اسلام آباد(ایس ایم حسنین) قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ ایوان کے علاوہ کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پورے پاکستان کا نمائندہ جرگہ بیٹھتا ہو۔ ایوان سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر کام کرتاہے۔ اور ہم نے بہت سے مواقع پر یہ ثابت بھی کیا ہے۔ جب ہم اپوزیشن میں تھے توقومی مسائل پر حکومت کا ساتھ دیا۔ ایوان میں مضبوط اپوزیشن موجودہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کو سنتا ہوں تو ان کو بھی میری حیثیت اورہستی کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہاں بٹھانے کی باتیں کرنے والے بتائیں انھیں 80 کی دھائی سے لے کر اب تک کون بٹھاتا چلا آرہا ہے۔ انھوں نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا اسعد محمود کا نام لے کر کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ جمعیت کی بھی نوجوان قیادت سامنے آرہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے 40 سال ایوان میں بیٹھ کر ملک میں مسائل پیدا کیے ۔ اب اوزیراعظم عمران خان کے دو سال کا حساب مانگ سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بڑی بڑی اکثریت لینے والوں کو بھی ڈوبتے دیکھا ہے۔ ہمیں بٹھانے کی باتیں کرنا ہمارے کروڑوں ووٹروں کی توہین ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ چور دروازوں سے اقتدار میں آتے رہے۔ مگر وزیراعظم عمران خان نے 22 سال کی محنت کے بعد اقتدار حاصل کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایک وکیل ہوں اور ہم آئینی لوگ ہیں اور آئین کا احترام کرتے ہیں۔ پہلے دن جب وزیراعظم نے حلف اٹھایا اس دن حکومت کی کوئی کرپشن نہیں تھی مگر پھر بھی اپوزیشن نے بے جا شورشرابہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی ایوان سے ہم نے حضرت محمد ﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبین لکھنے کی قرارداد پاس کی۔ ہم سب نے مل کر یونیورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم کا بل پاس کیا۔ یہ جمعیت کا ایجنڈا بھی ہے جسے وزیراعظم عمران خان لے کر دنیا کے سامنے جارہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کے تمام راہنمائوں کا احترام کرتے ہیں مگراپوزیشن بھی ہمارا احترام کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان شارٹ کٹ سے نہیں آئے۔ بہت سے لوگ ایوان میں شارٹ کٹس سے آئے ہیں مگر تحریک انصاف جدوجہد کے بعد ایوان میں آئی ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں مسلم لیگ ن کے راہنما رانا تنویر حسین نے اپوزیشن کی جانب سے تحاریک پیش کیں جھنیں کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اسلام آباد: قومی اسمبلی نے اسمگلنگ روک تھام آرڈیننس کو توسیع دینے کی تحریک کثرت رائے سے منظور کرلی۔ مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے اسمگلنگ روک تھام آرڈیننس کو توسیع دینےکی تحریک پیش کردی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نوید قمر نے تحریک کی مخالفت کردی۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ آرڈیننس کورونا کےخاص حالات میں آیا تھا۔ مجبوری میں توسیع مانگ رہے ہیں، قانون سازی کریں گے۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے راہنما سید نوید قمر نے کہا کہ حکومت قانون سازی کیلئے افہام وتفہیم کی کوششیں نہیں کرتی۔ قائمہ کمیٹیوں میں سیاسی پارٹی سے ہٹ کر بات ہوتی ہے تاکہ اگر قانون سازی کیلئے کچھ جوڑ توڑ کرنا پڑے تو افہام وتفہیم کے ساتھ کرلیا جائے۔ مگر حکومت پیشہ ورانہ مہارت دکھانے کے بجائے ایمرجنسی میں آرڈیننس لے آتی ہے ۔ جبکہ قانون سازی کیلئے قومی اتفاق رائے ہونا بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر آرڈیننس بل بن جاتا ہے۔ اس لیے آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی خراب قانون سازی کی نشانی ہے۔ کسی بھی قانون کا مواد اہمیت نہیں رکھتا مگر اس پر اتفاق رائے سب سے اہم ہے۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت پہلے بل پیش کرے تاکہ قانون سازی کا طریقہ کار مکمل ہوسکے۔وزیراعظم کے مشیر بابراعوان نے کہا کہ فیٹف کے تقاضوں کی وجہ سے اسمگلنگ آرڈیننس ان حالات میں پیش کیا گیا۔ یہ سب جانتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن کی افہام وتفہیم کے ساتھ قانون سازی کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے بعد مبر قومی اسمبلی فیاض الدین نے امیگریشن آرڈیننس می ترمیمی بل پر رپورٹ پیش کی۔اس کے بعد قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین راجہ خرم شہزاد نے اینٹی ٹیررازم بل 2020 کی رپورٹ پیش کی۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو فیض اللہ نے کمیٹی کی رپورٹ برائے پارٹنرشپ ایکٹ کا ترمیمی بل پیش کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے کمپنیز ایکٹ کا ترمیمی بل 2020 بھی پیش کیا۔ ممبر قومی اسمبلی عاصمہ قدیر نے توجہ دلائو نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیر برائے انسانی حقوق ملک میں خواجہ سرائوں پر تشدد کا نوٹس لیں ۔ ملک بھر سے خواجہ سرائوں پر تشدد کی رپورٹس آرہی ہیں۔ جس سے امن وامان میں خلل پڑ سکتا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے ممبر قومی اسمبلی لال چند نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں میں ایسے صرف تین کیسز ہیں۔ جبکہ یہ صوبائی معاملہ ہے اور خواجہ سرائوں کو پاکستان پینل کوڈ کے تحت برابری کے حقوق حاصل ہیں۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام ف کے رکن اسمبلی مولانا اسعد محمود نے کہا کہ میوچل اسسٹنس بل پر حکومت اوراپوزیشن سے شکوہ کیا۔
ہمارا شکوہ تھا کہ ہم سےمشاورت کیوں نہیں کی گئی۔ ہم نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو تجاویز دیں کہ وہ شامل کرالیں۔
مولانا اسعد محمود نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کمزور اعصاب کے مالک ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی اے پی سی میں اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پربات کروں گا۔ آج اسپیکرکےکردارنےہمارےموقف کی تائیدکردی۔
انہوں نے کہا تھا کہ حکومت چاہتی تھی کہ اپوزیشن ان بلزپربات نہ کرے۔ ہم کوشش کریں گےاپوزیشن جماعتیں ایک پیج پرآجائیں۔ ایک غیرمتنازع بل کوبھی متنازع بنادیاگیا۔ یہ لوگ ایف اےٹی ایف کواستعمال کرکےاپنےآپ کوآمرانہ طاقت دےرہےہیں۔
بلاول کا کہنا تھا کہ حکومتی انا اورآمرانہ سوچ کی وجہ سےمسائل جنم لےرہےہیں۔ حکومتی رویہ عوامی مسائل میں اضافہ کرےگا۔ ایف اےٹی ایف کے مطالبات پاکستان سے جڑے ہیں، وہ ہم پورےکریں گے۔
چیئرمین پیپلز بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ آپ لوگ میری اوراپوزیشن کی آوازبندنہیں کرسکتے۔ آصف زرداری نےشروع میں کہاتھاکہ نیب اورمعیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ ہم کسی این آراومیں دلچسپی نہیں رکھتے۔ حکومت چاہتی ہےاپوزیشن ایوان میں نہ بولے۔
انہوں نے کہا تھا کہ واضح کرنا چاہتاہوں نیب آرڈیننس پی ٹی آئی لے کرآئی ہے۔ حکومت نےآج جوکیاوہ سمجھ سےبالاترہے۔ حکومتی دھمکیوں اورپروپیگنڈےسےاپنےحقوق سےدستبردارنہیں ہوں گے۔
بلاول کا کہنا تھا کہ حکومت نے بی آرٹی، مالم جبہ، چینی اورگندم اسکینڈل پراین آراودیا۔ شہزاداکبرنے 2 سال بعد اپنی جائیداد ظاہرکی۔
ہم پرجوالزامات لگائےگئے ہم سامناکررہے ہیں لیکن آپ اسٹے آرڈر کے پیچھے چھپے ہیں۔