویئے کو دیکھتے ہوئے اِنہیں بارک اُوبامانے بھی معاف کر دیا ہو گا۔

لوبھئی بھارتیوں…!! آج مان گئے تمہاری چاپلوسی میں بڑا جادو ہے، یہاں ہم نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے جادوئی چاپلوسی کی داستان بھی بیان کردی ہے اور یہ بھی بتادیاہے کہ سب سے پہلے تو بھارتی وزیراعظم مودی نے نئی دہلی ائیرپورٹ پرامریکی صدر بارک اوباما کا خود استقبال کرکے طے شدہ پروٹوکول کو کیوں توڑا…؟؟اور عالمی برادری سمیت ساری دنیا کو یہ میسج دے دیاکہ اِن کا یہ چاپلوسانہ عمل بھلے سے کسی کو ایک آنکھ بھی نہ بہائے مگر امریکی صدرکا بھارت کا یہ دورہ بھارت کے لئے کتنی اہمیت کا حامل ہے، اِس سے بھارت کو کیا کیافائدے حاصل ہوں گے اور اِن فائدوں سے بھارت خطے میں کیا کیا طوفان برپاکرے گا …؟؟یہ تو آنے والے وقت میں بھارت کے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان اور چین ہی بتائیں گے کہ بھارت اگلے وقتوں میں اِن کے لئے کتنامشکل ترین پڑوسی ثابت ہوگا…؟؟۔

بہرحال …!!اَب ہم پاکستانیوں کو امریکی کی بھارت نوازی پر لکیر پیٹنے اور کفِ افسوس ملنے کے بجائے… یہ بات تسلیم کرلینی چاہئے کہ یقینا ہماری سفارتی پالیسیوں میں بہت زیادہ نقائص موجود ہیں آج جن کی وجہ سے امریکا نے پاکستان کے مفادات کو نظراندازکیا ہے اور ہم پر امریکا نے دیدہ ودانستہ طورپر بھارت کو ترجیح دی ہے،ایسے میں مان لو پاکستانیوں…!!کہ ہماری خارجہ اور سفارتی پالیسی میں انگنت سُقم موجودہیں ہم اِنہیں جب تک دور نہیںکرلیتے اُس وقت تک ہماری بے قدری امریکا کے نزدیک جاری رہے گی۔

اَب موجودہ حالات و اقعات کے تناظر میں لازم ہے کہ ہم اپنی خارجہ اور سفارتی پالیسیوں کا ارسرِ نوجائزہ لیں اور اِنہیں درست کرنے کی سعی کریں، اگر ہم ابھی ا یسانہیں کرسکے اور یوں ہی خوابِ خرگوش میں پڑے رہے اور جیسے ہیں… جہاں ہیں…. کی بنیادپر امریکا کا دامن تھمامے رہے اور اُمیدکے اِس دلدل میں دھنسے رہے کہ کبھی نہ کبھی تو امریکاہماری بھی قدر کرے گا …توجناب…!! یہ ہماری بھول ہوگی کیوں کہ امریکا ایسا طوطا چشم ہے کہ یہ کبھی بھی ہماری حالتِ زار اور ہماری کسمپرسی پر ترس نہیں کھائے گا یہ ہمیں یونہی ہمیشہ خطے سے وابستہ اپنے مفادات کے خاطر استعمال کرتارہے گا اور یوں ہی ہم ہر بار چندڈالروں کے عوض امریکی مفادات کے خاطر اِس سے چمٹے رہیں گے اور خودکو امریکی مفادات کاتحفظ کرتے ہوئے ذبح کرنے کے لئے بکرابناکر پیش کرتے رہیں گے مگرہم پھر بھی امریکیوں کی نظر میں اپنا وہ مقام نہیں بناسکے گیں، آج جو بھارت اپنی مضبوط اور ہر قسم کے سُقم سے پاک خارجہ و سفارتی پالیسیوں کی وجہ سے کچھ نہ کرکے بھی بناچکاہے اور امریکی نوازیوں کے سارے بنددروازے اپنے اُوپر کھلوا چکا ہے۔

اَب اِس منظر اور پس منظر میں تو ہمارے حکمرانوں کو کھلی آنکھوں کے ساتھ یہ بات جان لینی چاہئے کہ ہماری فرسودہ خارجہ و سفارتی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا کی نظر میں ہماری اہمیت اِس کے مفاداتی پُرزے جتنی ہے جِسے یہ جب چاہتاہے اپنے مفادات کے خاطر استعمال کرلیتاہے پھر ٹشو پیپرکی طرح بیکارسمجھ کرایک طرف پھینک دیتاہے ،اور ہم مایوسیوں کے سمندرمیں غرق ہوجاتے ہیں سو اَب یہ نقطہ ہمارے حکمرانو، سیاستدانوں اور ہمارے اداروں کے سربراہان کو سمجھنا چاہئے کہ ہمارا امریکا سے یوں چمٹے رہنے کا کچھفائدہ نہیں ہے، جب ساری امریکی نوازیاں بھارت کے لئے ہیں تو امریکا اپنی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا ٹھیکہ بھی بھارت کو دے دے ہم اِس ٹھیکے سے دستبردار ہوتے ہیں۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com